ہم سمجھتے ہیں زبان مسئلہ نہیں مگر زبان بہت بڑا مسئلہ ہے، سمرسٹ نے کہا تھا کہ اگر زبان اور آنکھ کا درست استعمال ہو تو انسان آدھا شریف گنا جائیگا، زبان کے بارے میں صدیوں پہلے علماء نصیحت کر چکے ہیں کہ پہلے تو لو پھر بولو، نصیحتوں سے کہیں انسان بدلا کرتے ہیں، ایسا کم ہی ہوا ہوگا، زبان کی ایذا رسانی بھی رکی نہیں، ایک بات میر صاحب کے حوالے سے زبان زدِ عام ہے کہ میر صاحب نے دورانِ سفر گاڑی چلانے والے سے گفتگو نہیں کی گاڑی بان نے کہا میں اتنی دیر سے بات کر رہا ہوں آپ جواب ہی نہیں دیتے تو میر صاحب نے کہا کہ تم سے گفتگو کروں گا تو میری زبان خراب ہو گی، بات یہیں تک نہیں اہل دل ہی سمجھ سکتے ہیں کہ گھنٹوں کے اس سفر میں گاڑی بان بول رہا تھا اور میر صاحب سن رہے تھے تو میر صاحب کی سماعتیں کس بری طرح مجروح ہوئی ہو نگی، مجھے فراق صاحب کا وہ واقعہ بھی یاد آیا جب ایک کاروباری سیٹھ فراق کے ہاں اپنے لڑکے کا رشتہ لے کر آیا پڑھا لکھا شخص نہ تھا کسی مقامی لہجے میں بات کرتا رہا، فراق سے نہ رہا گیا، اور کہا آپ مستقل میرے کانوں میں پیشاب کر رہے ہیں، اس ایذا کا اندازہ لگائیے جس سے فراق گزرے، زبان ایذا دیتی ہے ویسے تو ہر مہذب معاشرے میں زبان درازی کو ناپسند کیا جاتا ہے امریکہ میں بھی گھٹیا زبان استعمال ہو تو کہا جاتا ہے WATCH YOUR MOUTH برطانیہ میں حالات تو بدلے ہیں مگر زبان کا ایک معیار رہا ہے KING ENGLISH ان کے لئے ایک معیار رہا ہے چند سال پہلے کنگ چارلس نے بھی کہا کہ امریکی انگریزی سے بچنا، تاریخ میں یہ واقعہ بھی درج ہے کہ شہزادہ جہانگیر نے ایک شخص کو فارسی میں گدھا کہہ دیا، اکبر تک شکایت گئی اکبر نے جہانگیر کو سمجھایا کہ بادشاہوں اور شہزادوں کی زبان اور ہوتی ہے اور کمہار کی زبان اور اُردو کی پرورش چونکہ محلات اور درباروں میں ہوئی اس لئے اس کو ایک خاص تہذیب سے جوڑا گیا اور کہا جانے لگا کہ اُردو ایک تہذیب ہے، پنجاب میں اُردو پر بہت کام ہوا مگر یہ بات بھی درست ہے کہ پنجاب میں اُردو زبان میں بگاڑ بھی پیدا ہوا، لہجہ اور تلفظ متاثر ہوا کنفیوشس سے کسی نے پوچھا کہ اگر آپ کو حکومت مل جائے تو آپ کیا سدھار لائیں گے تو کنفیوشس نے کہا کہ وہ لوگوں کی زبان درست کرینگے ، زبان کے معاملات نازک ہوتے ہیں، زبان اس وقت تک درستگی کے ساتھ نہیں بولی جاتی جب تک زبان کے پیچھے علم کی طاقت نہ ہو تعلیم ہی زبان میں نکھار پیدا کرتی ہے، علم کے بغیر اچھی زبان نہیں بولی جا سکتی، مناسب الفاظ کا انتخاب زبان کو خوبصورت بناتا ہے اور سماعتوں میں خوشبو اترتی ہے یہ بات حیرت انگیز ہے کہ جن قوموں کے پاس تہذیب علم اور زبان تھی ان کو عروج ملا اور وہ آج بھی دنیا میں ممتاز ہیں، زبان بگڑ جاتی ہے جب مختلف معاشروں اور تہذیبوں کا ادغام ہوتا ہے پاکستان میں پنجابی، سندھی، پشتو کی ملاوٹ کے اثرات اُردو پر دیکھے جا سکتے ہیں، زبان کے تحفظ کا کام اداروں پر عائد ہوتا ہے مثلا ریڈیو پاکستان نے غیر محسوس طریقے پر اُردو کے تلفظ اور ادائیگی پر کام کیا، ریڈیو پاکستان نے بڑے شاعروں کا تلفظ بھی درست کیا، کچھ جرائد بھی معنی اور تلفظ پر کام کرتے رہے، مگر زبان کو بگاڑنے میں اخبارات نے اہم کردار ادا کیا، طلباء کو طلبہ لکھا جاتا رہا اور یہی مستعمل بھی ہو گیا، نہ اور نا کا فرق بھی جاتا رہا، کمپیوٹر کی ایجاد نے ایک نئی زبان کو متعارف کرایا جس میں گرائمر اور PUNTUATION کو نظر انداز کر دیا گیا، مگر پھر کتابی زبان مختلف ہی رہی، سوشل میڈیا میں فیس بک اور ٹیوٹر پر نئی زبان کا استعمال عام ہوا مغربی ممالک میں عام لوگوں کی مصروفیت میں یہ سب کچھ روا تھا اس میں غصہ اور بیزاری کا اظہار بھی تھا مگر اس میں بھی عام زبان ہی استعمال ہوئی، اُردو سوشل میڈیا بد قسمتی سے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال ہوا ، عمران کے زمانے میں سوشل میڈیا پر بہت منظم طور پر استعمال کیا گیا اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے تمام BARRIERS گرا دئے گئے پروپیگنڈا کرنا تھا عوام کے ہر طبقے میں غصہ اور نفرت بھرنی تھی اشتعال دلانا تھا تو بہت بازاری زبان کا استعمال کیا گیا KEYBOARD WARRIORS کو اجازت تھی کہ وہ مخالفین کو مغلظات سے نواز سکتے ہیں، ان سوشل میڈیا ورکرز کا تعلق نوجوان بچوں سے بھی تھا جنہوں نے بلا تکلف سوشل میڈیا پر سب مخالفین کی ماں بہن ایک کر کے رکھ دی اور مخالفین اس کی تاب نہ لاسکے اس کام پر ان کو شاباش دی گئی عمران ایوان وزیر اعظم میں U TUBERS اور وی لاگرز سے ملاقاتیں کرتے رہے اور اس زبان کی حوصلہ افزائی ہوتی رہی، کبھی کسی دلیل کا جواب نہیں دیا گیابلکہ دلیل کا جواب گالی سے دیا گیا، ہم فیس بک پر پوچھتے رہے کہ ہمیں عمران کا نظریہ ، ان کا پروگرام سمجھا دیں مگر اس کا جواب گالی ہی ملا، عمران نے اپنے سیاسی حریفوں کو بہت ذلیل کیا اور ان کی کوشش کامیاب ہوئی کہ سارا جوان طبقہ نواز شریف اور زرداری کو اب چور ڈاکو ہی سمجھتا ہے، انہوں نے ملک سے باہر بھی تمام سیاست دانوں کو چور ڈاکو کہا، ایک موقع پر بیرون ملک شہباز کو امداد دینے والوں سے یہ کہنا پڑا کہ یہ امداد شفاف طریقے سے استعمال ہوگی، مقامی سوشل میڈیا ورکرز میں تو اسکول کالج کے بچے بھی تھے جو نا سمجھ تھے مگر OVERSEAS SOCIAL MEDIA KEYBOARD WARRIORS نے فوج اور جبزلز کے خلاف ایسی گندی اور غلیظ مہم چلائی کہ الامان و الحفیظ، ان لوگوں نے جوں، ان صحافیوں کو بھی نہیں بخشا جو عمران کی سیاست پر سوال اٹھاتے تھے ان میں خواتین صحافی بھی شامل تھیں ان سب پر کیچڑ اچھالی گئی، یہ کام منظم طریقے سے امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ میں ہوا بد قسمتی سے ان میں ریٹائرڈ فوجی افسران بھی شامل ہیں ٹیوٹر پر امریکہ میں کرنل (ر) افتخار نقوی بھی شامل تھے جو سو شل میڈیا ورکرز بھرتی کرتے رہے سنا ہے ان کی باقاعدہ تربیت کی جاتی تھی اور ان کو مشاہرہ بھی ادا کیا جاتا رہا، حکومت نے سوشل میڈیا کو REGULATE کرنے کے لئے پہلے ایف آئی اے کو یہ کام سونپا ایف آئی اے نے مقامی سوشل میڈیا ورکرز کو بہت حد تک کنٹرول کیا مگر اب حکومت نے NATIONAL CYBER CRIME INVESTIGATION AGENCY تشکیل دی ہے اور ایف آئی اے کے اختیارات اس کو تفویض کر دئے ہیں، اس کی زد میں وہ وی لاگرز اور یو ٹیوبرز بھی آئینگے جو ملکی مفاد کے خلاف کام کر رہے ہیں یہ لوگ پہلے الیکٹرانک میڈیا سے متعلق تھے جب یہ انکشاف ہوا کہ سوشل میڈیا سے ڈالرز کمائے جا سکتے ہیں تو یہ ٹیوٹر اور یو ٹیوب پر اپنے چینل کھول کر بیٹھ گئے ، سارا دن فیک نیوز ، مس انفار میشن ، ڈس انفارمیشن سے یہ خوب مال کماتے عمران کے چاہنے والے ان کو بے تحاشا لائکس سے نوازتے تھے ان لائکس سے ان کی روزی جڑی ہوئی ہے ان لوگوں میں اسد علی طور، مطیع اللہ جان، ڈاکٹر مالک اور ، ڈاکٹر معید پیرزادہ بھی شامل ہیں، اب کہا جا رہا ہے کہ اس نئی ایجنسی کے ذریعے FREEDOM OF SPEECH کو کچلا جا رہا ہے ان کی ہم نوائی دیگر بھی کر رہے ہیں جو صحافی ہیں ہی نہیں، تنقید صحافی کا حق ہے مگر صحافت کی آڑ میں فوج کے ادارے کو برباد کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، فوج پر مثبت تنقید ہم نے بھی ہے مگر حدود و قیود میں ، آزادی بذات خود کچھ پابندیوں کا نام ہے اور صحافی کو ان دائروں میں رہنا چاہیئے جو صحافت کی تعلیم نے خود کھینچ دی ہیں، سوشل میڈیا کو تنقید کے لئے ضرور استعمال کیجیے مگر زبان کا استعمال سیکھ کر آنا ہوگا، اور بات اخلاقی دائروں میں کرنی ہوگی۔
0