گناہوں سے اجتناب کرتے ہوئے راہ ِ نجات پانا یقینا قدرت کی منشاء ہوتی ہے جو ہدایت و صراط المستقیم پر گامزن کرتے ہوئے دنیا و آخرت کی آسودگی بہ رضائے الہی عطا ہوتی ہے نجس سے نجات کا تہیہ نیت پر منطبق ہوتا ہے کہ انسان اپنے برے کاموں کی آلودگی سے کس قدر بیزار ہو کر اُسے چھوڑنے پر راضی ہے گویا ابلیس سے قطع تعلق اور رحمان سے دوستی ہی راہ ِ نجات کہلاتی ہے پُر لطف دنیا کی رنگینیاں اور اُس کے دلکش نظارے بیشک انسان کو آخرت سے بیگانہ اور فانی جہاں کا دیوانہ بنائے رکھتی ہیں پھر بڑھاپا جب دستک دینے لگتا ہے یا جسے اللہ کی ہدایت کی روشنی کم نظری میں بھی نظر آنے لگتی ہے تو اُس کے قدموں کا رُخ مہ خانے سےہٹ کر مسجد کی جانب گامزن ہو جاتا ہے ایسے بندے کے ذہن میں مجوزہ تبدیلی عنایت الٰہی ہوتی ہے مگر چند ایک عاقبت نا اندیش بر سبیل ِ تذکرہ ماضی کو کریدتے ہوئے اُس کے سیاہ داغ دار ماضی کو سامنے لا کرراہ نجات کے سویرے کو گناہ آلود اندھیروں میں منتقل کرنے کی ناکام کوششوں میں مگن رہتے ہیں یہ روایات ہمارے معاشرے میں بڑے ذہین و فطین اشخاص جن کے کاندھوں پر علم کی بڑی بڑی کتابیں اور ناموں کے ساتھ بڑی بڑی ڈگریاں جو نام سے ذرا زیادہ نمایاں ہوتیں ہیں ایسے لوگ بھی عیب جوئی میں اپنا حصہ ڈال کر دلی مسرت محسوس کرتے ہیں۔
غیبت کرنے میں نہ جانے کیا راحت ہے جس میں ہر کوئی مشغول رہتا ہے میں عالم تو ہوں نہیں مگر مذہب کی چند ایک بنیادی باتوں کو سطحی طور پر کہہ لیں ضرور جانتا ہوں جس میں جھوٹ کہنا بولنا انتہائی برا لگتا ہے سیاست میں صرف جھوٹ پر اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ بہتان تراشی سے لیکر ممکنہ غیر اخلاقی اقدامات تک سے دریغ نہیں کیا جاتا یہ لوگ عوام سے جسے نظریے پر ووٹ لیکر مسند نشین ہوتے ہیں تواقتدار کے غرور میں اُن کو سارے وعدے بھول جاتے ہیں صرف اقتدار کی طوالت اور ذاتی مفادات کی نگہبانی ترجیح ہوتی ہے جس سے عوامی مشکلات کے اضافے کے ساتھ ساتھ اداروں کی کارکردگی بھی شدید متاثر ہوتی ہے سیاست کے اس ایک عمل سے ملک شدید بحرانوں کا شکار ہو جاتا ہے جس کا آج کل ہمیں سامنا ہے ۔دیکھا جائے تو سیاست جسے کرب و الم کے پہروں میں کئی دھائیوں تک جکڑ کر رکھا گیا ہے جس سے جمہوری روایات عوامی سطح پر پورے طریقے سے متعارف ہی نہیں ہوئیں یہی وجہ ہے کہ عوام کا یقین جھوٹے وعدوں کے زہر سے کب کا مر چکا ہے بس انتخابات کی ایک رسم ہے جسے دکھاوے کے طور پر آئینی احترام میں نبھایا جاتا ہے غور کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ سیاست اب قید ِ مسلسل سے اکتا چکی ہے وہ آزادی چاہتی ہے اپنے دائرے کار میں کسی دوسرے کی مداخلت اُسے برداشت نہیں وہ نظام ِ سلطنت کی ساری اکائیوں کے سر اپنے دربار میں جھکے ہوئے دیکھنا چاہتی ہے مگر سیاست کی کم عمری کے پیش ِ نظر اسے اُمور ِ سلطنت کے سارے اختیارات تفویض کرنے سے ریاستی استحکام کو کئی ایک خطرات لاحق ہو سکتے ہیں جیسے چھوٹے بچوں کو اکیلے بازار بھیجنے سے والدین کتراتے ہیں ایسے ہی مقتدر حلقے ریاست کی ساری عملداری سیاست دانوں کے حوالے کرنے سے اپنے خدشات میں مزید اضافہ نہیں کرنا چاہتے سیاسی ہاتھوں کو ابھی تک معیشت کی باگیں درست طریقے سے پکڑنی نہیں آئیں مہنگائی بے لگام گھوڑے کی طرح سرپٹ آگے بڑھ رہی ہے جسے روکنے میں ہمارے معاشی ماہرین کی ذرہ برابر کاوش بھی منظر ِ عام پہ نہیں ہیں مہنگائی سے نجات کے لئے پہلے بھی کئی بار کہہ چکا ہوں کہ غیر ضروری اخراجات و سہولیات کا قلع قمع کرو یہی حل ہے غربت کی چادر میں سمٹ کر رہنے کا اور یہی راہ ِ نجات ہے جو یقینا ہمیں معاشی ، و ریاستی استحکام کی جانب لے جاتے ہوئے تمام بحرانوں کا خاتمہ ممکن کر دے گی۔
0