مسئلہ
دشمنی امن کی مسلمانوں سے کیا رنگ لائے گی
لکھ رہی ہے ہر عمل تاریخ، یہ بتلائے کون
ڈوبنے کو ہے سفینہ جبر و استبداد کا
مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیل کو سمجھائے کون!
تیسری دنیا کے ممالک میں حکومتیں کاروبارِ حکومت چلانے کے لئے بینکوں سے قرضے لیتی ہیں تاکہ معیشت کا پہیہ چلتا رہے۔ کبھی کبھی بینکوں سے قرض لینے کی بات اربوں سے نکل کر کھربوں تک جا پہنچتی ہے اور حکومتوں کے لئے یہ مسئلہ پہاڑ بن کر سامنے آتا ہے کہ یہ قرض ادا کس طرح ہو گا۔ عموماً حکومتیں غالب کے اس شعر پر توجہ نہیں دیتیں کہ؎
قرض کی پیتے تھے مئے اور یہ سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن!
عموماً ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنی حکومت کی مدت آسانی سے پوری کر لیں قرض کی مصیبت سے نپٹنے کے لئے آنے والی حکومت خود ہی کوئی راستہ نکال لے گی۔ گویا وہ اس شعر پر کاربند ہوتے ہیں کہ؎
اب تو آرام سے گزرتی ہے
عاقبت کی خبر خدا جانے!
اور یہی حال ہماری موجودہ حکومت کا ہے کہ جس نے بڑھتے ہوئے اخراجات پورے کرنے کے لئے ایک ہفتے کے دوران 650ارب روپے قرض لئے۔ ایک رپورٹ سٹیٹ بینک نے بتایاہے کہ رواں مالی سال کے دوران یعنی یکم جولائی تا 5اپریل کے دوران حکومت نے بینکوں سے 48کھرب42ارب روپے قرض لئے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک ہفتے کے دوران 657ارب روپے مزید لینے کے بعد قرضہ 55 کھرب روپے تک جا پہنچتا ہے۔ مالی سال 2023ء کے دوران حکومت نے بینکوں سے 37کھرب روپے کا قرض لیا تھا لیکن موجودہ صورت حال تشویشناک نظر آتی ہے کیونکہ حکومت نے پہلے 9 مہینوں میں بینکوں سے قرض لینے میں 17کھرب 84ارب روپے کا اضافہ کیا ہے۔ مالیاتی ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف سے نئے معاہدے کے بعد پاکستان کے لئے عالمی مارکیٹ سے قرض لینے کے لئے نئے دروازے کھل سکتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق جون 2024ء تک بینکوں کے قرضے 70کھرب روپے تک پہنچ سکتے ہیں۔ ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ ایک ارب میں کتنے صفر ہوتے ہیں کھرب کی تو بات ہی جانے دیجیے اس وقت بہت اہم سوال یہ ہے کہ بینکوں کے قرض ہوں یا عالمی مارکیٹ کے قرضے ان کی ادائیگی بھی تو کرنی پڑے گی ۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق آئندہ مالی سال حکومت کو ایک خطیر رقم مختلف مالی اداروں کو سود میں دینی پڑے گی۔ اس نازک صورت حال میں بھی حکومت اللے تللے سے خرچ کررہی ہے۔ ہمارے وزیراعظم نے تخت حکومت پر براجمان ہوتے ہی وزیراعظم ہائوس کے ملازمین کی تنخواہوں میں 3گنا اضافے کا اعلان کر دیا ہے۔
کوئی بتلائو کے ہم بتلائیں کیا
حکومت عوام سے ٹیکس وصول کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے لیکن تاحال اس ذیل میں کوئی کامیابی نظر نہیں آرہی۔ حکومت نے چھوٹے دوکانداروں پر ٹیکس لگانے کا جو عندیہ دیا ہے اس میں فی الوقت کامیابی کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی اس ذیل میں ایف بی آر کے سابق سربراہ محترم شبر زیدی نے کل ایک ٹی وی چینل پر ایک عجیب اور فکر انگیز بیان دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ حکومت میں وہ ایف بی آر کے سربراہ کی حیثیت سے عمران خان کے ساتھ گورنر ہائوس میں تاجروں سے بات کررہے تھے اور دونوں فریقین کے درمیان کوئی بات بن نہیں رہی تھی۔ عمران خان نے کہا کہ آپ الگ کمرے میں جا کر تاجروں سے بات کریں۔ شبر صاحب کا کہنا ہے کہ علیحدہ کمرے میں بات چیت کے دوران کچھ تاجروں نے مجھ پر جسمانی حملہ کیا میں ان کی شکلیں بھی پہچانتا ہوں اور نام بھی جانتا ہوں وقت آنے پر میں ان کے نام اور شناخت بھی بتا سکتا ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ تاجروں کے پاس ٹیکسوں سے بچنے کے لئے شٹر دائون کا ہتھیار ہے۔ موجودہ وزیر خزانہ بھی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں کہ ریٹیلرز ٹیکس ادا کریں لیکن تاحال اس ذیل میں کوئی کامیابی نظر نہیں آرہی اور نہ مستقبل میں اس ذیل میں کوئی کامیابی متوقع ہے۔ صورت احوال یہ ہے کہ حکومت کا ٹیکس بچانے اور حکومت کو ٹیکس سے محروم رکھنے میں سب سے بڑا ہاتھ زمینداروں، جاگیرداروں، خانوں، ملکوں وڈیروں اور سائیوں کا ہے جن کی بڑی تعداد حکومت میں موجود ہے۔ وہ ٹیکس ادا بھی کرتے ہیں تو برائے نام کوئی بھی حکومت ان کی زرعی آمدنی پر ’’مناسب‘‘ ٹیکس کی ادائیگی کا تاحال کوئی موثر نظام نہیں بنا سکی ہے اور جب تک یہ نظام بن نہیں جاتا اور اس نظام کے تحت ان صاحبان جائیداد کو ٹیکس نیٹ میں نہیں لایا جاتا حکومت اس طرح بینکوں سے اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لیتی رہے گی۔ یہ یاد رہے کہ یہ عالمی مالی ادارے کچھ ملکوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان سے قرض لینے کا مقصد اور نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ پاکستان کو مختلف شعبوں میں ان حکومتوں کی بات کرنی پڑتی ہے۔ خدا ہمیں ’’قرض‘‘ کی لعنت سے محفوظ رکھے اور پاکستان مکمل آزادی سے سر اٹھا کر جی سکے۔