0

ایران ،اسرائیل اور پاکستانی رائے عامہ!

اسرائیل کی وحشت و درندگی کا شکار فلسطینی اور تاریخ کی بدترین تباہی کی تصویر غزہ ابھی تک محو حیرت ہیں کہ ایران کی طرف سے جس تباہ کن ،لرزہ خیز اور محیر العقول ہوائی حملے کا شدت سے انتظار تھا ،وہ طرفین کی پیشگی افہام و تفہیم کے بعد وقوع پذیر ہو بھی چکا ہے۔ ہمارے ایرانی دوستوں کی نفاست اور شائستگی کا زمانہ معترف ہے۔انہوں نے یہ حملے اتنی شائستگی اور نفاست سے کئے ہیں کہ مجال ہے کسی کو کوئی خراش تک آئی ہو۔ایران نے یہ بےسود حملہ کر کے دنیا کو اس فرق کا نمونہ دکھا دیا ہے جو اسرائیل کے صیہونیوں اور جذبہ ایمانی سے معمور مسلمانوں کے درمیان بڑا واضح ہے، یعنی غزہ پر وحشی صیہونیوں کے تباہ کن اور ہلاکت خیز حملے اور ایران کے اسرائیل پر خواجہ حافظ کے تغزل سے معمور مست خرام ڈرون حملے کا فرق۔لیکن اس فرق کو نادان لوگ کیسے سمجھ سکتے ہیں ۔جہاں تک سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک کا تعلق ہے ،تو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ اسرائیلی ریاست کے قیام کا منصوبہ اور فیصلہ جس میز پر بیٹھ کر کیا گیا تھا ، باقی عرب ممالک کے قیام کا فیصلہ بھی اسی میز پر اور اسی قلم سے ہوا تھا۔گویا سعودی عرب ، اردن ،عراق وغیرہ اور دیگر عرب ممالک کو اسرائیل کا ممیرا یا چچیرا بھائی سمجھنا چاہیے۔ دوسرے یہ کہ جب تک جنگیں اونٹوں اور گھوڑوں پر سوار ہو کر تلوار سے لڑی جاتی تھیں ،عربوں سے بڑا جنگجو کوئی اور نہ تھا۔پر آج کل تو جنگوں کی صورت ہی بدل گئی ہے لہٰذا عرب اپنے لباس اور مصروفیات کی وجہ سے جنگ جیسے دقت طلب اور جفا پیشہ مشغلے سے دور ہی رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینیوں نے کبھی بھی عرب شیوخ کا گلہ نہیں کیا۔ جہاں تک دیگر مسلم ممالک کا تعلق ہے تو وہ امریکہ کے اشارہ ابرو کے منتظر رہتے ہیں۔اور امریکہ اسلامی جذبۂ جہاد کو اسرائیل کے خلاف نہیں ،صرف روس اور چین کے خلاف سنبھال کر رکھنے کا حامی ہے۔ایسے میں ’’مرگ بر امریکہ‘‘ کے نعروں کی گونج میں برپا ہونے والا انقلاب اب امریکہ ہی کی مشاورت سے ایک پیشگی اطلاع والے ڈرون اور میزائیل حملے کا مظاہرہ کر پایا ہے ۔ کسی بھی قسم کے ہوائی حملے میں اسپیڈ اور ٹائم بنیادی ہتھیار ہوتے ہیں،ایرانی ڈرون اٹیک اس بنیادی ہتھیار سے خالی تھے۔ ان حملوں کی پیشگی اطلاع ان تمام فریقین کو مہیا کر دی گئی تھی جنہوں نے ان سست رو ڈرونز کو راستے میں شکار کرنا تھا۔اور بعد ازاں نیتن یاہو کی سیاست کو حیات نو عطا کرنی تھی ۔آگے بڑھنےسے پہلے ہمیں ایران اسرائیل دوستی اور تعلقات کی تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈال لینی چاہیے۔ 1948ء میں اسرائیلی ریاست قائم کی گئی ، جمہوریہ ترکیہ کے بعد اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنے والا دوسرا مسلم ملک ایران تھا۔گویا اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی دونوں ملکوں میں گہرے تعلقات قائم ہو گئے تھے۔ یہ ایران پر محمد رضا پہلوی کی حکمرانی کا دور تھا ۔اس وقت اسرائیل اپنی تیل کی ضروریات کا بڑا حصہ ایران سے پورا کرتا تھا۔جبکہ ایران اسرائیل سے اسلحہ ، جدید ٹیکنالوجی اور متفرق مشینری درآمد کرتا تھا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ شہنشاہ ایران کی خفیہ پولیس “ساواک ” کی تنظیم اور ٹریننگ میں اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیئے کہ مشرق وسطی میں یہودی کمیونٹی کا سب سے بڑا مرکز ایران تھا اور ہے ۔ایران میں یہودی کمیونٹی مدت سے آباد ، محفوظ اور خوشحال زندگی گزار رہی ہے۔ایران میں آباد یہودی کمیونٹی ایرانی معیشت میں اپنا قابل ذکر حصہ اور کردار رکھتی ہے ۔ عراق ایران جنگ میں ایران کو سارا اسلحہ اسرائیل کی معرفت ملتا تھا۔ایران میں شاہ کے خلاف ساری جدوجہد ایران کے بائیں بازو کے جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں اور پی ایچ ڈی ڈاکٹرز نے کی تھی ۔لیکن امریکہ اور یورپ نہیں چاہتے تھے کہ ایران میں ایک سوشلسٹ انقلاب آئے۔لہٰذا ان کی درپردہ مساعی سے پیرس کے نواح میں پرامن طور پر مقیم ایک جلاوطن مذہبی راہنما کو سامنے لایا گیا۔اور سارے انقلاب کا پھل اس کی جھولی میں ڈال دیا گیا۔اس کے بعد ایران کئی سانحات سے گزرا، اسمبلی کو اڑا دیا گیا کئی روشن خیال لیڈر قتل کر دیئے گئے۔پھر عراق کا حملہ وغیرہ۔ایسی دوسری مثال افغانستان کی ہے جہاں امریکہ اتحادی افواج سمیت بیس سال مقیم رہا اور بیس سال بعد افغانستان کو ایک جدید ،ترقی پسند اور تعلیم یافتہ ملک بنانے کی بجائے طالبان کے حوالے کر کے چلا گیا۔امریکہ کو برطانیہ کے تسلسل میں مسلم ممالک میں اسلام کو اپنے مقاصد اور اسٹریٹجک مفادات کے لیے استعمال کرنے کا وسیع تجربہ حاصل ہے ۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ ؛ ایران کا رات گئے کیا گیا سست رو ڈرونز حملہ بھی امریکہ ، ایران اور اسرائیل کے مفاد میں ہے۔اسرائیل کے مفاد میں اس لیے کہ دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر موذی حملے اور دو جرنیلوں کی ہلاکت کے بعد ایران کے ردعمل کا انتظار اور خوف ختم ہوا،ایران کے مفاد میں اس لیے ہے کہ اس نے اپنے جرنیلوں کی دمشق میں ہلاکت کے بعد ریاست ایران پر آنے والے دباؤ کو ہٹانے کی کوشش کرلی۔ اسرائیل کے اس اعلان کے بعد کہ ایران کے بیشتر ڈرونز راستے ہی میں اتحادی ممالک کے تعاون سے تباہ کر دیئے گئے ہیں، منظر کچھ کچھ واضح ہوا ہے۔ اسرائیل کے اس اعلان کو ایران کے تازہ بیان کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے سارا کھیل کھل کر سامنے آ جاتا ہے ،یعنی یہ کہ ایران نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل پر مزید حملے نہیں کرے گا۔لیکن اگر اسرائیل نے حملہ کیا تو پھر اپنا ردعمل طے کریں گے۔اب رہ گیا امریکہ؛ تو یاد رکھنا چاہیئے کہ اسرائیل کے قیام کا بنیادی مقصد انتہا پسند صیہونیوں کے ذریعے شرق اوسط میں مسلم ممالک کے ساتھ مسلسل حالت جنگ کو زندہ رکھنا اور دوام دینا تھا۔دراصل اس طرح مسیحی دنیا مسلمانوں اور یہودیوں کی سیکڑوں سالوں پر محیط دوستی، مسلمانوں کی جانب سے یورپ کے ستائے اور دھتکارے ہوئے یہودیوں کو اندلس( اسپین)، خلافت عثمانیہ اور ایران میں پناہ دینے اور یورپی (مسیحی) دنیا کے تشدد سے حفاظت کرنے کی تاریخ کو “حال” اور “مستقبل” کی سرگرم دشمنی میں تبدیل کرنا تھا اور ہے۔اس ڈرونز اور بلاسٹک میزائل حملے نے جو بائیڈن کے مرجھائے ہوئے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دی ہے۔ ایران کی اسرائیل دشمنی اسرائیل کی بقا ،تحفظ اور یورپی ممالک کی بے پناہ اعانت کی بنیاد ہے۔ فرض کریں اگر ایران اور پاکستان اسرائیل ریاست کے بارے میں جمہوریہ ترکیہ والا موقف اپنا لیتے ہیں تو پھر یورپ اور امریکہ کا اسرائیلی دفاع اور سلامتی کے بارے میں رویہ کیا ہو گا؟ کیا ان کی اسرائیل کے دفاع پر توجہ اور تشویش کم نہیں ہو جائے گی ؟ اور کیا فلسطین اور غزہ کے مجبور و مقہور لوگوں کے بارے میں یورپ اور امریکہ کے انسانیت نواز لوگوں کی آواز موثر ثابت نہیں ہو گی؟ جنگ کا ماحول اسرائیل کے قیام کا بنیادی مقصد تھا ۔کیا چند مسلم ممالک کا غیر موثر رویہ اور مبینہ غصہ آج تک اسرائیل کا کچھ بگاڑ پایا ہے ۔اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل ایران ، ترکی اور نیویارک امریکہ میں رہنے والے یہودیوں کی نمائندہ ریاست نہیں ہے۔یہ انتہا پسند اور جرائم پیشہ صیہونیوں کی ریاست ہے ۔ جس طرح طالبان ، القائدہ اور داعش وغیرہ مسلمانوں کی نمائندگی نہیں کرتے ،اور ان کی تشکیل و تربیت میں برطانیہ اور امریکہ کا بنیادی کردار رہا ہے ، بالکل اسی طرح انتہا پسند صیہونیوں کا اسرائیل بھی پرامن اور تعلیم و تجارت سے محبت کرنے والے یہودیوں کی نمائندگی نہیں کرتا ۔برطانیہ اور امریکہ نے آنے والے سو سال کا نقشہ مرتب کرتے وقت مسلمانوں اور یہودیوں کی صدیوں کی دوستی اور اخوت کو دشمنی میں تبدیل کرنے کے لیے انتہا پسند اسرائیل قائم کیا تھا۔کیسی مزاحیہ بات ہے کہ سیکڑوں سال تک یہودیوں کو مارپیٹ کر اپنے ملکوں سے نکالنے والے مسیحی آج اسرائیل کی پشت پناہی کر رہے ہیں اورمسلم اسپین ، خلافت عثمانیہ اور ایران میں مسیحی یورپ کے ستائے ہوئے یہودیوں کو پناہ اور امان دینے والے مسلمانوں کو دشمنی کی آگ کے حوالے کر رکھا ہے۔ جہاں تک پاکستانیوں کا تعلق ہے، تو گزشتہ پون صدی کی حکمت عملی اور محنت سے قوم کو حد درجہ جذباتی اور بے وقوف بنایا گیا ہے۔ قوم کا مزاج پرائی بارات کے آگے ناچنے اور اچھالے گئے سکے لوٹنے والوں جیسا بن چکا ہے ۔واقعات کو توجہ اور غور سے نہیں دیکھتے۔پاکستانی رائے عامہ کا ایران کے پیشگی اطلاع والے ڈرون حملوں پر رویہ اور ردعمل مکمل طور پر جذباتی ، بچگانہ اور قدرے فرقہ وارانہ نظر آرہا ہے۔اس غیر موثر حملے پرجس نے بھی معروضی تجزیہ کرنے کی کوشش کی ، اسے فرقہ وارانہ بنیادوں پر ایران کا مخالف خیال کر کے نازیبا تبصرے تک شروع کر دیئے گئے ۔یہ بات درست ہے کہ پاکستان کی حکومتیں اور حکومتوں کی بیل گاڑی کو کھینچنے والے بیل امریکہ کے جلی و خفی اشاروں کے مطابق عمل اور ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ہمارے نام نہاد اور نہایت دولت مند ملا، علماء و مشائخ اور پیر فقیر سجادہ نشین وغیرہ سبھی نقد ادائیگی کے بغیر حمیت دینی کا اظہار نہیں کرتے۔یہ بات بھی درست ہے کہ پاکستانی حکومت ، پاکستانی ملا اور پاکستانی عوام کا اسرائیلی جارحیت اور اسرائیل کی طرف سے غزہ میں کئے گئےقتل عام کے خلاف کوئی ایک بھی شایان شان احتجاجی مظاہرہ سامنے نہیں آیا ۔یہ سب اپنی جگہ لیکن پھر بھی پاکستانیوں کو اب تھوڑا سا بالغ نظر ہو جانا چاہیئے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں