سترویں صدی کا آغاز تھا اور برطانیہ پر ملکہ الزبتھ اول حکمراں تھیں جب ان کی سرپرستی میں ایسٹ انڈیا کمپنی قائم ہوئی، بیرونِ ملک تجارت کیلئے۔ تاریخ میں شاید ہی کسی تجارتی کمپنی نے وہ شہرت حاصل کی ہو جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے حصہ میں آئی اور وہ اس لئے کہ اس تجارتی کمپنی نے تجارت کے ساتھ ساتھ سیاست بھی کی اور سامراجی حکمرانی بھی۔ اس کی تاریخ اور کارنامے ہر صاحبِ علم و دانش پر عیاں ہیں سو یہاں دہرانے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ لیکن ایک تاریخی حقیقت ہے جس کی طرف توجہ دلانے کی فی زمانہ ضرورت ہے اور وہ یہ کہ برِ صغیر ہند و پاک میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے راج کو تقویت اور سہارا دینے میں اس فوج کا بڑا حصہ تھا جو اس نے موجودہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں بنائی تھی اور جس کی مدد سے اس نے اس شکست کو فتح سے بدل دیا تھا جو ہم ہندوستانی مسلمانوں کی انیسویں صدی کی تاریخ کا سب سے نمایاں اور روشن پہلو ہے۔
ہم 1857ء کے اس معرکہ کو اپنی جنگِ آزادی کا اولین باب قرار دیتے ہیں، اور بالکل درست کرتے
ہیں، جسے فرنگی نے بغاوت یا غدر کا نام دیا۔ میرٹھ چھاؤنی سے جس جنگ کا آغاز ہوا تھا اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو دلی سے نکال باہر کیا تھا جس کے بعد فرنگی دلی سے بھاگا اور پناہ لی اس نے پنجاب میں جہاں آج کی پاکستان پر حکمراں ، نام نہاد اشرافیہ کے اجداد نے ایسٹ انڈیا کمپنی کیلئے دو دو آنے کمیشن پر سپاہی بھرتی کئے اور تب ان بھرتی کے سپاہیوں کی مدد سے ایسٹ انڈیا کمپنی نے دلی پر یلغار کی ، اسے فتح کیا اور اس کے بعد پورا ہندوستان برطانوی سامراج کا غلام ہوگیا۔ فرنگی راج تو 1947ء میں برصغیر کی تقسیم کے ساتھ ختم ہوگیا لیکن کمپنی بہادر کا راج آج بھی قائم ہے اور اسی خطہ پر راج کررہا ہے جس کی مدد سے ، جس کے سپاہیوں کے بل بوتے پر اس نے ہندوستان پر ایک صدی حکومت کی تھی! متحدہ ہندوستان کی وہ فوج جو پاکستان کے حصہ میں آئی اس نے آزاد مملکت کے اول دن سے خود کو اس کا مالک و مختار تصور کرلیا تھا۔ اس کے افسروں کی ذہنی تربیت برطانوی سامراج سے غیر مشروط وفاداری کے عہد پر ہوئی تھی، کمپنی بہادر سے ان کا پیمان نسلوں پرانا تھا لہٰذا وہ اپنے آپ کو کمپنی بہادر کا جانشین گردانتے تھے اور عوام ان کی نظر میں کیڑے مکوڑے تھے۔ جیسے فرنگی اپنے ماتحت ہندوستانیوں کو ،بلاڈی سویلین، گردانتے تھے اسی طرز پہ پاکستان کے حصہ میں آئے ہوئے افسران بلاڈی سویلینز کو منہ لگانا اپنی توہین سمجھنے لگے اور یہ روش، یہ ذہنی ساخت آج بھی اسی طرح سلامت ہے جیسی پاکستان کے قیام کے وقت تھی۔ برطانوی راج ختم ہوگیا لیکن کمپنی بہادر زندہ رہی اور آج بھی ہے۔ یہ نہ ہوتا تو پاکستان کی تاریخ اس سے مختلف ہوتی جو رقم ہوئی اور تا حال رقم ہو رہی ہے۔
کمپنی بہادر کا چہرہ بدلتا رہا لیکن ستر برس میں اس کی ساخت اور مزاج نہیں بدلا۔ ایوب خان سے لیکر موجودہ سپہ سالار عاصم منیر تک ہر طالع آزما اپنے وقت کا فرعون رہا ہے، اپنے عہد کا یزید ثابت ہوا ہے اسلئے کہ کمپنی بہادر کی ساخت وہی رہی ہے جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے عہد عروج میں تھی اس میں بال برابر بھی فرق نہیں آیا بلکہ پاکستان پر کمپنی بہادر کی داغدار تاریخ یہ سبق دیتی ہے کہ ہر فرعون کا دور اپنے پیشرو کے دور سے بدتر ثابت ہوا، فرعونیت بڑھتی رہی چاہے عوام کی زبوں حالی بد سے بد تر ہوتی رہی ہو۔ ایسٹ انڈیا کمپنی یا برطانوی سامراج نے ہندوستان، جسے وہ اپنی سلطنت کے تاج کا ہیرا سمجھتے تھے، کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا تو وہ سمجھ میں آتا ہے اسلئے کہ وہ سات سمندر پار سےآئے ہی لوٹ مار کرنے کیلئے تھے۔ وہ ہندوستان کو غیر کی جاگیر سمجھ کر لوٹ رہے تھے لیکن پاکستان کی کمپنی بہادر کا حال یہ ہے کہ وہ پاکستان کو اپنی جاگیر تو سمجھتی ہے لیکن پھر اپنی ہی جاگیر کو کیوں لوٹ رہی ہے؟ دنیا میں پاکستانی فوج کا شاید چوتھا یا پانچواں نمبر ہے اور یہ فوج کی تعداد کے اعتبار سے ہے۔ گویا دنیا میں پاکستانی فوج سے بڑی افواج بھی ہیں لیکن دنیا کے کسی ملک کی فوج کے وہ مشاغل نہیں ہیں جو ہماری کمپنی بہادر کے ہیں اور جن کی بنیاد پر وہ بلاشبہ دنیا میں اپنی قماش کی ایک ہی فوج ہے۔
اب دنیا کی دیگر افواج کے نصیب میں وہ مہارت کہاں جو ہماری افواجِ قاہرہ پر فضلِ ربی کی صورت
میں ہے۔ دنیا کی کسی فوج کو کہاں نصیب ہے کہ وہ اسی (80) سے زائد مختلف انواع و اقسام کی صنعتیں اور تجارتی ادارے چلائے! ہماری کمپنی بہادر کو دستِ قدرت نے وہ کاریگری عطا کی ہے کہ وہ
سیمنٹ اور فولاد کی فیکٹریاں بھی چلاتی ہے، ٹیکسٹائل کے کارخانے بھی اس کی صنعتی قلمرو میں شامل ہیں ۔ وہ تعمیراتی کمپنیاں بھی چلاتی ہے تو خشک دودھ بنانے کا کاروبار بھی اس کی ہنر مندی میں شامل ہے۔ ڈیری فارم بھی اس کی دسترس میں ہیں تو دوسری طرف بنکاری اور انشورنس جیسے شعبہ بھی اس کی مہارت سے محروم کیسے رہ سکتے تھے۔ پھر سب سے بڑا کاروبار تو اس کا وہ ہے جس کے چمتکار سے ملک کے ہر بڑے شہر میں ڈیفنس ہاؤسسنگ کالونیاں آباد ہیں۔ ہمارے فوجی افسروں کے معیارِ زندگی کو بڑھانے اور چمکانے میں سب سے بڑا کردار تو ان رہائشی کالونیوں کا ہے جہاں ہر افسر کو، بہ اعتبار رتبہ، قطعہء زمین جنہیں عرفِ عام میں پلاٹ کہا جاتا ہے کوڑیوں کے مول مل جاتے ہیں اور پھر انہی کے ہاتھوں جنہیں کمپنی بہادر کے زعماء بلاڈی سویلین کہتے ہیں وہ پلاٹ سونے کے دام بیچے جاتے ہیں۔ وہ ٹھاٹ باٹ جو ہمارے کمپنی بہادر کے افسران کا ہے یونہی تو نہیں بن جاتا اس میں اصل کام ، اصل چمتکار، تو ان پلاٹوں کا ہی ہوتا ہے۔
اور کمپنی بہادر کی دسترس میں اب تک تو صرف رہائشی پلاٹ تھے لیکن اب زراعت بھی کمپنی کی مہارت کا جلوہ دیکھنے والی ہے۔ تازہ ترین پیش رفت میں بلوچستان میں دس لاکھ ایکڑ زمین، جو فی الحال بنجر بتائی جارہی ہے، کمپنی بہادر کی تحویل میں دی جارہی ہے جس پر کارپوریٹ فارمنگ ہوگی اور یوں ہمارے باوردی ہنرمند بلاڈی سویلینز کو دکھائینگے کہ بنجر زمین سے کیسے سونا اگلوایا جاسکتا ہے۔ لیکن کمپنی بہادر کی اصل مہارت تو راج کرنے میں ہے جو ایسٹ انڈیا کمپنی سے اسے ورثہ میں ملی ہے۔ ہمارے ہاں موروثی سیاست کا بہت چرچا رہتا ہے اور اس حوالے سے موروثی سیاست عوام کی نظر میں بدنام بھی بہت ہے اور بدنام اسلئے ہے کہ موروثی سیاست کی دیمک ملک کو چاٹ گئی ہے۔ دو خاندان اس موروثی سیاست کے میدان میں سب سے نمایاں ہیں، ایک پنجاب کے شریف ( نام کے ہی سہی شریف) اور دوسرا سندھ کا بھٹو خاندان جسے بینظیر بھٹو کے بعد سے ڈکیت زرداری نے اپنی جاگیر بنا لیا ہے۔ ان دو موروثی سیاسی گھرانوں سے ہماری کمپنی بہادر کا بہت گہرا رشتہ ہے اور پرانا بھی۔ وہ جو کہاوت ہے نا کہ کند ہم جنس باہم پرواز، کبوتر با کبوتر باز بہ باز، تو کمپنی بہادر اور ان سیاسی خاندانوں کا ساتھ بھی اس وقت کا ہے جب پاکستان پر پہلے مارشل لا کا عذاب نازل ہوا تھا اور ایوب خان اور اسکندر مرزا نے بھٹو خاندان کے فرزند، ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی سرپرستی میں لیا تھا۔ سو اسی گٹھ جوڑ کو تقویت دینے کیلئے جو بندر بانٹ 8 فروری کے انتخابی نتائج پر ڈاکہ ڈالنے کے بعد کی گئی ہے اس میں یہی دو خاندان پھر سے پاکستانی قوم پر مسلط کردئیے گئے ہیں۔ بیمار زرداری، جس کے متعلق سوشل میڈیا پر خبر گرم ہے کہ وہ قبر میں پیر لٹکائے ہوئے ہے، کو پھر سے صدارت سونپ دی گئی ہے۔ تاریخ کا خوب مذاق ہے کہ ایک پڑھے لکھے اور شریف النفس صدر ڈاکٹر عارف علوی کے بعد ایک نیم خواندہ ڈکیت جو دنیا میں اپنی کرپشن کیلئے بدنام ہے صدر مملکت بنا کر بٹھا دیا گیا ہے۔ پاکستان کے 24 کڑوڑ عوام کی اس سے بڑی اور کیا توہین ہوسکتی ہے؟
لیکن کمپنی بہادر عوام کو جتلانا چاہتی ہے کہ دیکھو ہم ملک کے مالک و مختار ہیں، یہ ملک ہماری جاگیر ہے سو ہم جسے چاہیں تمہارے سروں پر بٹھا سکتے ہیں ۔ تمہارا فرض یہ ہے کہ جو ہم کہیں خاموشی سے قبول کرلو ورنہ یاد رکھو کہ بندوق اور توپ ہمارے قبضہ میں ہے جیسے پورا ملک! شہباز شریف ، جس کی شہرت یہ ہے کہ وہ جرنیلوں کے بوٹ پالش کرنے میں مہارت رکھتا ہے، کٹھ پتلی وزیر اعظم مقرر کردیا گیا ہے۔ نواز شریف کو کمپنی بہادر نے سبز باغ دکھائے تھے۔ وہ یہ سمجھ کے لندن سے لوٹ کر آیا تھا کہ وہ چوتھی بار ملک کا وزیرِ اعظم بنا دیا جائے گا لیکن بقول شخصے جرنیل اس کے ساتھ ہاتھ کرگئے لیکن اس کے آنسو پونچھنے کیلئے اس کی بلیک میلر بیٹی کو پنجاب کی وزارتِ اعلی دے دی گئی ہے۔ پنجاب کی اس سے بڑھ کر اور کیا بدنصیبی ہوسکتی تھی؟ دفترِ خارجہ پر ایک جاہل منشی، اسحاق ڈار نامی، تھوپ دیا گیا ہے۔ ہمارا اس دفتر سے قلبی رشتہ ہے اسلئے سوچ رہے ہیں کہ اس کے موجودہ اہلکاروں نے ایسا کونسا گناہ کیا تھا جس کی سزا کے طور پہ ڈار جیسے رسوائے زمانہ جاہل منشی کو ان کے سروں پہ بٹھا دیا گیا ہے؟ سفارت کے ساتھ بھی کھلواڑ ہورہا ہے۔ سنا ہے کہ آئی ایس آئی کا رسوائے زمانہ سربراہ، جنرل ندیم انجم، امریکہ میں سفیر لگایا جارہا ہے۔ اور تو اور وہ بد بخت چیف الیکشن کمشنر، سکندر سلطان راجہ، جس نے 8 فروری کے انتخابی عمل میں تاریخ کی سب سے بڑی دھاندلی کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا، اسے کینیڈا میں ہائی کمشنر بنانے کی تجویز ہے۔
اس خبر نے کینیڈا کے پاکستانیوں میں ہلچل مچادی ہے اور وہ اس عزم کا اعلان کر رہے ہیں کہ اس ڈاکو کو ہرگز ہرگز اپنے ملک میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کا موقع نہیں دینگے۔ کینیڈا کے پاکستانی بجنگ آمد ہیں کہ کینیڈا کے حکام کو اس بدبخت انسان کا جغرافیہ بتلائیں کہ اس جیسے ڈکیت کو اپنے ملک میں قدم نہ رکھنے دیں! یہ سب نقشہ۔ یہ سب انصرام و اہتمام، کمپنی بہادر اس پاکستان میں جمارہی ہے جسے وہ اپنی
موروثی جاگیر سمجھتی ہے۔ گیند اب پاکستانی عوام کے کورٹ میں ہے کہ وہ اس کمپنی کو اس کے کرتوت اور سیاہ کارناموں کے ساتھ برداشت کرنے کو تیار ہے یا اپنی تاریخ کو یاد کرتے ہوئے کہ اس کے غیور اور حریت پرست اجداد نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی چیرہ دستیوں اور ریشہ دوانیوں سے تنگ آکر اس کے خلاف آزادی کی جنگ کی تھی اس روشن تاریخ کو دہرانے کی صلاحیت رکھتی ہے یا نہیں؟ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس پاکستانی کمپنی بہادر کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے کا وقت آگیا ہے بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے غیور اجداد نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف جہاد کیا تھا! سو ہمارے یہ چار مصرعے اپنی عوام کی نذر ہیں؎
دیمک کی طرح چاٹ گئے ہیں جو ملک کو
یہ پاسباں کے بھیس میں رہزن وطن کے ہیں
اے قوم آنکھ کھول کے پہچان لے انہیں
ملت فروش پختہ جو اپنے چلن کے ہیں!
0