دنیا کی تاریخ دراصل تنازعات کی تاریخ ہے۔ان تنازعات کی بنیاد بعض افراد و اقوام کی طرف سے اپنے سوا دوسروں کو اپنے جیسا انسان اور قوم نہ سمجھنے کی حماقت پر استوار ہوتی ہے۔تاریخ میں سچ تلاش کرنا نادانی اور سچ تلاش کر لینے کا دعویٰ عموماً حماقت ثابت ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اپنے حال پر متوجہ اور اپنے مستقبل کو سنوارنے کی خواہش رکھنے والے لوگ، معاشرے اور اقوام تاریخ کے بلیک ہول میں گم ہونے سے احتراز کرتے ہیں۔پاکستان کی حیران و پریشان عامتہ الناس کا عمومی مشغلہ پاکستان کی بے شرم اشرافیہ، اسٹیبلشمنٹ ، اداروں، سیاست دانوں، سیاسی جماعتوں ، اور ان سب کے اشاروں اور اکساووں میں آ کر انتشار پھیلانے کا بندوبست کرنے والوں کو ہمہ وقت کوستے رہنا ہے۔ یہ عامتہ الناس کے غصے کا اظہار بھی ہے ، بیک وقت تفریح کا ذریعہ بھی ، اور یہی اپنی نامرادیوں اور محرومیوں پر احتجاج کا طریقہ بھی ہے۔یہ سب کچھ اتنا گڈ مڈ ہو گیا ہے کہ کچھ پتہ نہیں چلتا کہ کیا ہو رہا ہے یا کیوں ہو رہا ہے یا بالآخر کیا ہونے والا ہے ۔ایسا تو نہیں کہ ہمارے ملک میں کسی چیز نے بھی ترقی نہ کی ہو ۔مثال کے طور پر یہی دیکھ لیں ،اور اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ؛ پاکستان میں مسلسل ترقی کرنے والی واحد چیز مہنگائی ہے۔پاکستان میں مہنگائی عامتہ الناس کو ذہنی دباؤ میں رکھنے کا قدیم سے ایک آزمودہ نسخہ ہے۔اگر مہنگائی کو قابو کر لیا جائے یا ختم کرنے کی کوشش کی جائے تو عوام آپے سے باہر ہو کر مزید شہری حقوق کا مطالبہ کرنے لگیں گے، لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستانیوں کو سیاست اور سیاست دانوں سے متفر کیا جائے ، انہیں نجات دھندوں کا منتظر رکھا جائے۔ان بے نواؤں کو قلعے کی بلند وبالا دیواروں کے اطراف پھرنے والی چیونٹیوں سے زیادہ اہمیت نہیں دی جا سکتی۔ایسے ہی لوگوں کو دیکھ کر ستم ظریف کہتا ہے کہ لوگوں میں پاگل پن کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔کہتا ہے کہ آج ایک بلوچ دانشور سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ایک خوش مزاج ، خوش گفتار اور ہنس مکھ بلوچ سے مل کر اور باتیں سن کر حیرت ہوئی ، عمومی تاثر یہ ہے کہ بلوچ دانشور اور طلبہ ناراض ہیں ، ہر وقت غصے میں رہتے ہیں ، بیٹھے ہوں تو سوچوں میں گم ہو جاتے ہیں ، چل پھر رہے ہوں تو بھی گم ہو جانے کا امکان رہتا ہے۔لیکن اس اچھے بلوچ سے مل کر اور سن کر ہوش ٹھکانے آ گئے۔وہ بلوچستان میں بدامنی کے واقعات پر رنجیدہ تھے ، گم شدہ لوگوں کی وجہ سے سنجیدہ اور آب دیدہ تھے، وہ نہایت دلسوزی کے ساتھ کہہ رہے تھے کہ مسائل کا ذکر کرنا اور گلے شکوے کرنا بہت ہو چکا ، اب حل کی طرف آنا چاہیے۔ مجھے متوجہ دیکھ کر نرمی سے کہنے لگے کہ پہلے آپ اپنا منہ بند کر لیں ،تو میں آپ کو حل بتاتا ہوں ۔ستم ظریف نے حیرت سے کھلا منہ بند کر لیا اور پوری توجہ سے بلوچ دانشور کی بات سننے لگا۔دانشور بھائی کہنے لگے کہ؛ میری تجویز تو یہ ہے کہ کوشش کر کے ،کسی بھی طرح سینڈک میں واقع سونے کے ذخائر کو لاہور کے قریب سانگلہ ہل کے مقام پر منتقل کر لیا جائے۔میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ اب ’’ہل‘‘ صرف سانگلہ ہل کے مقام پر نہیں ،نام میں رہ گیا ہے، لہذا سینڈک کے پہاڑوں پر سانگلہ ہلز کا حق بنتا ہے۔اسی طرح میری پختہ رائے ہے کہ گوادر کو لاہور شفٹ کر لیا جائے ۔اس کی ضرورت بھی ہے اور جواز بھی۔ پنجاب کے پاس سب کچھ ہے ،سوائے ساحل سمندر کے۔اب تک پنجاب اپنی حکمت عملی اور ذہانت سے اپنے تین دریا خشک کروا چکا ہے۔اور سمندری نامی ایک قصبے پر گزارہ کر رہا ہے۔یہ قصبہ فیصل آباد شہر کے قریب واقع ہے ۔ یاد رہے کہ سمندری کے پاس بھی سمندر نہیں ہے ، لہذاپنجاب میں ساحل سمندر کا تو کوئی امکان ہی نہیں ۔ہاں البتہ گوادر کو لاہور شفٹ کرنے سے یہ محرومی دور ہو جائے گی۔ البتہ گوادر جیسی گہرے سمندری ساحل والی بندرگاہ کے لیے جگہ کا بندوست لاہور کو از خود کوشش کر کے کرنا پڑے گا ، اس میں بلوچستان والے کچھ نہیں کر سکتے۔لاہور میں ایک چھاؤنی بھی ہے ، پھر چند قدم کے فاصلے پر واقع گوجرانوالہ میں بھی ایک چھاؤنی موجود ہے ۔اگر کبھی ن لیگ کو دوبارہ حکومت ملی اور رانا تنویر حسین کو تعلیم کی بجائے دفاع کا وزیر بنا دیا گیا تو پھر یقینی طور پر لاہور سے بالکل قریب شہر شیخوپورہ میں بھی ایک چھاؤنی اور ڈی ایچ اے قائم کر دیا جائے گا۔یاد رہے رانا تنویر حسین نے وزیر تعلیم ہونے کی وجہ سے شیخو پورہ میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا ریجنل سینٹر بنوایا ہے ،حالانکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔اسی طرح ہندوستان کے ساتھ کشیدگی بھی ختم کرنے کی راہیں کشادہ ہو سکیں گی ۔وجہ یہ ہے کہ گوادر کو لاہور کے پاس ایڈجسٹ کرنے کے لیے ہندوستان سے درخواست کرنا پڑے گی کہ وہ اپنا امرتسر تھوڑا سا پیچھے لے جائے ،تاکہ ہمارے لیے گوادر کو سمندر سمیت رکھنا سہل ہو سکے۔ گوادر لاہور منتقل کرنے سے ایران کے چاہ بہار کا کام بھی چلتا رہے گا اور اس کی اندرونی خفگی مدہم ہو سکے گی۔ گوادر کے لیے ایک نئی کور( بالکل نئی نکور) ایک ڈی ایچ اے اور ایک بڑی مچھلی منڈی بھی قائم کی جا سکتی ہے ۔ذرا سوچیئے تو کہ لاہور آخر کب تک صرف ایک ہیرا منڈی سے گزارا کرتا رہے گا؟ اس مختلف بلوچ دانشور کی تجاویز سن کر مجھے اپنا دماغ سن ہوتا محسوس ہوا۔سچ پوچھیے تو میں بالکل اندازہ نہیں لگا سکا کہ یہ محترم طنز فرما رہے ہیں یا سنجیدہ ہیں ۔میں نے ستم ظریف کو بتایا کہ اسے مکمل آرام اور ممکن حد تک اچھی خوراک کھا کر نیند پوری کرنی چاہیئے۔ لیکن وہ بات سننے ماننے پر آمادہ نہیں تھا۔اس نے ایک اخبار کھولا کہ ایک خبر پڑھ کر سنانے لگا۔اس کا خیال تھا کہ اس خبر سے پاکستان کے لوگوں کی اداسی اور پریشانی میں کافی کمی واقع ہو سکتی ہے۔اس کی سنائی خبر کے مطابق مصر میں ایک بیاہتا خاتون نے اپنے بے وفا اور ظالم پر جفا شوہر سے طلاق حاصل کرنے کے بعد اور عدت کی مدت بہ اطمینان گزار لینے پر ایک اچھے ریسٹورینٹ میں بہت بڑی دعوت کا اہتمام کیا۔ اس مطلقہ خاتون نے بڑے پرجوش اور پر شور انداز میں اپنی طلاق کا جشن منایا۔العربیہ نیوزکے مطابق اس غیر روایتی اور منفرد جشن طلاق میں خوش و خرم مطلقہ خاتون نے ریسٹورنٹ میں موجود اپنے مہمانوں اور دیگر افراد میں سونا اور طرح طرح کے انعامات بھی تقسیم کیے۔اس مسرور مطلقہ نے ایک بڑا سا کیک بھی کاٹا ۔ا س کیک پر جلی حروف سے طلاق مبارک لکھا ہوا تھا۔ستم ظریف نے یہ خبر سنا کر داد طلب نظروں سے میری طرف دیکھا اور کہا کہ کیوں جناب دیکھا آپ نے کہ اگر انسان ارادہ کر لے تو وہ کسی بھی واقعے سے خوشی کشید کر سکتا ہے۔یہ خبر بتاتی ہے کہ خوشی اور مسرت کا تعلق صرف شادی بیاہ کے ساتھ مشروط نہیں، بعض تلخ یا ناپسندیدہ واقعات میں سے بھی راحت کشید کی جا سکتی ہے۔لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر پاکستانی کم از کم اپنا ایک غم ، ایک محرومی ،ایک شکوہ اور ایک المیہ ضرور کسی جشن کا عنوان بنائے ،اپنے جیسے دوستوں اور لوگوں کو مدعو کرے اور اپنے غم ، محرومی، شکوے اور المیے کو ناچ ناچ کر اور گا گا کر اس طرح جشن عام کا عنوان بنائے ،کہ ان تمام مصیبتوں کا باعث بننے والے لوگ اور ادارے تذلیل و تضحیک کی دلدل میں ڈوب جائیں۔
0