0

بھک منگے اور خواجہ سرا !

پاکستان کے خواجہ سراؤں نے باضابطہ احتجاج کیا ہے کہ انہیں بدنام کرنے کیلئے ایک مذموم کوشش کی گئی ہے تاکہ قوم ان سے بدظن ہوجائے اور وہ جوویسے ہی ملک کے طبقاتی نظام اور معاشرہ کی تلچھٹ میں شمار کئے جاتے ہیں عوام الناس کی نظروں میں اور گرجائیں!
خواجہ سراؤں کو اپنی صفائی میں یہ بیان دینے کی ضرورت یوں پڑی کہ پچھلے ہفتے پاکستان کی سب سے بڑی اور مقبول سیاسی جماعت، تحریکِ انصاف، کے ترجمان رؤف حسن پر دن دہاڑے جو قاتلانہ حملہ کیا گیا اس میں حملہ آوروں نے اپنے آپ کو خواجہ سراؤں کے روپ میں پیش کرنے کی بھونڈی اور ناکام کوشش کی تھی۔
اللہ جسے رکھے اسے کون چکھے کی ضرب المثل رؤف حسن پر صادق آئی کہ وہ اس قاتلانہ کارروائی میں محفوظ رہے، گھائل ضرور ہوئے لیکن جان بچ گئی ورنہ بزدلوں کے ہاتھوں ایک اور قیمتی جان جاتی رہتی۔
حملہ آور وہی تھے جو پاکستان کو اپنے پرکھوں کی میراث اور جائیداد سمجھ کر گذشتہ ستر برس سے یوں قابض ہیں جیسے انہوں نے اسے فتح کیا ہو۔ یہ ہماری تاریخ ہے کہ یہ خود ساختہ محافظ وطن اتنے بزدل اور کائر ہیں کہ آج تک دشمن کی ایک انچ زمین پر بھی قبضہ نہیں کرسکے، دشمن کو کبھی شکست نہیں دے سکے لیکن یہ گیدڑ شیربن جاتے ہیں جب اپنے عوام اور اپنی سرزمین کی بات ہو۔ تو پاکستان کو یہ بارہا فتح کرتے آئے ہیں۔ کبھی کھل کر تو کبھی اپنے گماشتوں اور مہروں کو بساط ِ اقتدار پر بٹھا کر جیسے ان دنوں ہورہا ہے۔
لیکن بزدل محافظ اپنے گھمنڈ میں یہ بھول بیٹھے تھے کہ یہ ڈیجیٹل کی برتری اور کامرانی کا دور ہے جسمیں پوری قوم کو ہمیشہ بیوقوف بنانا ناممکن ہوچکا ہے۔ سو خواجہ سراؤں کے بہروپ میں آنے کی بچکانہ چال بھی ناکام ہوگئی۔ رؤف حسن پر دن کی روشنی میں حملہ کرنے والے خواجہ سراؤں کی سی چادریں تو اپنے فربہ بدنوں پر لپیٹ لائے تھے لیکن وہاں ، جائے حادثہ پر، یا یوں کہنا چاہئے کہ جائے وارداتِ دہشت گردی اور کھلی غنڈہ گردی میں وہ سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے تھے جن میں ساری کارروائی قید ہوگئی اور آنکھ والوں نے دیکھا کہ رؤف حسن پر قاتلانہ حملہ کرنے والے خواجہ سرا ڈینم جینز اور جوگرز پہنے ہوئے تھے۔
اصل خواجہ سرا بیچارے نہ جینز پہنتے ہیں نہ ان کی اوقات اتنی ہے کہ جوگرز پہن سکیں۔ اسی لئے اپنے پر لگنے والی تہمت کا فوری جواب دینا انہوں نے ضروری سمجھا۔ وہ اگر اپنی طرف سے صفائی پیش بھی نہ کرتے تو پاکستان کے عوام اور دانشور اب اتنے باشعور ہوچکے ہیں کہ آئی ایس آئی کے دہشت گرد اہلکاروں نے قوم کو جو جھانسہ دینا چاہا تھا اسے وہ ایک منٹ کی تاخیر کے بغیر ہی رد کردیتے۔
وطنِ مرحوم، پاکستان کی سب سے بڑی بدنصیبی ہی یہ ہے کہ اس کی فوج ، بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ فوج کی قیادت ملک و قوم کی سب سے بڑی دشمن بن چکی ہے اور یہ کہنا محض قیاس نہیں ہے بلکہ پاکستان کی تاریخ اس پر شاہد ہے کہ آج سے تریپن برس پہلے جس عسکری قیادت نے اپنی طاقت کے زعم میں قائد کے پاکستان کو دولخت کیا تھا اور بنگلہ دیش کے روپ میں مشرقی پاکستان کو جنم دیا تھا آج انہیں گھمنڈی اور نشہء طاقت سے مغلوب جرنیلوں کے جانشین اسی راستے پر آنکھیں بند کرکے چل رہے ہیں جو ملک کو تباہی کے کھڈ میں گرادینے کی راہ ہے۔
ملت فروش جنرل قمر باجوہ عسکری قیادت کے نام پہ جو اپنی باقیات فرعون عاصم منیر کی سربراہی میں چھوڑ کر گیا ہے وہ 1970-71ء کی تاریخ دہرا رہی ہے۔
فوجیوں سے ہم دانشوری کی توقع ہرگز نہیں کرتے لیکن یہ تو ہمارے عہد کی تاریخ ہے کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ جو واقعات سقوطِ ڈھاکہ پر منتج ہوئے تھے اور پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے کا سبب بنے تھے انہیں دہرانے سے پرہیز کیا جائے۔ لیکن نہیں۔ عاصم منیر اور جرنیلوں کا وہ ٹولہ، جو پاکستان کوایسے ہی یرغمالی بنا بیٹھا ہے جیسے پڑوسی ملک بھارت میں مودی سرکار اور بی جے پی دنیا کے سب سے کثیر آبادی کے دیس کو اپنی نفرتی سیاست کی بھینٹ چڑھارہی ہے، اس جنون میں پاگل ہورہا ہے کہ عمران خان کو کسی صورت قید سے رہا نہ ہونے دیا جائے۔ اور یہ جنون اس کے باوجود ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں میں نئی سوچ اور فکر کی جو تازہ ہوا آئی ہے ملک کو نفرت کی سیاست سے رہائی اور آزادی دلانے کی طرف پہلا خوش آئند قدم ہے۔
خدا کم ظرف کو طاقت نہ دے کیونکہ وہ بھی وہی حرکتیں کرتا ہے جو گنجا ناخن ملنے پر کرتا ہے کہ اپنا سر کھجا کھجا کر پاگل ہوجاتا ہے۔
عاصم منیر اور اس کے عسکری گماشتے بھی کم ظرف ہیں جن سے طاقت سہی نہیں جارہی۔ بارہ جماعتیں پڑھ لینے کے بعد فوج میں کمیشن لینے والوں کے ہاتھ میں جب بے تحاشہ طاقت آجاتی ہے تو جن کا کوئی خاندانی پس منظر نہیں ہوتا، جن کو دنیا میں طاقتوروں کے عروج و زوال کی تاریخ سے کوئی شناسائی نہیں ہوتی، وہ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور پھر اپنے مخالف کو زیر کرنے اور اسے نیچا دکھانے کیلئے ہر وہ کام کرتے ہیں جس کا انجام ان کیلئے بھی برا ہی ہوتا ہے لیکن آنکھوں پر چھائی ہوئی چربی اور طاقت کا وہ نشہ جو حواس کو مغلوب کردیتا ہے انہیں لوحِ وقت پر لکھی تحریر نہیں پڑھنے دیتی۔
نوشتہء دیوار یہ کہہ رہا ہے کہ عمران خان قید میں رہ کرقید سے پہلے کے مقابلہ میں عوام و خواص میں بہت زیادہ مقبول ہوچکا ہے۔
یہ وہ سچ ہے جسے دنیا مانتی ہے، ایک عالم قبول کررہا ہے لیکن عمران کی نفرت اور دشمنی میں گرفتار عاصم منیر اور اس کے گماشتے اسے قبول کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہیں۔ حقیقت کو تسلیم کرنے اور اس کی روشنی میں آگے بڑھنے کے بجائے یہ چھٹ بھیے وہ اوچھی حرکتیں کررہے ہیں جس کا ثبوت رؤف حسن پر قاتلانہ حملہ نے فراہم کیا اور جس نے اصل خواجہ سراؤں کو یہ کہنے پہ مجبور کیا کہ عمران کے قریبی ساتھی پر حملہ کرنے والے ان کے قبیلے کے افراد نہیں تھے بلکہ اس ٹولہ سے تعلق رکھتے تھے جو پاکستان کو اپنی انا کی بھینٹ اسی طرح چڑھانا چاہ رہا ہے جیسے آج سے تریپن برس پہلے یحیٰی خان اور اس کے حواریوں نے قائد اعظم کے پاکستان کو اپنی ابلیسی انا کی بھینٹ چڑھایا تھا۔
کیا حال کردیا ہے ان کم ظرفوں اور کائروں نے اس پاکستان کا جس کی خاطر لاکھوں جانیں قربان ہوئی تھیں۔ ہمارے بڑوں، ہمارے پرکھوں نے اس وقت کبھی نہیں سوچا ہوگا کہ ان کی میراث ، ان کی مسند پرایک دن چھٹ بھیے خواجہ سراؤں کے بہروپ میں بندروں کی طرح اچھل رہے ہونگے۔
میں جس نے چھہ برس کی عمر میں اپنے والدین کی انگلی پکڑ کے اپنے آبائی گھر کو چھوڑا تھا اور پاکستان کی طرف ہجرت کی تھی آج اپنے اجداد کے سامنے شرمندہ ہوں کہ ان کی قربانیوں سے حاصل کردہ وطن پر آج ان کا قبضہ اور تسلط ہے جن کے کردار کی پستی پر خواجہ سرا بھی انگلی اٹھا رہے ہیں۔
اسی مزاج میں یہ چار مصرعے آپ کی نذر ہیں:
خواجہ سرا جو آج مقامِ حشم پہ ہیں
کیسا زوال ہے میرے قائد کے دیس میں
دیکھا جو غور سے تو ہوا ہم پہ آشکار
خواجہ سرا ہیں اصل محافظ کے بھیس میں!
ادھر سیاسی قیادت کے نام پر 8 فروری کے عوامی مینڈیٹ پر عاصم منیر اور گماشتوں کی ڈاکہ زنی کے نتیجہ میں مسندِ اقتدار پر بٹھائے ہوئے مہرے بھی آپے سے باہر ہورہے ہیں۔
شہباز شریف کٹھ پتلی وزیر اعظم ہے جسے عاصم منیر نے یہ کام سونپا ہے کہ وہ پاکستان کے دوست اور مہربان عرب ممالک کے سربراہان کے سامنے کشکول گدائی لیکے جائے اور فریاد کرے کہ ہم ڈوب رہے ہیں ہمیں بچالو۔
خلیج کے عرب ممالک کے پاس پیسہ ہے لیکن عقل بھی ہے۔ ان کے رہنما اور حکمراں پاکستان کے چھٹ بھیئے سیاسی گماشتوں کی اقوات خوب اچھی طرح سے سمجھتے ہیں ، جانتے ہیں لہٰذا وہ ان بھکاریوں کو ٹالنے کیلئے وعدے کرلیتے ہیں کہ وہ اتنی سرمایہ کاری کرینگے کہ پاکستان کی ڈوبتی نیا پار لگ جائے لیکن اتنے برسوں میں یہ وعدے وعدے ہی رہے ان میں حقیقت کم ہی نظر آئی۔
اب شہباز شریف اور اس کے ڈھنڈورچی بغلیں بجا رہے ہیں کہ متحدہ عرب امارات کے سربراہ شیخ محمد بن نہیان نے وعدہ کرلیا ہے کہ وہ پاکستان میں کم از کم دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرینگے۔ کٹھ پتلی حکومت کے کرائے کے نقیب اور ترجمان اس کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں کہ شہباز گماشتے نے کامیاب سفارتی کاری کا وہ کارنامہ کیا ہے جو اس سے پہلے کوئی وزیر اعظم نہیں کرسکا تھا۔ کارنامہ کیا ہے؟ ایک وعدہ ، ایک سبز باغ جو اگر پورا ہوجائے تو معجزہ ہوگا۔
وہ جن کے پاس سرمایہ ہوتا ہے، جو باہر کے کسی ملک میں اپنا سرمایہ لگاتے ہیں سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ ملک میں سیاسی استحکام بھی ہے یا نہیں؟ اور دنیا اندھی تو نہیں ہے اور پھر آج کی دنیا جس میں ابلاغ کے ذرائع اتنے تیز رفتار ہیں کہ ہر ملک کو دوربین بلکہ خورد بین سے دیکھ لیا جاتا ہے۔
سو دنیا جانتی ہے کہ پاکستان میں عسکری فسطائیت ہے، جمہوریت کو یرغمالی بنالیا گیا ہے، ملک کا سب سے مقبول سیاسی رہنما عسکری طالع آزماؤں کی قید میں ہے، ملک کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے بلکہ ڈوب رہی ہے۔ اندرونی اور بیرونی قرضوں کا بوجھ اتنا بڑھ چکا ہے کہ جو امداد یا بھیک مانگے تانگے کی مل جاتی ہے اس کا ستر فیصد سے زائد پرانے قرضوں کا سود ادا کرنے میں ضائع ہوجاتا ہے۔ ایسے ماحول میں کوئی عقل کا اندھا اور گرہ کا پورا ہی پاکستان میں سرمایہ لگانے کا خطرہ مول لے سکتا ہے ہوش و حواس والا تو نہیں۔ اور پاکستانیوں کو اپنے ذہنوں سے یہ خناس نکال دینا چاہئے کہ شیوخِ عرب عیاش اور ذہنی طور پہ مفلس ہیں۔ ایسا بالکل نہیں ہے۔ شیوخِ عرب جہاں مال و منال کا سوال ہو بہت ہوشیار اور سمجھدار ہیں۔
تو بھک منگے شہباز کو یا اس کے گماشتوں کو بغلیں بجانے دیجئے۔ عاصم منیر کے یہ کٹھ پتلے اس سے زیادہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔
ایسے میں سابق صدرمملکت، عارف علوی نے ان مہروں اور ان کے سرپرستوں کو اپنی دانش اور بصیرت سے کام لیتے ہوئےعاقبت سجھانے کی کوشش کی ہے یہ بیان دے کر کہ یہ جو پریشر ککر پاکستان میں آگ پر چڑھا ہوا ہے بہت جلد پھٹنے والا ہے۔ جب یہ پریشر ککر پھٹے گا تو وہ مہرے اور کٹھ پتلیاں جو آج بہت اچھل کود رہے ہیں اپنے سرپرستوں سمیت ملک سے بھاگ جائینگے کہ سب نے باہر کی دنیا میں اپنا انتظام کیا ہوا ہے۔ پریشر ککر کے پھٹنے کا مآل تو پاکستان کے عوام بھگتیں گے۔
لیکن عارف علوی نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ وہ اور ان کا رہنما، عمران خان، پاکستان کو بچانے کا بیڑا اٹھا چکے ہیں اور اللہ نے چاہا تو ان بھگوڑوں کے ناپاک وجود سے جب ملک کی سرزمین پاک ہوجائے گی تو تحریکِ انصاف عمران خان کی پر عزم قیادت میں ایک نیا پاکستان تعمیر کرے گی۔ ان شاء اللہ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں