کرکٹ میں ون ڈے اور ٹی- 20 کے کھیل میں دوسری اننگز نہیں ہوتی۔ سب کچھ ایک ہی اننگز میں تمام ہوجاتا ہے، فیصلہ ہوجاتا ہے کہ کون جیتا اور کون ہارا۔
لیکن اندھیر نگری پاکستان میں تو ٹیسٹ میچ کھیلا جارہا ہے جس کے قائدے اور قوانین طے کرنے والے وہی وردی پوش ملت فروش ہیں جنہوں نے اپنے فرضِ منصبی، یعنی میدانِ جنگ میں اپنی مہارت دکھلانے کے کام میں تو آج تک کوئی کارنامہ سر انجام نہیں دیا، کسی دشمن کو شکست نہیں دی، دشمن کی ایک انچ زمین بھی فتح نہیں کی بلکہ جن کا یہ اعزاز اور طرہء کمال یہ ہے کہ اپنی نخوت، اپنے گھمنڈ اور اپنے تکبر میں آدھا پاکستان گنوادیا اور جنگوں کی طویل تاریخ میں یہ اعزاز حاصل کیا کہ اپنے بدترین دشمن کے سامنے 93 ہزار بزدل فوجیوں نے ہتھیار ڈالے اور پاکستانی قوم کے منہ پر قیامت تک کیلئے شرمندگی اور رسوائی کی وہ کالک پوت دی جسے مٹانا یا صاف کرنا ناممکن ہے، کارِ لاحاصل ہے!
لیکن پاکستانی قوم بھی اپنی سرشت میں عجیب ہے!
عام مبصرین پاکستانی عوام کو سادہ لوح کہہ جاکے بات ختم کردیتے ہیں لیکن ہمارے خیال میں پاکستانی قوم کے خمیر میں جاگیرداری کی لعنت کا جو زہر ہے اس نے اس کی اکثریت سے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت بڑی حد تک چھین لی ہے۔ یہ نہ ہوتا تو پاکستانی عوام مشرقی پاکستان کے المیہ میں اپنے جرنیلوں کی ازلی بزدلی بخوبی دیکھ لینے کے بعد بھی انہیں گلے نہ لگاتے!
یہی ہماری تاریخ ہے ناں کہ ملک کو دو لخت کرنے والے جرنیل اپنی بزدلی اور سیاہ کرتوت کے باوجود قوم کی آنکھوں کے تارے رہے۔ سانحہء مشرقی پاکستان کے بعد بھی دو فوجی آمر قوم کے سینے پر مونگ دلتے رہے ۔ کیا میں غلط کہہ رہا ہوں؟
کیا یہی ہماری تاریخ نہیں ہے کہ آدھا ملک جنہوں نے کھودیا، اپنی حماقتوں اور گھمنڈ کے نتیجے میں، وہی جنرل ضیا الحق اور پرویز مشرف جیسے طالع آزما جرنیل پاکستان پر، دونوں کے ادوارِ مطلق العنان ملاکے کُل بیس برس پاکستان پر حکومت کرتے رہے ، قوم کے سینے پر مونگ دلتے رہے، پتھر توڑتے رہے لیکن بے حس قوم نے پھر بھی انہیں اپنی پلکوں پہ بٹھائے رکھا!
قوم کی اس تاریخی بے حسی کا ہی تو عسکری طالع آزماؤں نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اس کے باوجود کہ ملک کا آئین اور قانون ان کیلئے ملک کی سیاست میں دخل دینے اور اپنا حکم چلانے اور منوانے کی کوئی گنجائش نہیں رکھتا یہ فوجی آمر ملک پر مسلط رہے اور عوام نے اپنی بیوقوفی میں انہیں سر پہ بٹھائے رکھا۔
ان دنوں ہمارے سیاسی جرنیلوں کے کردار کے ضمن میں کسی ستم ظریف نے کیا پتے کی بات کی کہ ہمارے جرنیلوں نے آج تک جنگ تو کوئی نہیں جیتی لیکن الیکشن کوئی نہیں ہارا!
لیکن عمران خان کے عزم و حوصلہ کے آگے یہ ملت فروش جرنیل، جو پاکستان کی تاریخ کے بلاشبہ سب سے سیاہ کار ہیں، ہار گئے تھے حتی کہ انہوں نے پھر الیکشن پر نقب لگائی اور نتائج کی کاری گری کی۔
جتنا بے ضمیر یزید عاصم منیر کا وہ فسطائی ٹولہ ہے جس نے پوری فوج کو یرغمال بنایا ہوا ہے اتنے ہی بے غیرت اور بے شرم وہ چور اور ڈکیت ہیں جو اس بدنصیب قوم کو دونوں ہاتھوں سے بار بار لوٹتے رہے ہیں لیکن جن کے کرائے کے بھانڈ اب بھی ان کے حق میں بھنگڑا ڈالنے سے باز نہیں آتے۔
ہمیں یقین ہے کہ ہماری طرح اور بہت سے ہمارے قارئین کو وہ بدہیئت، کریہہ، پھٹ مارے چہرے دیکھ کر جی متلانے لگا ہوگا جو ایک بار پھر، اپنے مربی جرنیلوں کی عنایت اور وساطت سے اس اسمبلی کی سامنے کی نشستوں پر بے شرمی سے بیٹھے ہوئے دکھائی دئیے جس کا افتتاحی اجلاس آج اسلام آباد میں ہوا۔
ڈکیت زرداری، مہا چور نواز شریف، اس کا گرہ کٹ بھائی اور اٹھائی گیرہ شہباز اور وہ بھانڈ، خواجہ آصف جسے عثمان ڈار کی بیوہ ماں نے ستر ہزار ووٹ سے شرمناک شکست دی لیکن جرنیل مداریوں نے نتیجہ میں وہ خرد برد کی کی یہ سیالکوٹی بھانڈ ایک بار پھر اپنا کھیل دکھانے کو اسمبلی کا رکن بن گیا۔ اور یہی نہیں کہ یہ بھانڈ اپنے عسکری ملت فروش مربیوں کی اعانت سے وہاں براجمان کردیا گیا جہاں پہنچنے کا اس جیسے اور بھانڈوں کا راستہ سیالکوٹ کے غیور عوام نے بند کردیا تھا بلکہ یہ اپنے سفلے پن کا بے شرمی اور ڈھٹائی سے بار بار مظاہرہ بھی کرتا رہا اپنی کلائی کی گھڑی اتار کے اس کو لہراتا رہا اور عمران جیسے دیانتدار کو گھڑی چور کہہ کہہ کر اپنے دانت سکوڑتا رہا-
بھانڈ خواجہ آصف کی رگوں میں عسکری جرنیلوں کی غلامی ہے۔ اس بھانڈ کے والدِ بزرگوار، خواجہ صفدر، جنرل ضیا الحق کی مصاحبی کرتے تھے تو اس آمر نے جو سیاسی جماعتوں سے مبرا مجلس شوری بنائی تھی اس کے وہ سربراہ مقرر کردئیے گئے تھے۔ اب یقین ہے کہ شہباز چور کی سربراہی میں جو بھامن متی کا کنبہ جوڑا گیا ہے، یزیدی جرنیلوں کے آشیر واد سے، اس میں اس بھانڈ کو وزارت ضرور دی جائیگی۔ شہباز کی کابینہ میں یہ پہلے بھی وزیر دفاع تھا اب بھی وہیں لگ جائیے گا اور جرنیلوں کے تلوے چاٹے گا!
تو جرنیلوں کی اندھیر نگری میں پھر سے وہی چور اور ڈکیت اقتدار کی مسندوں پر بٹھادئے گئے جن کے سیاہ کرتوت قوم کے بچے بچے کے علم میں ہیں۔
جرنیلوں کے لاڈلوں میں بندر بانٹ صرف وفاق کی حد تک ہی نہیں ہوئی بلکہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ بھی اس کے ابلیسی حصار سے بچا نہیں رہا۔
پنجاب کی حرماں نصیبی کا تو یہ عالم ہے کہ اس پر ملک کے عالمی شہرت کے مالک بدعنوان چور نواز شریف کی بلیک میلر بیٹی کو وزیر اعلیٰ بناکر مسلط کردیا گیا ہے۔ مریم نواز کی واحد ہنر مندی یہ ہے کہ ان کی سرپرستی میں غنڈوں ، بدمعاشوں کا ایک ٹولہ ہے جس کا کام یہی ہے کہ وہ سیاسی اور عسکری مشاہیر کی ایسی ویڈیو بنائے جس سے ان مشاہیر کو بلیک میل کرکے اپنا اُلو سیدھا کیا جائے۔
مریم نواز کا خود یہ دعویٰ رہا ہے کہ ان کے پاس سینکڑوں نہیں ہزاروں ایسی ویڈیوز ہیں جنہیں شرفاء دیکھنا بھی پسند نہ کریں تو کیا عجب کہ اس بلیک میلر رانی کے خزانے میں عسکری ناخداؤں کی ویڈیوز بھی ہوں، ایسی ویڈیو جنہیں شرفاء نہیں دیکھ سکتے۔ مریم نواز کا دھاندلی کرکے انتخاب جیتنا اور پھر پنجاب کی وزیر اعلیٰ بن جانا اس کی گواہی دے رہا ہے کہ اس کی بلیک میلنگ نے چمتکار دکھایا اور انہیں وہ گوہر مقصود مل گیا، یا ان کی جھولی میں ڈال دیا گیا، جس کے پیچھے وہ ایک مدت سے تھیں۔
سوال یہ ہے کہ جرنیلوں کا یہ شیطانی کاروبار، یہ شطرنجی کھیل کب تک جاری رہے گا اور پاکستان سے کیا قیمت وصول کرے گا؟
ملک کی معیشت کا بھٹہ بیٹھ چکا ہے اور پاکستانی عوام کی کمر مہنگائی کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے دُھری ہوچکی ہے۔
پاکستان کا بال بال قرض میں بندھا ہے اور اس کے پڑوس میں، بھارت میں گذشتہ برس معیشت کی ترقی اور نمو کی شرح تقریبا” آٹھ فیصد کے قریب رہی ہے جس کی بنیاد پر ماہرین معیشت یہ پیشنگوئی کررہے ہیں کہ اگلے چار پانچ برس میں بھارت دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن جائے گا۔ فی زمانہ بھی اس کی معیشت کی نمو کی شرح دنیا میں سب سے آگے ہے!
اگلے تین چار برس معیشت کی ترقی کی رفتار بمشکل ایک فیصد رہے گی جبکہ ملک کی آبادی میں اضافہ کی شرح دو فیصد ہے!
یہ سوال ہر سوچنے والے ذہن میں آنا لازمی ہے کہ کیا یہ اعداد و شمار، یہ کڑوے، تلخ حقائق یزیدی جرنیلوں کی نظر میں نہیں؟
ہیں، یقینا” ہیں کیونکہ عسکری حلقوں اور ان کے سیاسی حماتیوں کا کہنا تو یہی ہے کہ جرنیل ہمارے بہت دانشمند اور وقفِ حالات ہیں اور ان کی نظریں ملک کے ہر گوشہ پر ہیں۔ تو پھر وہ کیوں ملک کو انہیں چوروں اور نوسربازوں کی تحویل میں رکھنا چاہتے ہیں جو ملک کو لوٹتے آئے ہیں اور اس بار پھر سے لوٹینگے؟
جواب بہت سیدھا سادھا سا ہے۔
چور کو چور ہی بھاتا ہے، ڈکیت کا ساتھ ڈکیت ہی دیتا ہے، نوسرباز ہی دوسرے نوسرباز کی ہمنوائی کرتا ہے۔پاکستانی فوج کے جرنیل وہ نہیں ہیں جو دنیا کی دیگر افواج میں ہوتے ہیں یا تصور کئے جاتے ہیں۔ پاکستانی جرنیل دکاندار ہیں، تاجر ہیں، صنعتکار ہیں۔ دنیا کی کوئی اور فوج ہے جو اسی (80) سے زائد مختلف صنعتیں اور کاروبار چلاتی ہو!
یہ لڑنے والی فوج ان ابلیسی چیلوں کی سرپرستی اور عملداری میں رہی ہی نہیں۔
یہی تو حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ میں، جسے آج تک منظر عام پر آنے نہیں دیا گیا، کہا گیا تھا کہ جو فوج سیاست اور کاروبار میں ملوث ہوجائے وہ پھر لڑنے کے قابل نہیں رہتی اورمشرقی پاکستان کے بعد کی تاریخ بھی گواہ ہے کہ پاکستانی فوج نے ہر میدان میں دھول چاٹی ہے، شکست فاش کھائی ہے۔
پاکستانی قوم کا ٹیسٹ میچ جاری رہے گا جب تک فوج کو ان نوسرباز اور یزیدی جرنیلوں کے تسلط سے آزاد نہیں کروالیا جاتا۔ اور یہ کام آسان نہیں ہوگا۔ یہ ٹولہ جو یزید عاصم منیر کی سربراہی میں، باجوہ کی باقیات کے ساتھ، فوج پر اور ملک و قوم پر اپنے پنجے گاڑے بیٹھا ہے آسانی سے جان نہیں چھوڑے گا۔ یہ کام فوج کے محب وطن اور ہمدرد عناصر کو خود کرنا ہوگا کہ اس شیطانی ٹولہ سے نجات حاصل کرے اور تطہیر کا یہ عمل جتنی جلدی بھی ہوسکے پاکستان کے حق میں اتنا ہی بہتر ہوگا۔
ورنہ تو یزیدیوں کا منصوبہ تکمیل کے آخری مراحل میں داخل ہوچکا ہے-
چور شہباز کو وزیر اعظم بنوادیا گیا۔ اب 9 مارچ کو ڈکیت زرداری کو صدرِ مملکت بنوانے کی تیاری ہے۔ ڈکیت زرداری اور چور شہباز تو قائل ہیں کہ وہ خود بھی کھائینگے اور اپنے سرپرست یزیدی جرنیلوں کو بھی کھل کھیلنے کی راہ میں حائل نہیں ہونگے۔ بھلا وہ اس شاخ کو کاٹ سکتے ہیں جس پر ان کا آشیانہ پھر سے بنادیا گیا ہے؟
تو اہالیانِ وطن تیار ہوجائیے پاکستان کی بربادی کا نیا کھیل دیکھنے کیلئے اور، میرے منہ میں خاک، عین ممکن ہے کہ یہ آخری ایکٹ ہو ڈرامے کا اور پاکستان پر خدا نہ کرے کہیں ویسا ہی سیاہ پردہ نہ گرجائے جیسا 1971ء کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں گرا تھا!
آپ نے یہ ضرور سنا ہوگا کہ
ؔ؎بربادیء گلشن کی خاطر بس ایک ہی اُلو کافی تھا
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجامِ گلستاں کیا ہوگا!
انجام کیا ہوگا؟ کیا ہوسکتا ہے سوا اس کے جس کیلئے اکبر الہ آبادی نے کہا تھا
؎پلاؤ کھائینگے احباب فاتحہ ہوگا!
اور چلتے چلتے ہمارا یہ نوحہ بھی سنتے جائیے
؎چوروں کا ٹولہ پھر سے مسلط ہے قوم پر
ملت فروش عسکری رہزن کی دین ہے
منشور پہ جمہور کے ڈاکہ پڑا ہے وہ
ہر سمت اضطراب و فغاں اور بین ہے
اور یہ بھی دیکھئے
؎وہی مکروہ چہرے دیکھ کر بھی جن کو گھن آئے
وہی قومی اسمبلی میں نمایاں پھر نظر آئے
یہ نوسرباز منظورِ نظر جرنیلی یزیدوں کے
تو پھر کیسے جمہوری پیڑ پر کوئی ثمر آئے؟
0