0

’’قوم کی نجات کا راز‘‘

ایک اور تازہ غزل
جبر حالات کا تقاضہ ہے
درد معمول سے زیادہ ہے
ذکر میرا ہوا تو یہ بولے
اس کا شکوہ وہی پرانا ہے
اُس کو زندہ کہوں تو کیسے کہوں
وہ جو ماحول سے بیگانہ ہے
ظلم سہتے ہیں، کُچھ نہیں کرتے
یہ تجاہل بھی عارفانہ ہے
میں جو شکوہ کروں تو کہتے ہیں
اس کو چھوڑو کہ اِک دیوانہ ہے
ظالمو، جان چھوڑ دو اب تو
لب پہ مظلوم کے ترانہ ہے
ہم کہ سالک کبھی تھے منزل کے
اب تو لگتا ہے اِک فسانہ ہے
ڈھونڈتے ہو کہاں کرامتؔ کو
اس کا مسکن غریب خانہ ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سقوط ڈھاکہ کی تاریخ جو بھُلا بیٹھے
میں ایسی قوم کو مُجرم کہوں تو کیوں نہ کہوں
سزا ہے اس کی یہ دہرائے گی وہی تاریخ
اَزل کے قاضی کا یہ فیصلہ نہ کیسے سُنوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طاغوت کی علامت کبریٰ ہے جی ایچ کیو
اِس کو مٹانا شرطِ اول نجات کی
اے قوم یہ عَساکر ملت فروش ہیں
اِن سے نجات پانا ضرورت ثبات کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قدرت کے قوانین میں تبدیلی نہیں ہے
ملّت کے گناہوں کی سزا ملتی ہے لاریب
اِس قوم کی بربادی مُقدر ہے ازل سے
جس قوم کی اشرافیہ کا فخر بنے عیب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غنڈہ گردی کو انگریزی میں کہتے ہیں rogue
عَسکری قائد بنے ہیں وہ ہی لوگ
غنڈہ گردی میں قیادت پیش پیش
قوم کا سب سے بڑا اب یہ ہے روگ!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں