آخری فیصلہ عوامی عدالت کرے گی؟
ہم نے گذشتہ کالم اس عنوان کے تحت تحریر کیا تھا کہ چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سےنہیں جاتا تو ان چوروں نے ، جنہیں قوم کے سر پہ سوار کرنے والے وہ وردی پوش یزیدی ہیں جو پاکستان کو اپنی جاگیر سمجھ کے اس کو اپنے رنگ میں ڈھالنے کی ہر ممکنہ کوشش کر رہے ہیں،ہیرا پھیری سے اپنے آقاؤں کی تحریر کردہ آئینی ترمیمات کو قومی اسمبلی کے دونوں ایوانوں سے منظور کروا ہی لیا!
جس ترمیمی پیکج کو آئینِ پاکستان میں 26ویں ترمیم کے عنوان سے دھونس، دھاندلی اور ہیرا پھیری کے تمام حربے استعمال کرتے ہوئے اس حکومت کے کارندوں اور ان کے ہمنوا سیاستدانوں نے قانون کا لبادہ پہنا دیا ہے وہ ترمیمی عمل رات کے اندھیرے میں پایہء تکمیل کو پہنچایا گیا ہے۔ چور کی پہچان یہی ہے کہ وہ اپنی چوری رات کے اندھیرے میں کرتا ہے اور یوں کرتا ہے کہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ جو کام وہ کرنے چلا ہے وہ ضابطہء قانون اور اخلاق کے سراسر خلاف ہے۔ لیکن چور چوری یوں کرتا ہے کہ اس کا ضمیر مرچکا ہوتا ہے اور مالِ مفت دلِ بے رحم کے مصداق وہ اپنی ہوس، اپنی حرص کو پورا کرنے کیلئے دوسروں کے مال پہ ہاتھ صاف کرتا ہے۔ یہی ان حکومتی چوروں نے اپنی ہوسِ اقتدار اور اپنے سہولت کاروں کی پاکستان کو اپنا یرغمالی بنائے رکھنے کی ہوس اور حرص کو پورا کرنے کیلئے آئینِ پاکستان کے ساتھ کیا ہے۔ یہ جو نئی ترمیم آئین میں کی گئی ہے اس سے عوام کے حق پر ڈاکہ پڑا ہے۔
آئینِ پاکستان ملک کے عوام کی امانت ہے۔ یہی وہ دستاویز ہے جو اپنے دیباچہ میں اعلان کر رہی ہے کہ ملک پر اصل حاکمیت تو کائینات بنانے والے کی ہے لیکن یہ حاکمیت پاکستانی جمہوریہ کےباسیوں کو منتقل کی گئی ہے اللہ کی امانت کے طور پر تاکہ وہ اس کے قوانین کی رعایت سے ایک آزاد مملکت کے ذمہ دار شہریوں کی طرح زندگی گذار سکیں۔ آئینِ پاکستان مملکت کے ہر شہری کو، بلا تفریقِ مذہب، نسل اور زبان یکساں حقوق دینے کی ضمانت فراہم کرتا ہے اور یہ ہر شہری کا استحقاق قرار دیتا ہے کہ وہ مکمل آزادی کے ساتھ اپنے ووٹ کے ذریعہ یہ فیصلہ کرینگے کہ ان پر کس پارٹی کی حکومت ہو اور وہ کس رہنما کو اپنی پسند سے اس کا حقدار قرار دیں کہ وہ ان کی رہنمائی کرے اور اور ان کے جمہوری اور آئینی حقوق کاضامن ہو۔
اسی سال کی ابتدا میں 8 فروری کو پاکستان کے جمہور نے اپنے ووٹ کو استعمال کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں یہ فیصلہ صادر کردیا تھا کہ وہ عمران خان کی قیادت پر بھروسہ کرتے ہیں اور اس کی تحریکِ انصاف پارٹی کو یہ حق تفویض کرتے ہیں کہ وہ جمہوریت کے مسلمہ اصولوں کی روشنی میں حکومت بنائے اور ان کے حقوق کی پاسبانی کرے۔ لیکن پھر وہی ہوا جو پاکستان کی تاریخ میں سیاہ ترین باب رقم کرچکا تھا۔ آج سے چون (54) برس پہلے پاکستان کے عوام نے ایسا ہی فیصلہ کیا تھا اور اس وقت کے مشرقی پاکستان کے عوامی رہنما شیخ مجیب الرحمان اور ان کی عوامی لیگ کو اپنے جمہوری حقِ انتخاب کے ذریعہ یہ حق دیا تھا کہ وہ ان کی رہنمائی کریں۔ لیکن جیسے آج کے یزیدی طالع آزما جرنیلوں کو، جو اپنی کمیں گاہوں میں چھپے ہوئے یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ کس سیاسی جماعت کی کٹھ پتلیوں کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو اپنی جاگیر کی طرح اپنی خواہشات کے تحت چلائینگے، عمران خان پسند نہیں ہے اسی طرح اس دور کے یزید، یحیٰی خان کو شیخ مجیب نہیں بھاتے تھے ۔ لہٰذا انہوں نے عوام کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اپنی بندوق کی طاقت پر انحصار کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قائدِ اعظم کا پاکستان دو لخت ہوگیا اور پاکستان کا مشرقی بازو بنگلہ دیش بن گیا۔
یزیدی جرنیلوں کا وہ ٹولہ جس نے ملک کو اپنا یرغمالی بنایا ہوا ہے تاریخ سے ، اپنی ہی تاریخ سے، کچھ نہ سیکھنے پر بضد ہے۔ اس یزیدی ٹولہ کی دو مجبوریاں ہیں۔ ایک جہالت دوسری طاقت کا گھمنڈ۔ پاکستان کے ابتدائی برسوں کے جرنیل پھر بھی کچھ پڑھے لکھے تھے لیکن عاصم منیر اور اس کے حواری تو وہ جرنیل ہیں جو بارہ جماعتیں پڑھنے کے بعد فوج میں اثر و رسوخ کی بنیاد پہ کمیشن پانے کے بعد اپنی موجودہ حیثیت تک پہنچے ہیں۔ تاریخ سے ان کی شناسائی بھی واجبی سی ہے اور پھر جو تھوڑی بہت تعلیم ہے اس پر بھی بندوق کے بیجا گھمنڈ اور غرور نے پانی پھیر دیا ہے۔ عمران خان کو جیل کی سلاخوں کی نذر کرنے کے بعد ان نیم تعلیم یافتہ جرنیلوں کا خیال تھا کہ وہ نواز یا زرداری کی طرح ان کے ساتھ سودا کرکے جلاوطنی اختیار کرلے گا لیکن خان تو دھن کا ایسا پکا ہے اور اس کا عزم اتنا راسخ ہے کہ وہ ان جاہل یزیدیوں کے ساتھ کوئی سودے بازی کیلئے آمادہ نہ کل ہوا تھا نہ آج۔
پھر انہیں یہ امید تھی کہ پاکستانیوں کی حافظہ کمزور ہے اور وہ چند دن یا ہفتوں میں عمران کو بھول جائینگے لیکن عوامی پذیرائی میں عمران خان کیلئے ہر دن اضافہ ہی ہوتا گیا اور عمران خان کے عزم اور حوصلہ نے عوام کی نظر میں اس کی عزت اور وقعت میں دن دونا اور رات چوگنا اضافہ کردیا۔ عوام کے مینڈیٹ پر شبخون مارنے اور اپنے ہی جیسے چوروں کو حکومت بخشنے والوں کو عمران کی اس بے پناہ مقبولیت نے بوکھلا دیا۔ اس پر طرہ یہ کہ اعلیٰ عدلیہ کے کچھ معزز جج صاحبان نے جس طرح یزیدیوں کے تابع فرمان ہونے سے انکار کیا اس نے اور جرنیلی ٹولے کی نیندیں حرام کردیں۔
یہ آئینی ترمیم اس خوف کا نتیجہ ہے کہ کہیں فائز عیسٰی جیسے ننگِ انصاف چیف جسٹس کے بعد آنے والے جسٹس منصور علی شاہ یزیدیوں کے منصوبوں کو آئین اور قانون کے درست استعمال سے مٹی میں نہ ملادیں۔ فائز عیسٰی تو پاکستانی عدلیہ کے بد ترین اور انتہائی ضمیر فروش چیف جسٹس کے نام سے تاریخ میں اپنی جگہ بنا چکا ہے اور روسیاہی کی کالک اپنے منہ پر مل کے عدلیہ کی 25 اکتوبر کو جان چھوڑے گا لیکن مروجہ قانون کے مطابق اس کے اگلے روز اس جج کی تقرری ہوجانے چاہئے جس کی شہرت اور ساکھ یہ ہے کہ وہ کسی دباؤ کے تحت فیصلہ نہیں کرتا بلکہ قانون اور آئین کے مطابق فیصلے کرتا ہے اور یہ ایمانداری اور دیانت وہ ہے جو یزیدیوں کیلئے ناقابلِ قبول ہے! سو یہ آئینی ترمیم اعلا عدلیہ کو حکومت اور حکومت کی ڈوریاں ہلانے والے یزیدی جرنیلی ٹولہ کے تابع فرمان کرنے کی مذموم کوشش ہے۔ اس ترمیم کا مسودہ جرنیلوں کی اختراع ہے۔ لعنت کی مستحق تو وہ حکومت ہے جو دنیا کی ہوس میں اپنی عاقبت اس حد تک خراب کرچکی ہے اور اس کے کارندے اور اہلکار اس طرح ننگے ہوچکے ہیں کہ حکومت کے وزیرِ قانون کو بھی یہ علم نہیں تھا کہ ترمیمی پیکج میں کیا درج ہے؟!
عدلیہ کو لنگڑا لولا کرنے کیلئے یہ نیا قانون بنا ہے کہ چیف جسٹس کی تقرری سینیارٹی کی بنیاد پر نہیں ہوگی بلکہ پارلیمان کی بارہ رکنی کمیٹی، جس کے اراکین کی اکثریت حکومتی ہوگی، تین سینئر ترین ججوں میں سے ایک کا انتخاب کریگی۔ ظاہر ہے کہ بے ایمان اور ملت فروش حکومت اراکین تو اپنے ہی جیسے بے ضمیر جج کے حق میں فیصلہ صادرکرینگے۔ ستم یہ کہ سپریم جوڈیشل کمیشن میں بھی پارلیمان کے چار نمائندے تعینات ہونگے جن کی تعداد ججوں کے برابر ہوگی۔ رات کے اندھیرے میں چوروں کی طرح پارلیمان نے اپنے آقاؤں کے فرمان کے مطابق عجلت میں ترمیمی پیکج کی منظوری یوں دی کہ فائز عیسی جیسے ننگِ انصاف و قانون چیف جسٹس کا پاپ 25 اکتوبر کو ختم ہوجائے گا اور اگلے دن سے، روایت اور قانون کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس کے منصب پر فائز ہوجانا چاہئے تھا لیکن ان کا راستہ مسدود کرنے کیلئے ہی تو یہ سارا ابلیسی منصوبہ روئے عمل لایا گیا ہے۔ چار دن رہ گئے ہیں رو سیاہ فائز عیسٰی سے نجات حاصل کرنے میں لیکن آج تک منصور علی شاہ کی تقرری کا نوٹیفیکیشن بے ایمان حکومت نے جاری نہیں کیا جس سے اس کی نیت کے کھوٹ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے !
پاکستانی جمہور کے حق پر یہ اسی سال میں دوسرا شبخون مارا گیا ہے۔ سوال یہ کہ ہے کہ وہ اس کے بعد بھی جاگتے ہیں یا نہیں؟ معاملہ اب ان کی عدالت میں ہے اسلئے کہ جس بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ ان کے آئینی حقوق کو یہ چور حکومت، جسے عوام نے اپنے پر حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں دیا تھا، دن دہاڑے ڈاکہ مارتی آئی ہے اور جس طرح شہریوں کی پا بندیاں آزادیاں سلب کی گئی ہیں اور اب بھی ہورہی ہیں، اس کے بعد تو کسی کو یہ شبہ نہیں رہنا چاہئے کہ پاکستان میں جمہوریت قتل ہورہی ہے اور اس کی جگہ ملک و قوم پر بدترین فسطائیت مسلط کی جارہی ہے جو جمہور سے ان کے تمام حقوق چھین لیگی اور انصاف اور عدل کی جگہ جنگل کا قانون ملک پر حکمرانی اور اپنی من مانی کریگا!
بنگلہ دیش کے حریت پسند عوام نے اور خاص طور پہ اس کے نوجوانوں نے پاکستان کے عوام اور اس کے نوجوانوں کے سامنے ایک ایسی روشن مثال قائم کی ہے جس کا اتباع کرتے ہوئے پاکستانی جمہور بھی ان چوروں، غاصبوں اور طالع آزماؤں سے نجات حاصل کرسکتے ہیں جنہوں نے ان کے بنیادی جمہوری حقوق کو اپنی ہوسِ اقتدار کی بھینٹ چڑھا دیا ہے اور اپنے سیاہ کرتوتوں پر انہیں کوئی پشیمانی یا شرمندگی نہیں ہے۔ پنجاب کے نوجوان طالبعلموں نے اپنی ایک ساتھی طالبہ کی عصمت دری کے واقعہ پر احتجاج کا جو سلسلہ شروع کیا ہے اس کے جواب میں پنجاب کی حکومت، جو ایک بلیک میلر خاتون کی سربراہی میں انصاف اور قانون کا مذاق اڑاتی آئی ہے، کا رد عمل اور رویہ مکمل فسطائیت کا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پنجاب اور دیگر صوبوں کے نوجوان طالبعلم اس فسطائیت کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں یا طاقت کے استعمال کا غرور اور فسطائی ہتھکنڈوں کا بے دریغ استعمال نوجوانوں کے حوصلہ کو مہمیز عطا کرتا ہے اور ان کی مزاحمت کو فروغ دینے کا باعث بنتا ہے؟ پاکستانی نوجوانوں کے سامنے عمران خان کے عزم و حوصلہ کی زندہ مثال موجود ہے کہ کس یقین اور ایمان کے ساتھ اس نے فسطائیت کے حربوں اور حملوں کو ناکام بنادیا ہے۔ اس سے بہتر اور روشن مثال پیروی کرنے کیلئے اور کیا ہوسکتی ہے؟ ہم اس دعا کے ساتھ یہ سطور ختم کرتے ہیں کہ اللہ تعالہ پاکستانی نوجوانوں کو وہ جذبہ اور ایثار عطا کرے جس کی سب سے روشن مثال تو کربلا میں سید الشہداء امام عالی مقام سیدنا حسین نے
قائم کی تھی اور جو قیامت تک کیلئے ہر حریت پسند کے حوصلہ اور ایقان کو زندہ رکھنے کیلئے تابندہ و تابناک ہے۔ ورنہ اگر ہمارے نوجوان حوصلہ ہار گئے تو پھر انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ یزیدیوں کی اور ان کے زرخرید گماشتوں اور غلاموں کی غلامی قوم کا نہ جانے کب تک مقدر بنی رہےگی۔ یہاں ہمیں وہ شعر یاد آتا ہے جو برصغیر کی آزادی کے برسوں میں مسلمانوں کے حوصلہ کو بڑھانے کیلئے زباں زدِ عام تھا۔ ہم وہ شعر ذرا سے تصرف کے ساتھ یہاں پھر نقل کرتے ہیں۔
نہ سنبھلوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستاں (پاکستاں) والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں!