جھوٹ کے پاؤں کہاں! اور اس کہاوت کو حرف بہ حرف درست ثابت کرنے والے وہ چور ہیں جنہیں یہ زعم ہے کہ وہ واقعی اشراف ہیں، اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ان چوروں کی اس خود فریبی کو تقویت بخشنے والے اور اسے پروان چڑھانے والے ان کے وہ وردی پوش سہولت کار ہیں جو خود بھی ان ہی کی طرح بہت بڑے چور، بلا کے خائن اور بد خو ہیں۔ اور جیسے ان اشرافیہ کے چوروں کو یہ غلط فہمی ہے کہ وہ قوم کے قائد اور رہنما ہیں اسی طرح ان کے جرنیلی سہولت کاروں کو یہ خوش فہمی ہے کہ وہ ملک و قوم کے محافط ہیں! محافظ یا رہنما کی کسوٹی یہ ہے کہ وہ چوروں کی طرح بھاگتا نہیں۔ یقین نہ آئے تو دیکھئے کہ عمران خان کس پامردی اور استقلال کے ساتھ گزشتہ ایک برس سے زیادہ عرصہ سے اس قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہا ہے، شیر کی طرح اپنے پر کئے گئے مظالم اور زیادتیوں کے سامنے سینہ سپرہے جبکہ اس کے دشمن راہ فرار اختیار کر رہے ہیں۔
جیسے جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے ایسے ہی چور، وہ چاہے وردی میں ہو یا سفید پوش ہو، جیسے ہی دیکھتا ہے کہ اس کا کھیل تمام ہونے کو ہے، اس کی بساطِ فریب لپٹنے کو ہے وہ فوری راہِ فرار اختیار کرتا ہے۔ اسی لئے پاکستانی سپاہ کا کوئی سالار اقتدار سے محروم ہونے کے بعد پاکستان میں نہیں ٹکتا۔ فوراًجائے عافیت کی راہ لیتا ہے جہاں اس نے ملک سے لوٹی ہوئی دولت چھپائی ہوئی ہوتی ہے، جہاں اس کی لوٹ مار کے اثاثے دفن ہوتے ہیں۔ اپنے وردی والے آقاؤں کی دیکھا دیکھی نام نہاد اشرافیہ کے چور بھی، وہ چاہے سیاست کی مسند پر ہوں یا عدلیہ کی، بازی پلٹتے ہی ملک سے راہِ فرار اختیار کرتے ہیں۔ فائز عیسی کے متعلق مستقبل کا مورخ جو لکھے گا وہ تو لکھے گا لیکن عوام کی عدالت یہ فیصلہ اس کے چیف جسٹس ہوتے ہوئے ہی سناچکی ہے کہ پاکستانی عدلیہ کی داغدار تاریخ کا سب سے رسوائے زمانہ جسٹس فائز عیسی ثابت ہوا ہے۔ اس بد نہاد نے عدلیہ کی جو بے توقیری کی ہے اسے بحال کرنے میں نہ جانے کتنے برسوں لگ جائینگے، اگر وہ کبھی عوام کی نظروں میں توقیر کی جگہ پاسکا تو! اس چھچورے، چھٹ بھیے نے وہ لٹیا ڈبوئی ہے کہ عقل حیران و پریشان ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کا کوئی سربراہ اتنا بے ایمان، اس قدر فریبی اور اس بلا کا منقسم مزاج ہوسکتا ہے جیسا فائز عیسیٰ نے اپنی نیچ حرکتوں سے پاکستان کے عوام ہی نہیں بلکہ دنیا کو دکھا دیا کہ کوئی کم ظرف اقتدار ملنے پر کیسی کیسی پوچ اور لچر حرکتیں کرسکتا ہے، یہ خیال کئے بغیر کہ وہ اپنی رذالت تو دنیا کو دکھا ہی رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اس معزز اور موقر ادارے کو، جس کا وہ شومئی قسمت سے سربراہ ہوگیا ہو، کیسے کانٹوں میں گھسیٹ رہا ہے، کیسے اس کی رسوائی اور بے عزتی کا سبب بن رہا ہے!
عمران خان کی دشمنی نے اس چھٹ بھیے کو پاگل کردیا تھا۔ لہٰذا عمران اور تحریکِ انصاف کو یہ ملعون جتنا نقصان پہنچا سکتا تھا س نے پہنچایا۔ کیا کیا نہیں کیا اس بدبخت نے عمران کیلئے ہر قدم پر مشکلات پیدا کرنے کیلئے۔ عمران کو جھوٹے مقدمات میں ملوث کیا، پارٹی پر ضربِ کاری یوں لگائی کہ اس سے اس کا انتخابی نشان، کرکٹ کا بلا، ہی چھین لیا۔ اس چور کا گرہ کٹ بھائی، اور اس جیسا ہی شیطان خصلت، چیف الیکشن کمشنر، نام نہاد راجہ سکندر سلطان، اس کے شریکِ جرم رہا اور اس کی شیطانیت کو فروغ دینے کیلئے ابلیس کا شاگرد فائز عیسی جو کچھ کرسکتا تھا اس نے کیا۔ ان دونوں شیطانوں کو مکمل یقین تھا کہ ان کا سرپرست، ان ہی کی طرح کا شیطان، جنرل عاصم منیر جی ایچ کیو کی اپنی کمیں گاہ سے ان دونوں کی نہ صرف بھرپور سرپرستی کر رہا تھا بلکہ عمران کے خلاف ان تینوں شیطانوں کی چنڈال چوکڑی نے ہر طرح سے شر پھیلایا اور عمران دشمنی میں یہ تثلیثِ شر تاریخ کے بدترین شیطانوں سے بازی لے گئے۔ لیکن سب سے بڑا منصوبہ ساز تو مالکِ کائنات ہے لہٰذا وہ ان کی شیطانی چالوں اور حربوں کے
خلاف عمران خان کا دفاع کرتا رہا اور کر رہا ہے۔ سو عمران تو ناقابلِ تسخیر چٹان کی طرح اپنی جائے حق پر ڈٹا ہوا ہے لیکن چوروں کے ناپاک قدموں کے نیچے سے زمین کھسک رہی ہے۔
چور فائز عیسی کو علم تھا کہ اقتدار سے محروم ہونے کے بعد اسے پاکستانی قوم کی لعنت کا سامنا ہوگا لہٰذا اس نے 25 اکتوبر کو مسندِ عدل چھوڑی اور دوسرے ہی دن لندن فرار ہوگیا جہاں ناجائز کمائی سے اس نے بہت جائیداد بنائی ہوئی ہے۔ فائز عیسی کے بھی پرستار ہیں اور ہمیں اس پہ چنداں حیرت نہیں ہے کیونکہ قوم کی صفوں میں چوروں کے حالی موالی بہت سے گھسے بیٹھے ہیں۔ تو چور فائز عیسی کے یہ پروانے بغلیں بجا رہے ہیں کہ اسے لندن کی معروف وکالتی درسگاہ، مڈل ٹیمپل کی رکنیت مل گئی ہے! حیرت کی بات یوں نہیں ہے کہ نام نہاد اشرافیہ کے سب چور، وہ جس روپ میں ہوں، جس منصب پر فائز ہوں، مغرب کے کاسہ لیس اور گماشتے ہیں۔ تو کوئی بڑی بات نہیں ہے کہ پاکستان دشمن برطانیہ کی ایک درسگاہ نے اپنے ایک سگِ چوکھٹ کو اس کی خدمات کے عوض ایک نام کا منصب دے کر نواز دیا۔
پاکستان کی عدلیہ کو جو زک فائز عیسی نے پہنچائی ہے اس کا انعام تو اس کے مغربی سرپرستوں پر ادھار تھا۔ سو انہوں نے کتے کے آگے ہڈی ڈال کر اسے انعام دے دیا۔ اور سو بات کی ایک بات یہ ہے کہ
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا !
فائز عیسی کے ساتھ ساتھ مہا چور نواز بھی اپنے اصلی وطن ، لندن کیلئے فرار ہوگیا۔ لندن جاتے ہوئے یہ ڈکیت دبئی سے گذرا تو وہاں ایر پورٹ پر پاکستانیوں نے چور چور کے نعروں سے اس کا استقبال کیا۔ پھر لندن پہنچنے پر جو تواضع وہاں کے پاکستانیوں نے اس کی کی وہ اگر کسی غیرت مند کی ہوتی تو وہ شرم سے ڈوب مرتا۔ لیکن چوروں کو حیا، شرم کہاں۔ وہ تو اس بات کے قائل ہیں کہ نعروں سے اور عوامی احتجاج سے کچھ نہیں بگڑتا! بے عزتی وہ محسوس کرتا ہے جس کی کوئی عزت ہو۔ جبکہ وہ فائز عیسی جیسا رسوائے زمانہ ہو یا نواز جیسا چور، ان کی لغت میں عزت یا حیا یا شرم نام کے الفاظ ہی درج نہیں۔
فائز عیسی بھاگا، نواز بھاگا، تو یہی کہا جاسکتا ہے ان چوروں کے فرار پر کہ خس کم جہاں پاک۔
لیکن ان چوروں کے بہت سے بغل بچے ابھی اقتدار سے چمٹے ہوئے ہیں اور قوم کے سینے پر مونگ دل رہے ہیں۔ نواز کا ایک گماشتہ وہ ایازکاذب ہے جو قومی اسمبلی کا اسپیکر بنا ہوا بیٹھا ہے۔ اسپیکر کا عہدہ وقار اور شرافت کا حامل ہوتا ہے لیکن یہ چھٹ بھیا اسپیکر کی نشست پر ایسے ہی لگتا ہے جیسے کسی بندر کو مسندِ اقتدار پہ بٹھادیا جائے۔ کم ذات کم ذات ہی ہوتا ہے اور اسے اگر وہ منصب مل جائے جس کی وہ اہلیت نہیں رکھتا تو گنجے کے ناخنوں کی طرح وہ اپنا سر کھجا کھجا کے لہو لہان ہوجاتا ہے۔ تو ایاز کاذب کے حوصلے اس قدر ہوگئے ہیں کہ وہ علی اعلان یہ کہہ رہا ہے کہ وہ سپریم کورٹ ے اس فیصلے پر کوئی عمل درآمد نہیں کرے گا جس میں حکم دیا گیا ہے کہ پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستیں تحریکِ انصاف کے اراکین کو دی جائیں کیونکہ عدالت کی نظر میں وہی اس کے جائز حقدار ہیں۔ ادھر وہ سیاست کا لونڈا، بلاول بھٹو، پاکستان کے سب سے بڑے ڈکیت کا فرزند، بھی اپنے آپ کو پاکستان کا قائد سمجھنے لگا ہے۔ 26ویں آئینی ترمیم میں اس نے بڑا کردار ادا کیا جس کے بعد اسے بھی زعم ہوگیا ہے کہ وہ لیڈر بن چکا ہے۔ خاک کے ذروں کی اوقات دیکھا چاہئے۔
سو اب بلاول 26 کے بعد 27 ویں ترمیم کے دعوے کر رہا ہے۔ اسے زعم ہے کہ اس کا ڈکیت باپ ملک کا صدر بنا بیٹھا ہے اور اس کا سرپرست، یزید عاصم منیر، اس کی ہر بات پہ آمنا و صدقنا کہنےکیلئے بیٹھا ہے سو اسے ڈینگیں مارنے کی کھلی چھٹی ہے۔ لیکن اصل بدبختی تو پاکستان کی ہے، پاکستانی عوام کی ہے کہ خاک کے ذرے پرواز کے دعویدار ہیں۔ چھبیسویں آئینی ترمیم رات کی تاریکی میں کرنے کے بعد چوروں کے حوصلے بہت بلند ہوگئے ہیں۔انہیں یہ زعم ہوگیا ہے کہ وہ جو چاہیں کرلیں عوام ان کا مواخذہ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ خدا کا خوف ان چوروں کے دلوں سے اٹھ گیا ہے۔ اور کیوں نہ ہو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا فیصلہ کرنے والے کون ہیں؟ احسن اقبال جیسا چور جس نے اپنے شہر نارووال میں تھوک کے بھاؤ سے جعلی ووٹ ڈلوائے اور مکر و فریب سے جیتا۔
راجہ پرویز اشرف، جس کی شہرت راجہ رینٹل کے نام سے ہے وہ بھی چیف جسٹس کے انتخاب میں شریک تھا۔ یہ وہ چور ہے جس نے اربوں روپے کی کرپشن کی اور پاکستان جو رینٹل بجلی گھروں کے عذاب میں ہے اس کا سب سے بڑا ذمہ دار یہی راجہ رینٹل نامی چور ہے۔ اور تو اور خواجہ آصف جیسا پانچوں عیب شرعی بھی چیف جسٹس کی تقرری میں کلیدی فریق تھا۔ یہ وہ بے حیا، بے شرم ہے جو ہر طرح کی کرپشن کے علاوہ اس کارنامہ کا بھی موجد ہے کہ پاکستان کا وزیرِ دفاع ہوتے ہوئے یہ کم ذات دبئی میں اقامہ رکھتا تھا، اور وہ بھی ایک بڑھئی کا! لیکن پاکستانی عوام ہیں جو ان چوروں اور ڈاکوؤں کو اپنے سر پہ بٹھائے ہوئے ہیں اور ان سے کوئی حساب لینے پر آمادہ نہیں ہیں۔ وہ جو کہاوت ہے ناں کہ ناؤ کس نے ڈبوئی، خواجہ خضر نے تو اس کی تفسیر پاکستان کے عوام ہیں جو ایسے خوابِ غفلت میں سوئے ہوئے ہیں کہ صور بھی پھونکا جائے تو شاید ہی جاگیں! عوام کی غفلت سے چور اور طالع آزما فائدہ اٹھاتے ہیں۔ تو یہ سوچنا پڑتا ہے کہ وہ جو قرآن کا فیصلہ ہے کہ جیسا کردار قوم کا ہوگا ویسے ہی حکمراں اسے ملیں گے وہ حرف بہ حرف پاکستانی قوم پر صادق آتا ہے۔
ہمار ی سمجھ میں تو اس غفلت، اس لاپروائی، کی ایک ہی وجہ آتی ہے اور وہ ہے علم کا فقدان، علم کی بے وقعتی۔ ابھی حال ہی میں لاہور میں کتابوں کا ایک میلہ ہوا تھا جہاں کتابیں تو صرف 35 بکیں لیکن زندہ دلانِ لاہور 1200 شاورما اور 800 پلیٹیں بریانی کی چٹ کرگئے! کتاب سے یہ بے رغبتی ظاہر کرتی ہے کہ علم کے حصول سے قوم کی بیگانگی کس حد تک پہنچ چکی ہے۔ علم جس قوم میں بے توقیر ہوجائےتو اس قوم کی تباہی مقدر ہوچکی ہوتی ہے۔
زوالِ علم و عرفاں دیکھتے ہیں اپنی آنکھوں سے
کتابیں سڑکوں پہ بکتی ہیں جوتے شیشے کے گھر میں
قلم قرطاس سے رشتہ برائے نام باقی ہے
وگرنہ علم بے توقیر ہے اس عالمِ زر میں!
0