عمران خان نے پنگا لے لیا ہے، بھلا کس سے؟ فوج سے۔ اور کس سے؟ اب اس کا مطلب کیا ہے؟ فوج خان صاحب اور ان کی پارٹی کا جینا حرام کررہی ہے۔ کارکنوں کی گرفتاریاں۔ عورتیں ، لڑکیاں اور بوڑھے سیاستدان۔ سب ہی اس وہشت کا شکار ہیں۔ خان صاحب کو جیل میں صعوبتیں اور جینا تنگ سے تنگ۔ کس لیے؟ اس لیے کہ خان صاحب آزاد ہو کر تحریک انصاف کے جھنڈے تلے، کرپشن کے خلاف جنگ کرنا چاہتے ہیں۔لیکن خان صاحب کے خلاف بیرونی طاقتیں بھی شامل ہیں۔ جیسے امریکہ بہادر۔ امریکن بے چارے تو اکثر اچھے ہوتے ہیں، لیکن وہ بھی ایک ایسی قوم کے شکنجے میں پھنسے ہوئے ہیں ، کہ اس کا حکم نہ ماننے سے اگلا الیکشن ہار سکتے ہیں۔وہ قوم خود تو اتنی بُری نہیں، البتہ انکا نمائندہ گروہ ہر وہ حکم لا نے کا پابند ہے جو اسے بی بی سے ملتا ہے ، یعنی نیتن یاہو سے۔
کسی امریکن نے ایک سمجھدار آدمی سے پوچھا کہ امریکہ کیوں فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے اور کب غزہ پر حملے بند کروآئے گا؟ تو اسے جو جواب ملا اسے گرہ سے باندھ لیجئیے۔ اس نے کہا اگر غزہ پرحملے بند کروانے ہیں تو اسرائیل کی حکومت بدل دیں۔ حملے رک جائیں گے۔مطلب یہ کہ جب تک بی بی بیٹھا ہے وہ جب تک آخری فلسطینی کو نہیں مار ڈالے گا ، چین سے نہیں بیٹھے گا۔اور جب تک اس کا حکم امریکن حکومت پر چلتا ہے، عمران خان کو بھی کوئی مائی کا لال جیل سے نہیں رہا کروا سکتا۔اب اس تناظر میں، آپ کی سوچ ہے کہ خان صاحب پر ظلم ہوتے دیکھ رہے ہیں اور بے بس ہیں۔ بلکہ بے ٹرک بھی ہیں کہ جس کی بتی کے پیچھے آپ کو لگادیا گیا ہے۔آپ کو یہ تو معلوم ہے ہی کہ پاکستان کی فوج کے جرنیل کس حد تک امریکی حکومت کے نمک خوار ہیں۔ان کو معلوم ہے کہ پاکستان کی حکومتیں انہی کی مرضی سے بنتی اور بگڑتی ہیں، ان کی مرضی سے فوج کے سپہ سالار لگائے جاتے ہیں اور ان کی مرضی سے ہی ان کی مدت ملازمت میں توسیع ہوتی ہے۔اور جب پاکستان کی معیشت زمین بوس ہونے لگتی ہے تو امریکہ بہادر ہی کام آتا ہے۔ امریکہ پاکستان کا مائی باپ ہے۔
یہ تو سب جانتے ہیں کہ سیاستدانوں کی طرح فوجی بھی کچھ اثاثے بنائے بیٹھے ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ خان کل کلاں ان پر چڑھائی کر دے اور کرپشن سے جڑے ہوئے اثاثے بحق سرکار ضبط کر لے۔ اس سے بچنے کے لیے اس نے ایک پالیسی بنائی ہوئی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ناجائز سیاستدانوں کی حکومت چلنے دو۔ جس حد تک ممکن ہے تحریک انصاف کے کارکنوں، قائدین اور خصوصاً خواتین کو زیر حراست رکھو۔ پولیس کو نمونے کی ایف آئی آردی ہوئی ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی لگا کر گرفتار شدگان کو جیل پہنچا دے۔پہلی کوشش ہوتی ہے کہ ایف آئی آر میں دہشت گردی کی دفعات لگائی جائیں، خواہ وہ سفید جھوٹ پر مبنی ہوں۔ اس کے بعد جو پولیس افسر کی سمجھ میں آئے۔
ہمارے پیارے فوجی بھائیوں نے بہت کوشش کی کہ ان تمام گرفتار شدگان کو ملٹری عدالتوں میں پیش کیا جائے اور منٹوں میں ہر قیدی کو یا موت کی سزا دے دی جائے یا کوڑوں کی، کیونکہ قید کی سزا کے لیے قیدی کو جیل بھیجنا پڑتا ہے اور اسے روٹی پانی بھی دینا پڑتے ہیں، وہ خواہ مخواہ کی ذمہ واری ہے۔لیکن اللہ بھلا کرے اس مردود کازی عیسیٰ کا جس نے شہریوں کا فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلانے کی اجازت نہیں دی۔ 26ویں ترمیم میں اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور کوشش تھی کہ آئین کو ہی بدل دیا جائے لیکن مولانا فضل الرحمنٰ نے ترمیم کی ترمیم کرواکے یہ شق اُڑوا دی۔اس لیے اب یہ خطرہ تو ٹل گیا ہے کہ خان صاحب اور ان کے ساتھیوں کو جھوٹے مقدمات میں فوجی عدالتوں میں لا کر اللہ کے حوالے کر دیا جاتا۔ اور تحریک بے چاری بے نام اور بے قائد ہو جاتی۔
سوال یہ ہے کہ اتنے ہزاروںتحریک کے نام لیوائوں کا کیا قصور ہے کہ انہیں جیلوں میں ٹھونسا ہوا ہے۔اس نا چیز کی رائے میں اس کا صرف ایک مقصد ہے کہ خان صاحب سے جب سودا بازی کی جائے تو ان قیدیوں کے بدلے میں خان صاحب سے منوا لیا جائے کہ وہ حکومت میںآکر، اسٹیبلشمنٹ سے حساب کتاب نہیں مانگیں گے اور شاید کمانڈر ان چیف کی مدت ملازمت میں مزید تین سال کا اضافہ بھی کر دیں گے؟ ہو سکتا ہے کچھ اور بھی اس قسم کی رعائتیں مانگنے کا ارادہ بھی ہو۔جب خان صاحب یہ سب کچھ مان جائیں گے تو سب قیدی اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں گے۔اور راوی پھر چین ہی چین لکھے گا۔مگر ابھی تک تو خان اپنی ضد پر اٹکا ہوا ہے کہ اے بلا مشروط، بغیر کسی لین دین کے قید سے رہا کیا جائے۔ وہ ان کو کوئی ایسی یقین دہانی نہیں کروانا چاہتا جو غیر آئینی ہو اور غیر قانونی ہو۔اب دیکھیں کہ کب تک یہ طرفین اپنے اپنے فیصلوں پر جمے رہیں گے؟ اب آپ مجھے بتائیں کہ تحریک کے کارکنوں کو کس بات پر جیل بھیجا گیا؟ یہی کہ9مئی کے واقعہ میں انہوں نے فوجی تنصیبات پر حملہ کیا۔یہی الزام انہوں نے ان بے چاری خواتین قائدین پر بھی لگایا جو وہاں موجود ہی نہیں تھیںیا وہ لوگوں کو منع کر رہی تھیں کہ وہ فوجی قیام گاہ میں نہ جائیں۔لیکن کہتے ہیں نہ کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔چونکہ لاٹھی ان کے ہاتھ میں ہے ، انہی کا سکہ چلتا ہے۔
اب یہ بھی ایک چھوٹا سا سوال پیدا ہو تا ہے کہ حکومت کیوں ان کی ہر بات مان لیتی ہے؟ یہ سوال آسان ہے۔وہ اس لیے کہ حکومت بنوائی کس نے؟ اس میں شامل جماعتوں کے اکثر سیاستدان فروری کے انتخابات میں تحریک کے امیدواروں سے ہار چکے تھے۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ نے بے ضمیر نوکر شاہی کے افسران کے ذریعے، فارم 45، جس پر انتخابات کے مصدقہ نتائج تھے بدلوا کر فارم 47 میں جہاں ان کا اندراج مختصراً کیا گیا تھا، اس میں رد وبدل کی اور ہارے ہوئوں کو جیتا ہوا دکھایا گیا۔ اس طرح نون لیگ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئیں۔ اس کام کے دو بڑے فائدے فوج کو ہوئے۔ اولاً حکومت ان کی مرضی کے جماعتوں کی بنی جو ان کا ہر حکم بجا لاتی تھی اور دوم یہ کہ حکمران جماعتوں کے سر پر تلوار لٹکتی تھی کہ کسی وقت بھی اگر فوج چاہے تو بذریعہ عدالت فارم 45سے جیتنے والوں کو ان کا حق دلوا سکتی ہے اور جعلی حکومت کو گھر بھجوا سکتی ہے۔یہ ایک بڑے مزیدار صورت حال ہے فوج کے لیے۔
کہتے ہیں کہ یہ سارا ڈرامہ لندن میں نواز شریف کے ساتھ ملکر تیار کیا گیا۔ اس میں فوجی تنصیبات پر حملے کی تیاری سے لیکر انتخابات میں کیسے نواز شریف کی حکومت بنانی تھی، سب کچھ تھا۔ نواز شریف نے کہا کہ قومی اسمبلی میں مجھے دو تہائی اکثریت چاہیئے ہو گی۔ وہ تو نہ ملی لیکن اتنے ارکان تو مل گئے کہ حکومت سازی ہو گئی۔لیکن ان انتخابات نے نواز شریف کا دل توڑ دیا۔ وہ تحریک کی ایک بزرگ رہنما ڈاکٹر یاسمین سے انتخاب ہار گئے اور ڈاکٹر یاسمین بھاری اکثریت کے ساتھ جیت گئیں۔ یہ صدمہ نہ صرف اس لیے شدید تھا کہ نواز شریف اپنی راجدھانی میں اس قدر بے عزتی کے ساتھ ہارے اور ہارے بھی تو ایک بزرگ خاتون سے۔ یہ ایک علیحدہ بات ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے حسب وعدہ انہیں فارم 47 میں رد و بدل کر کے جتوا دیا۔ لیکن یہ حقیقت میاں صاحب کی رعونت اور خوداری پر ایک ضرب کاری تھی جس سے وہ سنبھل نہیں سکے اور جتنا عرصہ پاکستان میں رہے، خاموشی سے رہے۔وہ سب کچھ بھول سکتے تھے کہ کس طرح قاضی عیسیٰ اور فوج نے ان کے مقدمات ختم کروائے ۔ اور ان کو باعزت بری کروایا جب کہ وہ اشتہاری ملزم قرار دیے جا چکے تھے۔لیکن جو ہاتھ عوام الناس نے ان کے ساتھ کھیلا، وہ اس کا کبھی تصور بھی نہیںکر سکتے تھے۔پٹواری تو ان پر جان چھڑکتے تھے اور ساری نوکر شاہی جو اوپر کی آمدنی اور مراعات پر عیش کر رہی تھی۔
انتخابات کے اصلی نتائج نے میاں کے سارے خواب چکنا چور کر دیے۔ اب وہ جعلی کامیابی کی خوشی تو منا سکتے تھے لیکن کسی کے مرہون منت ہو کر۔ اس لیے جوں ہی قاضی عیسیٰ کی مدت ملازمت ختم ہوئی ، میاں صاحب نے بھی وطن واپسی کا جہاز پکڑ لیا۔ اور لندن جانے کی ٹھان لی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں ایک ہی سیاسی جماعت مقبول عام ہے اور وہ تحریک انصاف ہے۔ لوگ پرانی جماعتوں اور اُن کی کرتوتوں سے اکتا چکے ہیں جس کا مظاہرہ انہوں نے فروری کے عام انتخابات میںکر دیا۔اب ایک ہی جنگ باقی ہے اور وہ ہے کرپٹ مافیہ اور عمران خان کے درمیان۔ لیکن چونکہ عوام اس کھیل کو سمجھ چکے ہیں، وہ کرپٹ مافیہ سے بھی اکتا چکے ہیں، وہ پاکستان میں ایک ایماندار لیڈر چاہتے ہیں جو انہیں عمران خان کی صورت میں نظر آتا ہے۔جوں ہی انہیں موقع ملا وہ اس کو بر سر اقتدار لے آئیں گے۔
ادھر امریکہ میں پاکستانی ڈایاسپورا (diaspora) یعنی مہاجرین پاکستان، وطن کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے مہذب طریقوں سے پاکستان میں ہونے والی نا جائز صورت حال سے امریکن قیادت کو آگاہ کر رہے ہیں، اس قدر کہ چند روز پہلے ۶۲ کانگریس کے ارکان نے ایک زبردست خط صدر ریاستہائے متحدہ جو بائیڈن کو ارسال کیا ہے جس میں پاکستان کی جعلی حکومت کے کارناموں پر اور فوج کی سیاست میں مداخلت پر مدلل، زبردست اورپُر اثر بحث کی گئی ہے۔ اس خط سے چند مختصر اقتسابات ملاحظہ ہوں:
۱۔ جناب صاحب صدرجو بائیڈن۔ ہماری یہ تحریر ان کھلے عام انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں تشویش کا اظہار کرنے کے لیے کی جا رہی ہے جو پاکستان میں فروری 2024کے انتخابات سے کی جا رہی ہیں۔ان انتخابات میں تاریخی بد عنوانیوں کی سب سے اونچی سطح کا مشاہدہ کیا گیا۔ جن میں وسیع پیمانے پر الیکشن فراڈ،ریاستی سطح پر تحریک پاکستان کے ووٹرز سے ووٹ چھینے گئے، بے شمار سیاسی قائدین، صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں اور پابند سلاسل کرنے کے واقعات ہوئے۔، اور سابق وزیر اعظم عمران خان کو متواتر جیل میں رکھا گیا ہے۔گذشتہ جولائی میں ایوان نمائندگان میں بھاری اکثریت کے ساتھ ریزولیوشن پاس کیا گیا تھا کہ امریکہ کو پاکستان میں جمہوریت اور اور انسانی حقوق کی پاسداری کرنی چاہیئے۔ہم آج امریکن حکومت سے کہتے ہیں کہ وہ پاکستان کی حکومت پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے اور عمران خان کو رہائی دلوائے۔
۲۔ہم سیکریٹری ڈونلڈ لو کے اس بیان کو سراہتے ہیں جس میں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں انتخابات نہ آزادانہ تھے نہ غیر جانبدارانہ تھے۔ انہوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اشخاص اور سیاسی جماعتوں کو رجسٹر نہیں کرنے دیا گیا۔انٹر نیٹ کو بند کیا اور صحافیوں پر سنسر شپ اور دبائو ڈالا گیا۔سچ تو یہ ہے کہ پاکستانی حکام نے ان تمام اعتراضات اور شکایتوں پر کوئی کان نہیں دھرا، جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ الیکشن کمیشن، عدلیہ دونوں ادارے، فوج کا آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔اس کا مظہر وہ خط ہے جس میں عدالت عالیہ کے چھ ججوں نے فوج کے ادارے آئی ایس آئی پر دبائو اور ڈرانے دھمکانے کا الزام لگایا۔یہ ہم ہی نہیں کہہ رہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور اقوام متحدہ کا گروپ بھی کہہ رہا ہے، کہ عمران خان کو بلا بنیاد جیل میں رکھا گیاہے۔
۳۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال مئی سے کم از کم9ہزار تحریک انصاف کے سیا سی کارکن زندان میں ہیں۔یہ سب کچھ بین الاقوامی اصولوں کے منافی ہو رہا ہے۔ حکومت نے سیاسی مباحثوں پر پابندی لگا رکھی ہے۔اور سوشل میڈیا بھی بند کر دیا جاتا ہے۔ملک میں وسیع پیمانے پر بلا جواز گرفتاریاں ہو رہی ہیں، اور تشدد کے واقعات عام ہیں جن میں خواتین اور سیاستدانوں کے فیملی ممبرز کو بھی نہیں بخشا جاتا۔
ابھی ابھی خبر آئی ہے کہ انگلینڈ کے ایم پی ایز نے بھی اپنی حکومت کو ایسا ہی خط لکھ کر خبر دار کیا ہے۔ اور سنا گیا ہے کہ یورپ کے دوسرے ممالک میں بھی پاکستانی سر گرم ہیں او رحکومت کے خلاف درد سر بننے والے ہیں۔ خدا کرے کے فوج خود ہی باز آ جائے اور سپریم کورٹ فروری کے انتخابات کو کالعدم قرار دے کر نئے صاف شفاف انتخابات کا حکم جاری کر دے۔
0