0

وہ جنہیں کربلا یاد نہیں!

ہمارے اسلامی کیلنڈر کا ایک اور سال شروع ہوگیا!
اب ہمارے ہاں بھی یہ بدعت چل نکلی ہے، بطورِ خاص سوشل میڈیا پر، کہ لوگ ایک دوسرے کوہجری سال کی مبارکباد پیش کرتے ہیں اور مبارکباد دینے والوں سے جب پوچھا جائے کہ میاں، یہ مبارکباد کس لئے تو جواب ملتا ہے کہ عیسوی کیلنڈر پر عمل کرنے والی دنیا تو نئے سال کا خیرمقدم مبارکباد کے ڈونگرے برساتے ہوئے کرتی ہے تو ہم اپنے ہجری سال کی آمد پر وہی عمل دہراتے ہیں تو سوال کیوں ؟ منطقی اعتبار سے تویہ استدلال بجا ہے لیکن بات دراصل یہ ہے کہ عیسوی کیلنڈر نے اپنے آپ کو ، فرضی طور پہ، جنابِ عیسیٰ کی پیدائشِ باسعادت سے جوڑ کے اسے جشن کا عنوان دے دیا ہے۔ لیکن ہمارا ہجری کیلنڈر تو شروع ہوتا ہے محرم سے اور محرم عبارت ہے اس قربانی سے جسے کائنات کے پیدا کرنے والے نے ذبحہء عظیم سے تعبیر کیا ہے۔ اور یہ ذبحہء عظیم اور کوئی نہیں بلکہ ہمارے رسول اکرم کے پیارے نواسے، شہیدِ اعظم سیدنا امام حسین کی ذاتِ گرامی ہے جنہوں نے اپنے خونِ اطہرکا نذرانہ دیکر قربانی کی اس تاریخ کا آخری باب رقم کیا جس کی ابتدا ابراہیم خلیل اللہ اور ان کے فرزند دلبند جنابِ اسماعیل سے ہوئی تھی۔ تو ہم اپنے ہجری سال کو رنگ و رامش کی نذر کرکے نہیں مناتے بلکہ متانت و وقار کے ساتھ اس عظیم قربانی کا سوگ مناتے ہیں جو نواسہء رسول کی ذات سے منسلک ہے۔ حسین نے نہ صرف اپنی جان قربان کی بلکہ اپنے کنبے اور اپنے ساتھیوں کی جانوں کی قربانی دیکے جہاں ایک طرف حضرات ابراہیم و اسماعیل کے مشن کی تکمیل کی وہاں، دوسری طرف، ظلم کو للکار کے اور باطل کے سامنے سینہ سپر ہوکے قیامت تک کیلئے یہ درخشاں مثال قائم کردی کہ اصل اسلام اور اصل ایمان حق کی اشاعت ہے اور یہی اسلام کی روح ہے اور محمدِ مصطفے کا کلمہ پڑھنے والے ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اس مقصد کے حصول کیلئے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہ کرے!ہمیں احساس ہے کہ شہیدِ مظلوم، سیدنا امام حسین کی عظیم قربانی کی روح اکثر لوگوں کی نظر سے اوجھل رہتی ہے اور اس میں ہمارے اس گنگا جمنی کلچر کا بڑا دخل ہے جس کی کربلا کے سانحہ کے ساتھ آمیزش نے کربلا کو ایک یونانی المیہ میں تبدیل کردیا ہے۔ سو اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم سوگ تو مناتے ہیں لیکن حسین کا اصل مشن ہمارے فہم و ادراک سے دور رہتا ہے بلکہ کچھ لوگوں کیلئے تو اس مشن کا ادراک کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے اسلئے کہ نہ انہوں نے تاریخ پڑھی ہوتی ہے نہ دین کی اساس پران کی نظر ہوتی ہے۔
تو ایسے لوگوں کیلئے جو کربلا کا ادراک نہیں کرسکتے اسلئے کہ اس کا تاریخی پسِ منظر ان کی آنکھ سے اوجھل اور ان کے فہم کیلئے نا آشنا ہے ہمارا مشورہ یہ ہے کہ وہ آج کے پاکستان کا منظر نامہ دیکھ لیں تو کربلا کی تاریخ بھی ان کی سمجھ میں آجائے گی اور حسین کے مشن کی غرض و غایت بھی ان کے شعور میں سما جائیگی! آج کے پاکستان میں جنرل عاصم منیراور اس کا یزیدی ٹولہ وہی حرکتیں کر رہا ہے جو یزید اور اس کے ابنِ زیاد جیسے ہمراہیوں کا دستور بن گئی تھیں ۔ اسلام کی اساس شہنشاہیت پر نہیں بلکہ سلطانیء جمہور ہے لیکن یزید نے جمہور کے حقوق کو سلب کرکے بادشاہت اور آمریت کو اپنے عہد کی مسلمان جمعیت پر مسلط کرنا چاہا تھا اور سیدنا حسین نے اسی لئے اس شیطان کو للکارا تھا کہ وہ ان کے نانا کے دین کی بیخ کنی کررہا تھا اور ظلم و تعدی کو مسلمان امت کا شعار قرار دینا چاہا تھا۔ حسین کی مزاحمت اس جور و جبر کے خلاف اقتدار کے حصول کیلئے نہیں تھی بلکہ ان کی قربانی کا مشن یہ تھا کہ جمہور کو اس کا حق دلوایا جائے جس پر یزید اور اس کے لادین حواری ڈاکہ ڈال رہے تھے۔آج عاصم منیر اور اس کے یزیدی بھی قائد کے پاکستان کے ساتھ اور پاکستان کے چوبیس کروڑ جمہور کے ساتھ من و عن یہی کررہے ہیں۔ ہم آجتک ماتم کرتے ہیں اس ظلم کا جو فاسق یزید کی افواج نے اہلبیتِ اطہار کی مقدس خواتین کے سروں سے چادر کھینچ کے کیا۔ رسول اطہر کے گھرانے کی بیبیوں کو ننگے سر بازاروں میں پھرایا۔
وہ تو بہر حال دشمن تھے، تہذیب سے نا آشنا درندے تھے لیکن پاکستان میں یزید عاصم منیر کے گماشتے اور سپاہی کیا کر رہے ہیں؟ عاصم منیر کو دعویٰ ہے کہ وہ حافظ، قرآن ہے۔ اچھا ہوگا لیکن ایک عام قاری بھی جب قرآن پڑھتا ہے تو اسے بار بار یہ تاکیدِ خداوندی ملتی ہے کہ عورت کا احترام فرض ہے اور اس فرض کو ادا نہ کرنے والا فاسق اور جہنمی ہے۔ پاکستان میں تو فوج کو دعویٰ ہے کہ وہ ملک و قوم کی محافظ ہے لیکن اسی فوج کے جرنیلوں نے جمہورِ پاکستان کے منشور پہ شبخون مارا اور ان کے فیصلہ پر ان گنتی کے جرنیلوں کا فرمان مسلط کردیا جو فاسق ہیں اور پاکستانی عوام کے دشمن ہیں۔ اسی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اپنی قوم کی خواتین کو سرِ بازار بے عزت کیا گیا، ان کے سروں سے چادریں کھینچی گئیں، انہیں سڑکوں پر کیمروں کی آنکھوں کے سامنے ڈنڈوں سے پیٹا گیا، سڑکوں پر گھسیٹا گیا، جیلوں میں بند کیا گیا لیکن ملک کی کسی عدالت کو توفیق نہیں ہوئی، بلکہ توفیق کہنا غلط ہوگا، یہ جسارت نہیں ہوئی کہ وہ جی ایچ کیوکی کمیں گاہوں میں بیٹھے ہوئے یزیدیوں کے خلاف انصاف اور عدل کا بول بالا کرسکیں!
یہ ہے اسلامی جمہوریۂ پاکستان جہاں دن و رات کھلے بندوں انسان کی بے حرمتی ہورہی ہے اور آئین و قانون کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں! اسلام تو دنیا کو احترامِ انسانی کا سبق دینے کیلئے آیا تھا ۔ اسلام کا آفاقی نظام تو عدل و انصاف کی اساس پر تھا جس میں خلیفہء وقت بھی عدالتِ انصاف کے کٹہرے میں ایک عام شہری کی طرح کھڑا کیا جاتا تھا۔
یہاں اسلامی جمہوریہ میں آج تک کسی جرنیل کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کسی منصف یا عادل کی ہمت نہیں ہوئی کیونکہ پاکستان تو ان فاسق و فاجر جرنیلوں کا مقبوضہ ملک ہے جہاں ان کی حیثیت خلائی مخلوق کی ہے۔ کربلا کا سانحہ رسول اللہ کی آنکھ بند ہونے کے پچاس برس کے اندر اندر رونما ہوگیا تھا لیکن پاکستان میں قائد کے پاکستان کو پچیس برس سے پہلے ہی دو لخت کردیا گیا اور ٹکڑے کرنے والے کون تھے؟ ان ہی جیسے فاسق و فاجر، نشہء طاقت سے مغلوب جرنیل جو اپنے آمرانہ فیصلہ کو مشرقی پاکستان کے شہریوں کی اجتماعی رائے سے برتر سمجھتے تھے اور ان کے تکبر اور غرور کا نتیجہ پاکستان کے دو لخت ہونے کی صورت میں نمودار ہوا۔ لیکن ملک توڑنے والے آج بھی دعویدار ہیں کہ وہ محب وطن ہیں، وہ ملک و قوم کے محافظ ہیں۔ یہی زعم پاکستان کو بدترین قسم کی فسطائی ریاست میں تبدیل کرچکا ہے جہاں کسی شہری کی عزت اور ناموس محفوظ نہیں ہے۔ جو ظلم و جبر یزید نے حسین اور اہلبیتِ اطہار پر کیا تھا آج وہی ظلم یزید عاصم منیر عمران خان اور اس کے کنبے پر روا رکھے ہوئے ہے۔ عدت جیسا بیہودہ اور لچر مقدمہ عمران اور بشری بی بی کے خلاف دائر کیا گیا جس کے ذریعہ اسلامی شریعت اور اسلامی اقدار کا کھلے بندوں مذاق بنایا گیا۔ پھر جب معتوب عدالت کو عمران اور اس کی اہلیہ کو اس فاسق مقدمہ سے بری کرنے کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آیا تو دیگر اور جھوٹے مقدمات میں عمران اور اہلیہ کو گرفتار کرلیا گیا۔ یزیدی ٹولہ انصاف کی دھجیاں ایک طرف بکھیر رہا ہے تو دوسری طرف عدالتوں کو انگوٹھا دکھا رہا ہے کہ تم چاہے بری کردو لیکن ہمارے پاس طاقت ہے اور ہم زمین پر خود کو خدائی اوتار سمجھتے ہیں تو یہاں، فوجستان میں صرف ہمارا حکم چلے گا اور تم ہمارا بال بھی بیکا نہیں کرسکتے! یہ ہے نام نہاد اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حقیقت جہاں یزیدی جرنیل ملک و قوم کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں اور عوام و خواص کے سینوں پر مونگ دل رہے ہیں۔ عمران نے قوم کو یلقین کی کہ سانحہء مشرقی پاکستان کی روداد جاننے کیلئے اور سقوطِ ڈھاکہ کی اندر کی کہانی سمجھنے کیلئے انہیں حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ ضرور پڑھنی چاہئے جس میں بد کردار اور ملک دشمن جرنیلوں کا کچا چھٹا کھولا گیا ہے تو عمران کے خلاف غداری اور بغاوت کے مقدمات قائم کرنے کی دھمکیوں کا سلسلہ چل پڑا۔سچائی جھوٹوں پر بہت بھاری ہوتی ہے اور پاکستان کی موجودہ جرنیلی قیادت تو ملک دشمن غدار جرنیلوں سے بھری پڑی ہے۔ اس حقیقت کو ہمارا یہ قطعہ صراحت سے بیان کررہا ہے:
جرنیل جو ہیں ملک کے سب سے بڑے غدار
عمران پہ الزام بغاوت کا لگاتے
جس ملک کو دولخت کیا اپنی ہوس میں
اس ملک کو اب دھونس سے غدار چلاتے!
یزید عاصم منیر کا معنوی بڑا بھائی صیہونی اسرائیلی حکومت کا وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو
ہےجس نے نو مہینے سے غزہ اور مقبوضہ فلسطین کو کربلا کا نقشہ بنایا ہوا ہے۔ لیکن یزید نیتن یاہوکم از کم غزہ کا خود کو محافظ تو نہیں کہتا! وہ فلسطینیوں کا کھلا دشمن ہے اور آج سے نہیں جب سے 19 ویں صدی کے اواخرمیں صیہونی تحریک نے جنم لیا تھا صیہونیوں کا یہی منشور اور نعرہ ہے کہ وہ ارضِ مقدس فلسطین سے اس کے اصل باشندوں کو نکال کے وہاں یہودیوں کو بسانا چاہتے ہیں۔
صیہونیوں کے مغربی سہولت کاروں اور حلیفوں کو یہ صیہونی ایجنڈا اچھی طرح سے معلوم ہے لیکن چونکہ ان کے اپنے خمیر میں سامراجیت کا لہو دوڑ اوررچا ہوا ہے لہٰذا انہیں اس سے کوئی تکلیف یا پریشانی نہیں ہے کہ نیتن یاہو غزہ میں معصوم اور بیگناہ فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔
تو صیہونی اسرائیل کے یزید اور مقبوضہ پاکستان یا فوجستان کے یزید اپنے اپنے مقبوضہ علاقوں میں جو ظلم و ستم اور جور و وغا کی کربلائیں کھولے ہوئے اپنی ہوس اقتدارکی تسکین کررہے ہیں اسے دیکھ کر ان سادہ لوحوں اور تاریخ نا آشناؤں کو سبق مل جانا چاہئے کہ کربلا میں آج سے چودہ سو برس پہلے کیسے انسانیت کا خون بہایا گیا تھا۔ اس کے بعد ہی کربلا اور سید الشہداء کی قربانیء عظیم ان کی سمجھ میں آئے گی:
ادراک کربلا کا جو نہ کرسکے وہ لوگ
غزہ میں ہورہا جو ستم اس کو دیکھ لیں
طاغوت کی وغا کا جو انداز ہے وہاں
جو کربلا میں گذرا الم اس کو دیکھ لیں!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں