حیرانی کی بات یہ ہے کہ ایک سابقہ صدر کو عدالت نے سزا یافتہ مجرم قرار دے دیا اور کسی کو حیرانی نہیں ہوئی۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دوست اور پرستار پہلے ہی سے یہ کہہ رہے تھے کہ انکے لیڈر کے خلاف بنائے گئے تمام مقدمات جعلی ہیں ‘ صدر بائیڈن اپنے صدارتی مد مقابل سے سیاسی انتقام لے رہے ہیں اور ڈیپ سٹیٹ اپنے دشمن کو ہر حال میں سزا دلائے گی۔ دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ کے مخالفین کی رائے میں جوشخص زندگی بھر نظام انصاف کو دھوکہ دیتا رہا اور ہر طرح کی جعلسازی کرنے کے باوجود بچتا رہا اس نے کبھی نہ کبھی تو قانون کے شکنجے میں آ نا تھا۔ یوں ڈونلڈ ٹرمپ کو اسکے اپنے شہر کے بارہ غیر جانبدار شہریوںنے ایک جیوری کی صورت میںمتفقہ طور پر چونتیس الزامات کا مجرم قراردے کر جیل کی سلاخوں کے سامنے لا کھڑا کیا۔ یہ جیوری ممبرز غیر جانبدار اس لیے تھے کہ انکا چنائو استغاثہ اور ڈیفنس کے وکلا نے مل کر کیا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نیویارک سٹیٹ کی سپریم کورٹ کے جج ‘ جسٹس Juan Merchan گیارہ جولائی کو سابقہ صدر کو کس نوعیت کی سزا دیتے ہیں۔ وہ ٹرمپ کو زیادہ سے زیادہ چار سال کے لیے جیل بھیج سکتے ہیں اور Probation کی سزا دے کر آزاد رہنے کی اجازت بھی دے سکتے ہیں۔ Probation ملنے کی صورت میں مجرم جیل تو نہیں جاتا مگر وہ مقررہ مدت تک ایک Probation Officer کی زیر نگرانی رہتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو ہر مجرم کی طرح جج کے فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا حق حاصل ہے اس لیے وہ گیارہ جولائی کو سزا کی مدت کے تعین کے بعد بھی اپیل کا فیصلہ ہونے تک آزاد رہیگا۔ اپیل کے فیصلے کو استغاثہ اور ڈیفنس دونوں ایک بڑی عدالت میں چیلنج کر سکتے ہیںاس لیے یہ عدالتی کاروائی کم از کم ایک سال تک جاری رہیگی۔ یوں ڈونلڈ ٹرمپ پانچ نومبر کے صدارتی انتخاب میںایک آزاد شہری کی حیثیت سے حصہ لے سکے گا۔
اس تناظر میں اہم سوال یہی ہے کہ کیا امریکی عوام ایک سزا یافتہ مجرم کو اپنے ملک کا صدر منتخب کر لیں گے۔ اس سوال کا جواب ابھی تک کسی سیاسی پنڈت نے نہیں دیا۔ یہ پہیلی کسی سروے یا Opinion Poll کے ذریعے بھی نہیں بوجھی جا سکتی ۔اسکی وجہ یہ ہے کہ ریپبلیکن پارٹی کی Base نہ صرف ڈونلڈ ٹرمپ کیساتھ کھڑی ہے بلکہ وہ اس فیصلے کے خلاف غیض و غضب کا اظہار بھی کر رہی ہے۔ اب تک ریپبلیکن پارٹی کے لیڈروں کے جتنے بیانات سامنے آئے ہیں وہ سب اس عدالتی فیصلے کے خلاف اورڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں ہیں۔ سابقہ صدر کے پرستاروں کے غم و غصے کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اس فیصلے کے بعد اڑتالیس گھنٹوں میں 54 ملین ڈالر اپنے محبوب لیڈر کی انتخابی مہم کو چندے کی صورت میں دے دئے۔ اس فیصلے کے ایک دن بعد ایوان نمائندگان میں ریپبلیکن پارٹی کے سپیکر ما ئیک جانسن نے کہا کہ ’’ ڈونلڈ ٹرمپ محض ایک فرد نہیں بلکہ وہ ایک استعارہ ہے اس جہدو جہد کا جو لوگ اس کرپٹ حکومت ‘ ڈیپ سٹیٹ اور بد عنوان بیو روکریسی کے خلاف کر رہے ہیں۔‘‘ ڈونلڈ ٹرمپ نے تیس مئی کو اپنے خلاف فیصلہ سننے کے فوراّّ بعد ٹرمپ ٹاور میں ایک پریس کانفرنس میں کہا “I dont even know what the charges are in this rigged case. Our whole country is rigged. America has gone to hell.”سابقہ صدر اور اگلے الیکشن کا صدارتی امیدوار تین ہفتے کی عدالتی کاروائی کے دوران مسلسل جج‘ وکیل استغاثہ اور گواہوںکی تضحیک کرتا رہا۔ ایک موقع پر اس نے صحافیوں سے کہا کہ یہ جج نظر تو فرشتہ آتا ہے مگر درحقیقت یہ ایک شیطان ہے۔ جج Juan Merchan نے کئی مرتبہ ملزم کو حدود و قیود میں رہنے کی تلقین کی اور ایک مرتبہ دس ہزار ڈالر جرمانہ بھی کیا۔ اس دوران ٹرمپ مخالف میڈیا یہ کہتا رہا کہ اگر کوئی عام ملزم عدالت کی اس طرح توہین کرتا تو اسے فوراّّ جیل بھیج دیا جاتا۔ دی نیو یارک ٹائمز کے کالم نگار Frank Bruni نے لکھا ہے کہ ’’ ایک عام آدمی اس قسم کی سیاسی قبر سے واپس نہیں آ سکتا مگر ڈونلڈ ٹرمپ اس قبرستان سے نہ صرف واپس آ گیا ہے بلکہ وہ 1600 Pennsylvania Avenue کی طرف بڑھتاہوا بھی نظر آ رہا ہے ۔
ڈونلڈ ٹرمپ اگر یہ کہتا ہے کہ یہ مقدمہ جھوٹ کا پلندہ ہے تو اسکا یہ الزام قابل فہم ہے۔ وہ زندگی بھر نہ صرف جھوٹ بولتا رہا بلکہ عدالتوں میں حلف اٹھا کر کذب بیانی بھی کرتا رہا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اسکے پرستار بھی اسکے ہر جھوٹ کو سچ مانتے ہیں۔ پورن سٹار Stormy Daniel نے عدالت میں ڈونلڈ ٹرمپ سے چند فٹ کے فاصلے پر کھڑے ہوکر اس سے اپنے رومانوی تعلق کی داستان پوری دنیا کو سنائی۔ ٹرمپ کے سابقہ سیکرٹری مائیکل کوہن نے کہا کہ اسنے سٹارمی ڈینیل کو 2016 کے الیکشن سے چند روز پہلے ایک لاکھ تیس ہزار ڈالر دیکر خاموش رہنے پر آ مادہ کیا اور پھر ٹرمپ نے اسے دی ہوئی رقم کو اپنے ٹیکس ریٹرنز میں قانونی فیس ظاہر کرکے حکومت کو دھوکہ دیا۔ اس نوعیت کے چونتیس الزامات ثابت ہو جا نے کے بعد بھی ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کاایک ایسا مقبول ترین لیڈر ہے جودوسری مرتبہ بھی صدر بن سکتا ہے۔ اسکے پرستار جانتے ہیں کہ انکے دشمنوں سے جو انتقام ڈونلڈ ٹرمپ لے سکتا ہے وہ کوئی دوسرا ریپبلیکن صدر نہیں لے سکتا۔
0