0

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی!

آج جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں تو دُنیا بھر میں ماں کا دن منایا جارہا ہے۔ ماں جو دُنیا بھر میں حرمت کا نشان ہے اسے دُنیا بھر سے خراجِ تحسین، محبت اور عقیدت پیش کیا جارہا ہے!
وطن بھی تو ماں ہوتا ہے بلکہ سب سے بڑی ماں ہوتا ہے۔ لیکن آج کوئی بھی ذی شعور پاکستانی محبتِ وطن اپنی مادر گیتی کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے اُداس ، غمگین و گلو گیر ہے اسلئے کہ یزید عاصم منیر اور اس کے ابلیسی ٹولے نے جس پاکستان کو اپنا مقبوضہ سمجھ رکھا ہے اوراِسے دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر برباد کر رہے ہیں اس مادرِ وطن کا تار و پود ان غاصب جرنیلوں اور ان کے تابع فرمان چور اور ڈکیت سیاسی گماشتوں کے راج میں بکھر رہا ہے اور یہ ہراُس انسان پر، ہر اُس پاکستانی پر گراں ہے جسے اپنی مادرِ وطن سے والہانہ محبت ہے !
میں کیوں اس مادرِ وطن کیلئے دلگیر نہ ہوں جس کے خود ساختہ محافظ اس کی بیخ کنی کر رہے ہیں۔
غاصب جرنیلوں کا ترجمان ، جو اپنے اندازِ تکلم سے ایک اَن پڑھ اور جاہل انسان لگتا ہے ڈیڑھ گھنٹے کی پریس کانفرنس کرتا ہے، دعوی کرتا ہے کہ اس کے قبیلہ کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے لیکن پھر گھنٹہ بھر تک وہ عمران خان اور تحریکِ انصاف کے خلاف ہرزہ سرائی کرتا رہتا ہے۔ کہتا ہے کہ تحریکِ انصاف ایک “انتشاری ٹولہ” ہے جس سے بات چیت نہیں ہوسکتی۔
اس کے اگلے روز خود یزید اپنے ابنِ زیاد کی دشنام طرازی پر مزید لیپ کرنے کیلئے کہتا ہے کہ 9 مئی کو فوج کے شہیدوں کی یادگاروں کی بے حرمتی کرنے والوں کو معافی مانگنی چاہئے اور دھمکیاں دیتا ہے کہ، بقول اس کے، انتشار پسندوں سے سختی سے نمٹا جائے گا!
یزید کا اشارہ صاف عمران خان اور تحریکِ انصاف کی طرف تھا۔ 9 مئی کا ڈرامہ رچاکر یزید اور اس کے حواری یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ انہوں نے عمران خان کی وکٹ گرادی ہے اور وہ اب پاکستانی قوم کی قیادت کا اہل نہیں رہا۔
عاصم منیر کی یہ خوش فہمی کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ پاکستان پر اپنے پنجے گاڑے ہوئے یہ ملت فروش جرنیل، جنہوں نے ستر برس سے یہی وطیرہ بنایا ہوا ہے کہ جب ان کے سامراجی آقاؤں کو پاکستان کی ضرورت محسوس ہوتی ہے یہ ان کیلئے کلینکس بن جاتے ہیں۔ پاکستان کو یہ سات دہائیوں سے سامراج کے ہاتھوں بیچتے آئے ہیں اور اب بھی بیچ رہے ہیں۔ ان ہی کے کارندے ہیں وہ جو انوار الحق کاکڑ اور محسن نقوی جیسے کم ظرف، چھٹ بھیے، ان یزیدیوں کی منشاء سے نگران حکومت میں بٹھائے گئے تھے انہوں نے ان جرنیلوں کے ایماء پر ملک میں گندم کی قلت کا ڈھونگ رچایا اور پھر ایسے وقت میں جب پاکستان زرِ مبادلہ کے ایک ایک ڈالر کیلئے آئی ایم ایف جیسے انسان دشمن ادارے کے سامنے ایڑیاں رگڑ رہا تھا 1۔1 ارب ڈالر کا سڑا ہوا گندم یوکرین جیسے ملک سے منگوایا ۔
یوکرین کا انتخاب گندم درآمد کرنے کیلئے اس حقیقت کا غماز ہے کہ یہ سودا جہاں ایک طرف جرنیلوں اور ان کے سیاسی گماشتوں کی تجوریاں بھرنے کی نیت سے کیا گیا وہیں، دوسری طرف، مقصد سامراجی آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنا تھا۔ یوکرین سے تو مقبوضہ پاکستان کے تعلقات بہت گہرے ہوچکے ہیں۔ عمران خان کی حکومت کو گرایا ہی اسلئے گیا تھا کہ وہ امریکی سامراج کی یوکرین نوازی کیلئے آمادہ نہیں تھا۔ اس کے بعد سے یوکرین کو جہاں پاکستان سے اسلحہ کی ترسیل پابندی سے جاری ہے وہیں یوکرین کو نوازنے کیلئے اس کا وہ سڑا ہوا گندم منگوایا گیا جو جانوروں کو کھلانے کے لائق بھی نہیں ہے۔
ستم صرف یہی نہیں ہے کہ سڑا ہوا گندم منگوایا گیا۔ بالائے ستم یہ ہے کہ یہ درآمد ماہرینِ زراعت کی اس پیش گوئی کے باوجود کی گئی کہ گندم کی وہ فصل جو گزشتہ خزاں میں بوئی گئی تھی اور ابھی اپریل کے مہینے میں کاٹی گئی ہے ایسی وافر فصل ہے جسے انگریزی میں بمپر فصل کہا جاتا ہے۔
لیکن سیاسی گماشتوں کے تو اپنی جیبیں بھرنے کی فکر تھی اور حکومت کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس سودے میں کم از کم 85 ارب روپے کا کمیشن بنایا گیا ہے۔ یہ رقم کس کی جیب یا کن کن کی جیبوں میں گئی یہ بھید تو اسی طرح نہیں کھلے گا جیسے آج تک پاکستان کے کسی بھی اسکینڈل کا راز افشاء نہیں ہوا اور راز یا بھید یوں افشاء نہیں ہوپاتے کہ پوری اشرافیہ، جو پاکستانی قوم کے سینے پر یزیدی جرنیلوں کے اشتراک سے مونگ دلتی آئی ہے، ایسے کام مل بانٹ کے کرتی ہے۔ تو نہ جانے کتنی جیبیں بھری ہونگی اس سودے میں۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ انسان دشمن وہ ہیں جو اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ وہ اپنی قبران کالے کرتوت سے بھر رہے ہیں اور جس منصفِ ازل کی عدالت میں ان کا مقدمہ پیش ہوگا وہ کسی کے ساتھ نہ رتی بھر زیادتی کرتی ہے نہ رتی بھر رعایت۔
کسی ستم ظریف نے کیا پتے کی بات کی ہے۔ لکڑی کے کیڑے پوری کرسی کھا جاتے ہیں لیکن کرسی کے کیڑے پورے ملک کو کھا جاتے ہیں!
تو کرسی کے کیڑے، جو یزیدی جرنیلوں نے اس قوم پر مسلط کئے ہیں ملک کو چاٹ رہے ہیں لیکن وہ محنت کش کسان کیا کرے جس کی گاڑھے پسینہ سے اُگائی ہوئی گندم ،حکومت جو جرنیلوں کی کٹھ پتلیوں پر مشتمل ہے، خریدنے کو تیار نہیں ہے۔
یہ اس ملک میں ہورہا ہے جس کا خواب شاعر مشرق نے دیکھا تھا اور وہی تھے جنہوں نے کیا خوب کہا تھا:
؎اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگادو
کاخِ امراء کے در و دیوار ہلادو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہء گندم کو جلادو!
تو پاکستان کے غریب لیکن غیور کسان، جن کی محنت کا ثمر بے ایمانی اور حرام کے پیسے سے بنائے ہوئے قصر میں رہنے والے بے ضمیر اور ملت فروش حکمراں دینے کو تیار نہیں ہیں ان امراء کے کاخِ نخوت ڈھانے کیلئے اب میدان میں نکل آئے ہیں۔
کسان سراپا احتجاج ہیں اور ان کا احتجاج بجا ہے کہ ان کی وہ فصل جو ان کا اور ان کے بچوں کا پیٹ بھرنے کے ساتھ ساتھ قوم کے عوام کے پیٹ بھرنے کیلئے اگائی گئی تھی کھیتوں میں پڑی سڑجانے کے خطرے میں ہے کیونکہ زر کے پجاری حکمراں تو گندم رکھنے کے کھلیانوں کو یوکرین کی سڑی ہوئی گندم سے بھر چکے ہیں اور اپنی تجوریاں اس سے پہلے بھر کے بیٹھے ہیں۔
کسان تو تا حال پر امن ہیں لیکن گذشتہ دو دن، جمعہ اور سنیچر ، کے دوران آزاد کشمیر کے غیورعوام نے حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف جو احتجاج کیا ہے اس نے کاخِ امراء کے درو دیوار کو ہلاکے رکھ دیا ہے۔
آزاد کشمیر کے عوام کا احتجاج بجلی کے بلوں میں جو لوٹ مار ہورہی ہے اور جس بے شرمی سے مختلف بہانوں اور حوالوں سے بجلی کے بلوں میں ٹیکس کی بھرمار ہے اس کے خلاف تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے علاقے میں تو پانی سے بجلی بنائی جاتی ہے۔ پانی وہاں وافر ہے اور بے قیمت ہے تو پھر دنیا بھر کے فرضی حوالوں سے بجلی کے بل میں ٹیکسوں کی بھرمار جیب کترنے کے برابر ہے۔
پولیس نے جب احتجاجی مظاہرین پر لاٹھی چلائی تو عوام جو پہلے ہی بھرے بیٹھے تھے بے قابو ہوگئے اور پھر انہوں نے پولیس کے اہلکاروں کا جو حشر کیا ہے وہ اللہ دے اور بندہ لے والا معاملہ تھا۔ وہ پٹائی کی ہے انہوں نے پولیس والوں کی کہ چھٹی کا دودھ یاد دلادیا۔ تشدد یہاں تک بڑھا کہ ایک پولیس اہل کار ہلاک ہوگیا اور نوے دیگر اہلکار زخمی ہیں۔
یہ احتجاج جو پر امن تھا لیکن پولیس کی زیادتیوں نے جسے پر تشدد بنادیا حکمرانوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہونا چاہیے لیکن وہ جو کسی نے کہا ہے نا کہ اقتدار کا نشہ سب سے طاقتور ہوتا ہے تو پاکستان پر مسلط چوروں اور ڈکیت کا حکمراں ٹولہ بھی اقتدار کے نشے سے چور ہے۔ حکومت تو ان سے سنبھالی نہیں جارہی لیکن قوم کے سینے پر مونگ دلنے کا عمل جاری ہے کیونکہ ان کے باوردی آقاء اور ان کے سامراجی آقاؤں کی منشا یہی ہے کہ پاکستان پر یزیدی ٹولے حکومت کرتے رہیں اور سامراجی ایجنڈا کو آگے بڑھاتے رہیں۔
عاصم منیر کا مطالبہ ہے کہ 9 مئی کو یوم سیاہ کے طور پہ منایا جائے اور جن پر تخریب کاری کا الزام ہے وہ قوم سے اور یزیدی جرنیلی ٹولہ سے معافی مانگیں۔ لیکن یزید یہ نہیں یاد کرنا چاہتا کہ اسی کے قبیلے نے پاکستان کو دو لخت کیا تھا اور پاکستانی تاریخ کا سیاہ ترین دن وہ تھا جب 16 دسمبر کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں بزدل جرنیل نیازی نے بھارتی سینا کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے۔
معافی تو ان بے شرم جرنیلوں کو قوم سے مانگنی چاہئے کہ ان کی بزدلی اور طالع آزمائی نے قائد اعظم کے پاکستان کو دو لخت کیا تھا۔ انہیں بابائے قوم سے معافی مانگنی چاہئے جن کے اس واضح فرمان سے انہوں نے بغاوت کی کہ فوج کو ریاست کے پالیسی امور میں کوئی دخل نہیں ہوگا۔
ان بد بخت جرنیلوں پر قوم سے اور بابائے قوم سے معافی مانگنے کا قرض ہے لیکن طاقت کے نشہ نے ان کو مغلوب کیا ہوا ہے۔ ایسا مغلوب کیا ہوا ہے کہ ان کی آنکھوں پہ پردے پڑگئے ہیں۔
آزاد کشمیر کے عوام کے پر زور احتجاج میں خطرہ کی گھنٹیاں بج رہی ہیں کہ ریاست کا تار و پود بکھر رہا ہے لیکن نشہء طاقت سے بدمست جرنیل ملک کو اپنے باپ دادا کی جاگیر سمجھ کے اسے دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔
کسان سراپا احتجاج ہیں لیکن ہوسِ زر کے مارے جرنیل تو اب کسانوں کو ان کی زمینوں سے بیدخل کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ فوج اب کھیتی باڑی بھی کرنے والی ہے۔ بس یہی کسر رہ گئی تھی۔ ویسے بھی پورے ملک میں ہل تومدتِ دراز سےچلاتے آئے ہیں یہ ناعاقبت اندیش!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں