انقلاب کے بارے میں یہ معروف قول ہے کہ وہ سب سے پہلے ڈائن کی طرح اپنے ہی بچے کھاتی ہے! پاکستان جیسے معاشرتی طور پہ پسماندہ اور مفلوک الحال معاشرے میں، جو نسل در نسل جاگیرداری کی چکی میں پستا رہا ہے، انقلاب کا تصور سرے سے ناپید ہے اگرچہ بیدار مغز اس کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں اور بہت سے تو حالات کے نازک موڑ دیکھ کے یہ پیشن گوئی کرنے کی جسارت بھی وقت بوقت کرتے رہتے ہیں کہ انقلاب کا بگل بج چکا ہے اور بس اس کی دیر ہے کہ اونٹ کی کمر پہ وہ بوجھ کب لادا جاتا ہے جو اس کی کمر کو توڑ کے رکھ دے گا اور تنگ آمد،بجنگ آمد کے مصداق لوگ سب کچھ بھول بھال کے اور سر سے کفن باندھ کر گھروں سے نکل آئینگے! ہم ان رومانی خواب دیکھنے والوں میں خود کو شمار نہیں کرتے جو پاکستان میں انقلاب کو گلی کے نکڑ پر کھڑا دیکھ رہے ہیں۔ پاکستانی معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ایک تو جہالت کا عفریت ہے جو صدیوں سے معاشرے کو گھن کی طرح سے چاٹتا آیا ہے اور دوسرا ستم، جو اپنے زہر میں کہیں زیادہ با اثر ہے وہ جہالت اور مفلسی کے مارے ہوئے عوام کی رگوں میں دوڑتا ہوا جاگیردار کے سامنے سر جھکانے اور اس کی ہر بات پہ آمنا و صدقنا کہنے کا زہر ہے جس نے عوام کی ہر امنگ کو سلب کیا ہوا ہے۔
لیکن پاکستان میں اب وہ ہورہا ہے، یا اس عمل کا آغاز ہوچلا ہے جو فسطائیت کے راج میں عام طور سے ہوتا ہے۔ بہ الفاظِ دیگر، فسطائی قوتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کاکام شروع کرچکی ہیں۔ ہماری اُردو زبان کی فرہنگ میں محاوروں اور روز مرہ کی کمی نہیں ہے ایسی صورتِ حال کی بھرپور تشریح کرنے کیلئے۔ ان محاوروں کا حسن یہ ہے کہ مختصر الفاظ میں پوری حکایت، سارا ماجرا، یوں بھرپور انداز میں ادا ہوجاتا ہے جیسے سمندر کو کوزہ میں بند کردیا جائے۔ تو آسان الفاظ میں اب پاکستان پر قابض فسطائی قوتوں میںآپس میں جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے! فسطائیت کا نظام دنیا میں ہر جگہ، جہاں جہاں بھی فسطائیت کا راج ہے، تاریخ کے بہت بڑے فاتحین میں سے ایک بہت بڑے سنگدل ۔شقی اور ظالم منگول جنگجو چنگیز خان کے اس قول پر مبنی ہے۔ کہ آسمانوں پر ایک خدا اور زمین پر بس ایک خاقان رہ سکتا ہے۔ پاکستان کی سرزمین پر، ہماری ستر برس کی تاریخ گواہ ہے، ایک ہی ارضی خدا ہے اور وہ ہے فوج۔ آج تک ہم جیسے مبصرین یہ تشریح کرنا ضروری سمجھتے تھے کہ فسطائیت کا زہر ہمارے ان جرنیلوں کی حد تک ہے جو گلے گلے تک کرپٹ اور بدعنوان ہیں اور بلا کے بزدل بھی ہیں جنہوں نے آج تک دشمن کی ایک انچ زمین بھی فتح نہیں کی لیکن یہ کائر اپنے ہی عوام کو بار بار مختلف بہانوں سے مغلوب اور مصلوب کرنے کے عادی ہیں اور ان کی زرق برق وردیوں پر سجے درجنوں تمغے کوئی جنگ جیتنے کے صلے میں نہیں بلکہ اپنے ہی ملک کو تواتر سے زیر کرنے اور اس پر اپنی فسطائیت مسلط کرنے کی تشہیر کے طور پہ ہیں۔ لیکن چند دن پہلے، بلکہ عید کے دن، بہاولنگرمیں چشمِ حیرت نے جو منظر دیکھا اس کے بعد بلا خوفِ تردید یہ کہا جاسکتا ہے، اور کہنا چاہئے، کہ فسطائیت کا زہر اب جرنیلوں کی حد تک محدود نہیں رہا بلکہ وہ نیچے تک، عام سپاہی کی سطح تک پھیل چکا ہے۔
فوج کے معمولی سپاہیوں نے اپنے ایک بدعنوان اور کرپٹ ساتھی کو پولیس کی دسترس سے بچانے اور محفوظ رکھنے کیلئے جس طرح غنڈوں اور موالیوں کی طرح بہاولنگر کے ایک پولیس اسٹیشن پر درندوں کی طرح حملہ کیا اور جس بیرحمی سے اس تھانہ کے افسروں اور عام کانسٹبل اور سپاہیوں کو زد و کوب کیا اسے دیکھنے کے بعد ہر غیرت مند پاکستانی کا سر ندامت اور شرم سے جھک گیا ہے اور ہر ذی ہوش کو یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ دہشت گردی ، جسے ہم فوج کے اعلیٰ افسروں اور جرنیلوں تک ہی محدودسمجھتے تھے اب ہر برائی کی طرح نیچے کی سطح تک سرایت کرچکی ہے۔ یاد رہے کہ برائی کا زہر ہمیشہ اوپر سے نیچے کی جانب سفر کرتا ہے۔ عام کہاوت ہے کہ خربوزہ کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ فوج کا ایک عام سپاہی یا نچلے درجے کا افسر جو اپنے بڑے افسروں کو کرتے دیکھتے ہیں وہی ان کیلئے قابلِ تقلید بن جاتا ہے اور فسطائی جرنیلوں کا جو قبیلہ وہ ملت فروش جنرل قمر باجوہ اپنی جانشینی کیلئے چھوڑ کر گیا ہے وہ پاکستانی تاریخ کا بدترین ٹولہ ہے جس نے پورے ملک اور قوم کو اپنی ہوس کیلئے یرغمالی بنایا ہوا ہے۔ ایک اور پرانا لیکن حرف بہ حرف درست قول ہے کہ طاقت کا زعم کرپٹ کردیتا ہے اور بے تحاشہ طاقت بے اندازہ کرپٹ کرتی ہے۔ ہنری کسنجر کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے اوران کا شمار گذشتہ نصف صدی کے بڑے دانشوروں میں ہوتا ہے۔ کسنجر کا ایک قول بہت معروف ہے اور وہ یہ کہ تمام نشوں سے بڑھ کر طاقت اور اقتدار کا نشہ ہوتا ہے۔ اب ان اقوال کی روشنی میں پاکستان کی ریاست پر اپنے دانت اور پنجے گاڑے ہوئے بدمست جرنیلوں کے افعال و کردار کا جائزہ لیا جائے تو ماننا پڑتا ہے کہ کسنجر نے جو کہا وہ پاکستان کے ان فرعون صفت جرنیلوں کی حد تک حرف بہ حرف صحیح اور سولہ آنے درست ہے۔ پاکستانی تاریخ کا ہر آمر جمہوریت کی بیخ کنی میں چنگیز اور ہلاکو کا جانشین ثابت ہوا ہے لیکن جو رعونت اور تمکنت آج کے جرنیلوں میں ہے وہ پہلے کے فراعین میں نہیں تھی۔ اور یہ اس سبب سے ہے کہ فوجی آمریت نے جہاں پورے معاشرے کی اقدار کو پامال کیا ہے وہاں سیاستدانوں میں بھی اس بے ضمیر گروہ کی پرورش کی ہے جو عسکری فراعنہ کے غلام بن کر اقتدار کی مسند پر بیٹھنا اپنے لئے فخر کا باعث سمجھتے ہیں اسلئے کہ وہ بھی اخلاقی اور تہذیبی طور پر اتنے ہی بے ضمیر اور بدعنوان ہیں جتنے جرنیل۔
پاکستان کی گذشتہ دو برس کی تاریخ گواہ ہے کہ ایسے ہی عناصر اور موروثی سیاسی گماشتوں اور اپنے ہی پروردہ حلیفوں کی مدد اور اپنے سامراجی آقا کی آشیر واد سے ملت فروش قمر باجوہ نے عمران خان کی حکومت کو گرانے کا جال بُنا جس میں وہ کامیاب رہا۔ لیکن اس گھناؤنے کھیل نے پاکستانی فوج کوجو ناقابلِ تلافی تہذیبی اور اخلاقی نقصان پہنچایا ہے اس کا عملی مظاہرہ پوری قوم اور دنیا نے بہاولنگر میں دیکھا کہ کس قماش کی غنڈہ گردی ہوئی۔ ہم نے جو ویڈیو کلپ دیکھے ہیں انہیں دیکھ کر یوں لگ رہا تھا جیسے بالی وڈ کی کوئی فلم چل رہی ہوجس میں باوردی غنڈے اپنی طاقت کا بے محابا ثبوت دنیا کو، اور خاص طور پہ پاکستانی قوم کو دکھا رہے تھے تاکہ یہ سبق ذہن نشین ہوجائے کہ جو بھی فوج کی مطلق العنانی اور چنگیزیت کو چیلنج کرے گا اس کا وہی حشر ہوگا، اس کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جو بہاولنگر کی پولیس کے ساتھ ہوا۔ عمران خان کی حکومت فسطائی ہتھکنڈوں سے گرانے کے بعد پنجاب پولیس نے جو شرمناک سلوک اور رویہ تحریکِ انصاف کے حامی کارکنان اور خاص طور سے خواتین کے ساتھ کیا اس نے ایک عام ذہن پر یہ تاثر چھوڑا جیسے پنجاب پولیس اپنے ملک کی نہ ہو بلکہ کسی دشمن ملک کی قابض پولیس ہو جسے اذنِ عام ہے کہ وہ جس طور سے چاہے عوام کو بے عزت کرے اس سے کوئی باز
پرس نہیںہوگی۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس معاشرے کو ذلیل کرنا ہو اور اسے اسی کی نظروں میں گرانا مقصود ہو اس کی عورتوں کو رسوا کیا جاتا ہے اور پچھلے دو برس میں جس بے شرمی اور بے غیرتی سے پنجاب کی پولیس نے اپنے ہی ملک اور معاشرے کی عورتوں کو سرِ بازار رسوا کیا، انہیں بالوں سے پکڑ کے گھسیٹا، جس طرح ٹیلی وژن کے کیمروں کی آنکھوں کے سامنے عورتوں کو ڈنڈوں اور لاٹھیوں سے پیٹا اس نے کوئی شک و شبہ نہیں رہنے دیا کہ فسطائیت کس تیزی سے پاکستان کے طاقتور حلقوں کے دماغوں کو اپنا غلام بنا چکی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اس تئیس مارچ کو حکومتِ وقت نے اپنے خوشامدیوں اور حواریوں کو تمغے بانٹے ان میں پنجاب پولیس کا انسپکٹر جنرل یا سربراہ بھی نمایاں تھا۔ گویا برسرِ اقتدار طبقہ پاکستانی عوام کو یہ باور کروانا چاہ رہا تھا کہ جو جتنا ظالم اوربے اصول ہوگا اتنا ہی وہ حکومت کی نظروں میں ممتاز اور مؤقر ہے۔پولیس کی چیرہ دستیاں جس تیزی سے بڑھ رہی تھیں اس سے یوں لگتا ہے کہ جی ایچ کیو پرقابض جرنیلوں کے فسطائی ٹولہ کو یہ گمان ہوا کہ پولیس اس اقتدار میں خود کو برابر کا شریک سمجھنے لگی تھی جو فرعون جرنیلوں کی نگاہ میں صرف اور صرف ان کا حق ہے اور وہ اس حق میں کسی اور کو شریک کرنا کسی طور گوارہ نہیں کرسکتے۔یزید عاصم منیر نے بہاولنگر کے واقعہ کے بعد اپنے فوجی سپاہیوں سے خطاب میں انہیں یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ وہ اللہ کے سپاہی ہیں اور حق ان کے ساتھ ہے! یزید اپنے خطاب کو موثر بنانے اور سپاہیوں کو اپنے سحر میں لانے کیلئے قرآنی آیات بھی شاملِ خطاب کرتا رہا لیکن ان قرانی آیات کا حوالہ دینا قصداً فراموش کرگیا جہاں کائنات کا بنانے والا ہر ظلم کی مذمت کررہا ہے اور واضح الفاظ میں کہہ رہا ہے کہ ظالم کو اس کے انصاف کی گرفت سے کوئی محفوظ نہیں رکھ سکے گا۔ بہاولنگر میں جو ہوا وہ فرعونی جرنیلوں کے ایما سے ہوا، پولیس اور ہر اس طاقت کو جو اپنے آپ کو پاکستان میں شریکِ اقتدار سمجھ بیٹھے یہ سبق یاد کروانا ضروری ہوگیا تھا کہ پاکستان صرف اور صرف فوج کی ملکیت اور جاگیر ہے۔ فوج پاکستان کو بلا شرکتِ غیرے اپنی جاگیر سمجھتی ہے اور اپنی طاقت اور اپنی بندوق کی گولی کے بل بوتے پر ہر شریکِ طاقت کے امیدوار کی آنکھیں کھلوانا جانتی ہے جو اپنے آپ کو بڑا یا فوج کے برابر سمجھنے کی غلطی کر بیٹھے۔ عاصم منیر کا بھی وہی نعرہ ہے جو چنگیز کا تھا: آسمانوں میں ایک خدا اور زمین پر ایک ہی خاقان ہوسکتا ہے۔ جب تک جمہوریت کی تلوار فسطائیت کا سر قلم نہیں کرتی اس وقت تک پاکستان کی سرزمین صرف اور صرف وردی پوش زمینی خداؤں کی ملکیت رہے گی ! پنجاب پولیس کو یہ سبق دے دیا گیا ہے۔ کسی اور کو فرعونی جرنیلوں کی ہمسری کا خبط ہو تو اسے وقت کے خاقان کو پہچان لینا چاہئے اور پنجاب پولیس کے حشر کو یاد رکھنا چاہیے۔
چلتے چلتے یہ شعر ساتھ لیتے جائیے:؎
محافظ دونوں خائن ہیں پولیس ہو یا وہ فوجی ہوں
یہی ہونا تھا جب ہوں مقتدر سب چور اور ڈاکو!
0