ہفتہ وار کالمز

فنونِ لطیفہ!

علیوف خالینوف البانیہ کا رہنے والا تھا البانیہ پر مسلمانوں نے دہائیوں تک حکومت کی سلطنت عثمانیہ بکھری تو یہ علاقہ روس کے زیر اثر چلا آیا، کمیونزم کا دور دورہ تھا خدا کا نام لینا بھی جرم تھا کسی کے منہ سے خدا کا نام سنتے تو اہل کار اس کو پکڑ کر جنگل میں چھوڑ آتے اور کہتے اپنے خدا کو پکارو وہ تم کو بچالے گا، ایک اندازے کے مطابق تئیس ہزار لوگ اس جرم میں شہروں سے نکالے گئے اور جنگلوں میں چھوڑ دیئے گئے سب جنگل کے جانوروں کے شکار ہوئے یا سخت سردی کا موسم ان کو نگل گیا، علیوف خالینوف اپنے دوستوں کے ساتھ ایک بڑے کمرے میں کیرم کھیل رہا تھا ہارتے ہارتے جب اچانک جیت اس کی ہوئی تو اس کے منہ سے O MY GOD نکلا، اہل کاروں نے اس کو پکڑا اور جنگل میں میں چھوڑ آئے اور کہا اب اپنے خدا کے ساتھ اپنی جیت کا جشن مناؤ، علیوف وہ واحد شخص تھا جو جنگل سے سلامت نکل آیا، کسی نہ کسی طرح وہ ترکی پہنچا اور اس نے اس دور کی کہانی لکھی ، اس نے جنگل میں گزارا کیا،جوان آدمی تھا پتھروں سے چھوٹے جانور شکار کرتا اور اپنا پیٹ بھرتا، وہ بڑے جانوروں سے اپنے آپ کو بچاتا رہا کئی بار زخمی ہوا اور کسی کسی نہ کسی طرح جنگل سے باہر نکل آیا اس کی داستان خون جما دیتی ہے علیوف لکھتا ہے کہ موسیقی سے اس کو عشق تھا وہ کئی آلات موسیقی بجا سکتا تھا MOUTH ORGAN سے وہ بہت سی دھنیں بجا لیتا تھا، وہ لکھتا ہے جنگل میں اس نے پرندوں کی بولیاں بولنا سیکھ لیں وہ پرندوں سے انہی کی آواز میں پہروں باتیں کر سکتا تھا وہ لکھتا ہے کہ موسیقی کی اس لگن نے اسے زندہ رکھا پرندوں سے باتیں نہ کرتا تو مایوسی گھیر لیتی اور وہ نا امیدی کا شکار ہو گیا ہوتا اور شائد کبھی جنگل سے باہر نہ نکلتا، جب وہ جنگل سے باہر نکلا تو سڑک کے کنارے بیٹھتا، پرندوں کی مختلف آوازیں نکالتا اور راہ گیر اس کی طرف چند سکے اچھال دیتے پھر اس کو سرکس میں کام مل گیا جہاں وہ پرندوں کی آوازیں نکالتا آہستہ آہستہ وہ موسیقی کی طرف آیا اور بڑا MISICIAN بن گیا وہ نوے سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوا لوگ اسے جنگل کا گویا کہا کرتے تھے علیوف خالینوف کے اندر موسیقی نہ ہوتی تو وہ مر چکا ہوتا، موسیقی روح کی غذا ہے یہ روح کو زندہ رکھتی ہے موسیقی کے ہزاروں راگ راگنیاں زندگی کے تاروں کو چھیڑتے ہیں یہ دھنیں کام کرتے وقت بھی آپ کے ذہن میں گونجتی رہتی ہیں ،KEATS کہتا ہے کہ ایک اچھا نغمہ کئی سال کے بعد بھی ہمارے ذہن میں گونج اٹھتا ہے جو ہمارے لا شعور میں ہوتا ہے اور یک بہ یک شعور میں چلا آتا ہے، موسیقی کے لئے آپ کو کسی تعلیمی سند کی ضرورت نہیں ہوتی موسیقی خود بخود آپ کے اندر اترتی چلی جاتی ہے مگر دیگر فنونِ لطیفہ کا تعلق کہیں نہ کہیں علم سے جڑ جاتا ہے، شاعری، مجسمہ سازی، مصوری، با قاعدہ علم ہیں اب موسیقی بھی باقاعدہ ایک علم ہے قدرت نے انسان کے اندر سرشاری کی خواہش رکھی ہے سرشاری کی تعریف متعین نہیں کی جا سکتی شائد یہ PERSON TO PARSON بدل جاتی ہے اس کا تعلق انسان کے مزاج سے ہوتا ہے مزاج مختلف ہوتے ہیں مزاج ماحول سے بنتے ہیں انسان جس ماحول میں رہتا ہے وہیں سے وہ اپنے لئے کیف کشید کرتا ہے مذہبی لوگ کسی وعظ سماع کی محفل یا حمدیہ محفل سے کیف حاصل کرتے ہیں یہاں لوگوں کو بار بار ایک HAMMERING ملتی ہے جو ذہنوں کو سکوں بخشتی ہے، یہیں سے ان کو اشتعال بھی میسر آتا ہے جو ذہنوں کو بند کرتا ہےاس کی وجہ یہ ہے کہ مذکورہ بالا محفلوں میں سوال کی اجازت نہیں ہوتی، یہ بھی سرشاری کی ایک قسم ہے مگر دوسری طرف ایک طبقہ وہ ہے جس کے پیش نظر CREATIVITY ہوتی ہے یہ خیال کی سلطنت ہے خیال بے کنار ہوتا ہے ایک خیال نئے خیال کو جنم دیتا ہے خیال کی سلطنت میں شاعری، رقص، مجسم سازی، مصوری، موسیقی کا راج ہوتا ہے، ان تمام شعبہ جات میں نہ سکوت ہے نہ جمود،ان کا سفر جاری رہتا ہے، کبھی کوئی آہنگ قاری اور سامع کو اپنی آغوش میں لے لیتا ہے اور کبھی سامع اور قاری کی پسند ان کو متاثر کرتی ہیں۔ فنونِ لطیفہ انسان کو سرشاری سے ہم کنار کرتے ہیں ہمارے ہاں میر، غالب خسرو، کا سحر ٹوٹا ، ان کی شاعری آج بھی مزہ دیتی ہے اشعار کے نئے مطالیب سامنے آتے ہیں، رقص آپ کے اندر عجیب نشہ بھر دیتا ہے، ہندوستان میں رقص ہندوؤں کے مذہب کا حصہ ہے مگر کلا مذہب سے نکل کر خواص سے ہوتی ہوئی عوام کو بھی نشہ دیتی ہے کالج کے زمانے میں میری ملاقات جنگ کے ایک ممتاز کالم نگار جناب شفیع عقیل سے ہوئی جناب شفیع عقیل ایک زمانے میں فرانس میں مقیم تھے ان کا میدان ثقافت اور کلچر تھا اس علم پر ان کی دسترس حیرت انگیز تھی وہ کراچی میں ان چند لوگوں میں شامل تھے جو فرنچ روانی سے بول سکتے تھے فرانسیسی ادب پر ان کی مضبوط گرفت تھی وہ جنگ میں ثقافت اور کلچر پر ہی لکھتے تھے ہر چند کہ ان کا کالم خواص کے لئے ہوتا تھا مگر جن لوگوں کو ان کے کالم کا چسکہ تھا وہ لوگ ان کا کالم دلچسپی سے پڑھتے تھے اور پھر اس کالم پر گفتگو بھی ہوتی جناب شفیع عقیل فرنچ مصوری اور مجسمہ سازی کے تمام PHASES سے بھی کما حقہ واقف تھے ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا وہ پکاسو، لیونارڈو پر بلا تکلف گفتگو کرتے صادقین بھی ان کے مداحوں میں تھے کراچی کے استاد انصاری نے اپنی مصوری کا رخ انہی کے مشورے سے بدلا، پاکستان میں مصوری اور PAINTING پر بے تحاشا کام ہوا مستنصر حسین تارڑ EXPRESS NEWS پر ہر اتوار کو کاروان سرائے کے نام سے ایک پروگرام کرتے ہیں یہ ایک دلچسپ پروگرام ہے اس پروگرام میں ان لوگوں کا تعارف ہوتا ہے جن سے عام طور پر عوام واقف نہیں جیو نیوز کے صلاح الدین کی مجسمہ سازی، مصوری پر خاصا درک ہے، مستنصر حسین تارڑ ایک عرصے سے یہ پروگرام کرتے ہیں اور یہ پروگرام گہنایا نہیں صلاح الدین گاہے گاہے موتی رولتے ہیں جنرل ضیا الحق کے زمانے میں دینی حلقوں کو بہت عروج حاصل ہوا، جاہل مولوی دینی جماعتوں سے وابستہ تھے ان لوگوں نے باقاعدہ ایک مہم چلائی اور فنون لطیفہ کو تباہ کر دیا، یہ احمق لوگ شاعری، رقص، موسیقی ، مجسمہ سازی کے خلاف ہیں انہوں نے پاکستان میں سنیما اور تھیٹر تباہ کر دیا، تفریح کے بہت سستے ذرائع بند ہو گئے ، جب فنون لطیفہ کا قتل ہوتا ہے تو معاشرہ وحشت کا شکار ہو جاتا ہے نام نہاد افغان جہاد میں جہادیوں کو اتنا GLORIFY کیا کہ ان پڑھ جوان کو بندوق کا نشہ سوار ہو گیا اس کو خون بہانے میں سرشاری ملنے لگی سوچ کے تمام راسے بند ہوئے اور یہ جنونی لوگ چیچنا اور شام بھی جا پہنچے ، جب نوجوان شدت پسندی اور انتہا پرستی کا شکار ہو جائے تو اس کو اعتدال کی طرف لوٹنا خاصا مشکل ہوتا اس کا علاج تعلیم ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں جہاں بہت سی چیزیں تباہ ہوئیں وہاں تعلیم بھی تباہ ہوئی، اعتدال کی طرف لوٹنے کے لئے بہت وقت درکار ہے اور اس کے لئے مناسب منصوبہ بندی کرنا ہوگی، فنونِ لطیفہ کے بارے میں ایک بات کہی جاتی ہے اور وہ یہ کہ فنون لطیفہ انسان میں شرافت اور انسانیت پیدا کرتے ہیں جن کو فنون لطیفہ سے عشق ہو تو وہ بھی تلوار نہیں اٹھاتا، وہ امن چاہتا ہے وہ خون خرابے سے دور رہتا ہے ، ٹی وی پر ڈرامے نشر ہوتے ہیں ان پر بھی انتہا پسندوں کا دباؤ ہے کہ ڈرامے مذہبی نکتہ نظر سے ہی لکھیں فنون لطیفہ کا قتل ہوا تو معاشرہ جنونیت کا شکار ہوا اور اور سوچ کا سفر رک گیا CREATIVITY کی موت واقع ہو گئی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button