یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا ملک ہے ؟

نیا ہجری سال، 1447ھ، شروع ہوگیا۔
ہم اپنے ہجری سال کے آغاز پر خوشیاں نہیں مناتے، الم مناتے ہیں اسلئے کہ نیا سال شروع ہوتا ہے کربلا کے سانحہ کی یاد تازہ کرواتے ہوئے جب ساٹھ ہجری کے اختتام اور اکسٹھ ہجری کے آغاز پر ہمارے رسولﷺ کے پیارے نواسہ، سید الشہداء امام عالی مقام سیدنا حسین نے دین کی سربلندی کیلئے اور امام الابنیاء حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی قربانی کو ذبحِ عظیم کی تفسیر بخشنے کیلئے کربلا کے میدان میں نہ صرف اپنی جانِ عزیز کی قربانی دی بلکہ اپنے کنبہ اور جانثاروں کو بھی اس عظیم قربانی میں شامل کرکے وہ تاریخ رقم کی جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی !
ہم نے یہ چار مصرعے اسی ہجری سال کے آغاز پر کہے ہیں:
الم سے ہوتا ہے مسلم کا سالِ نو آغاز
ذبحِ عظیم ہے دینِ مبیں کی وجہِ نمود
عطائے عزمِ حسینی سے دین کو ہے دوام
کہ کربلا کے ہی صدقہ میں دین کا ہے وجود!
مولانا محمد علی جوہر، جو تحریکِ پاکستان کی جد و جہد میں ایک زعیم کا مرتبہ رکھتے ہیں، نے کیا خوب کہا تھا
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد۔
لیکن اس کلیہ کا اطلاق، صد افسوس بلکہ ہزار افسوس، ہمارے وطنِ عزیز پر نہیں ہوتا۔
پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ بات جو ہم نے کہی ہے کوئی ایسی قابلِ اعتراض نہیں لگتی اسلئے کہ ہمارے ملک پر تو اس فوج کے کوفی جرنیل، آج سے نہیں بلکہ گزشتہ ستر برس سے قابض ہیں، ملک و قوم پر مسلط ہیں جس فوج کا پاکستان کی جنگِ آزادی میں کوئی حصہ نہیں تھا اوراس کے کوفی جرنیل اس قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں جن کی زبانیں پاکستان کے حق میں چلتی ہیں لیکن ان کےدلوں میں سامراجی بت بیٹھے ہیں جن کی پرستش، اور جن کے ساتھ وفاداری کا عہد نبھاتے ہوئے یہ پاکستان کے اپنے افعال و کردار سے سب سے جانی دشمن بنے ہوئے ہیں۔
کربلا کے بعد اسلام کو تو حیاتِ نو مل گئی اور اس حیات کو ابدیت کا مقام حاصل ہوگیا لیکن ہمارے پاکستان کی بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے شب و روز نہیں بدلتے اور اگر حالات کروٹ لیتے ہیں تو ملک و قوم کے حق میں نہیں بلکہ ان غاصب کوفی جرنیلوں کے اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے !
پاکستان کی تاریخ، آزادی ملنے کے بعد سے، کربلا کی تاریخ کی مانند ہی دردناک اور دلگدا
ز ہے!
اس پاکستانی فوج کا پاکستان بنانے میں کوئی حصہ، کوئی کردار نہیں تھا، لیکن پاکستان کو دولخت کرنے میں اور جمہوریت کی بیخ کنی کرنے میں اسی فوج نے، بلکہ فوج کے کوفی جرنیلوں نے وہ کردار ادا کیا ہے جو برِ صغیر کی فرنگی دور کی تاریخ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا تھا! ملک کو لوٹنے اور اس کے وسائل کا بے محابا استحصال کرنے کا کردار !
ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1857ء کی جنگِ آزادی میں ابتدا میں ہزیمت اٹھانے کے بعد دلی سے فرار ہوکر ان ہی ملت فروشوں کی مدد سے پنجاب میں سپاہی بھرتی کئے تھے جو آج پاکستان پر قابض کوفی جرنیلوں اور ان کے سیاسی گماشتوں کے اجداد تھے۔ اور ان کرائے کے سپاہیوں کی مدد سے ایسٹ انڈیا کمپنی نے دلی پر پھر سے قبضہ کیا اور اس کے بعد جو خون کی ہولی دلی میں کھیلی گئی اس کی تاریخ کربلا کی تاریخ کی طرح خونچکاں ہے!
پاکستان پر پہلا مارشل لا لگانے والے خود ساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان کا کردار یہ تھا کہ برٹش انڈیا آرمی کی طرف سے اسے یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ مہاجرین کے جو قافلے، لٹے پھٹے، پاکستان کی سمت ہجرت کر رہے تھے ان کا تحفظ کیا جائے لیکن وہ اپنے فرض سے غافل مہاراجہ پٹیالہ کی ایک داشتہ کے عشق میں گرفتار اس کے ساتھ دادِ عیش دے رہے تھے۔ بانیء پاکستان، بابائے قوم کو ایوب کے نام سے نفرت تھی، وہ اس کی صورت دیکھنے کے بھی روادارنہیں تھے۔ لیکن اسی ایوب خان نے پاکستان کے پہلے قومی سپہ سالار کی حیثیت میں جمہوریت پر اس وقت وار کیا جب پاکستان میں پہلے عام انتخابات ہونے والے تھے۔
ایوب خان کو امریکی سامراج کی آشیرواد حاصل تھی۔ ایوب نے یہی کہہ کر سامراج سے اپنے جمہوریت کش اقدام کیلئے پروانہ حاصل کیا تھا کہ جمہوری حکومت سے امریکہ کو پاکستان میں اڈے ملنا محال تھا!
وہ دن اور آج کا دن ہمارے عسکری طالع آزماؤں کے سر پر سامراج کا دستِ شفقت رہا ہے اور یہ کوفی صفت ، ملت فروش جرنیل اپنی ہوسِ اقتدار اور مال و منال کیلئے ملک و قوم کی غیرت کا سودا کرتے آئے ہیں۔
پرویز مشرف کے دور میں تو اس طالع آزما کی ملت فروشی کا یہ حال تھا کہ جو فوجی اڈے امریکی سامراج کی نذر کئے گئے تھے ان میں پاکستان کا کوئی فوجی قدم نہیں رکھ سکتا تھا!
موجودہ یزیدی عسکری طالع آزما، عاصم منیر کی بے غیرتی اور ملت فروشی کا بھی وہی انداز اور عالم ہے جو ایوب خان کا تھا۔ ایوب ہی کی طرح انہوں نے بھی کمال بے حیائی سے کوئی کارنامہ کئے بغیر اپنے آپ کو فیلڈ مارشل بنوا لیا ہے۔ اور وہ اپنے بخت پر ناز بھی کر رہے ہیں کہ امریکہ کی اپنی جمہوری تاریخ کی جڑیں کھودنے والے آمر صفت ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا دستِ شفقت ان کے سر پہ رکھ دیا ہے۔ بقول شخصے عاصم منیر کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں ہے۔ وارے نیارے ہیں اور اس سے بڑھ کر کسی پاکستانی ملت فروش طالع آزما کی خوش بختی ہوسکتی ہے کہ اس کو وہائٹ ہاؤس کے مکین سے، وہ چاہے جو بھی سہی، سند مل جائے۔
یزید عاصم منیر نے پاکستان پر ویسے ہی پہلے سے فسطائیت کا وہ نظام مسلط کیا ہوا ہے جس میں آزادی کی ہر حس ختم ہوچکی ہے۔ نیوز میڈیا ایسا طابع فرمان ہے کہ مجال ہے کہ کوئی ایسی خبر شائع کرسکے جس سے یزیدی جرنیلوں کے نظام جبر کی قلعی کھل سکے۔ لے دےکہ سوشل میڈیا رہ گیا ہے جس پر ان کوفیوں کا مکمل تسلط نہیں ہے اگرچہ پاکستان کی حد تک ہر طرح کے حربے استعمال کئے جاتے ہیں کہ سوشل میڈیا کی آواز کو دبایا جاسکے۔ سرکاری سطح پر ایک منظم مہم چل رہی ہے سوشل میڈیا کو بدنام کرنے کیاور محب وطن آوازوں کو غداری کا الزام لگا کے خاموش کرنے کی مذموم کوشش جاری ہے۔
بیرونِ ملک بھی محبِ وطن پاکستانیوں کی صفوں میں رسوائے زمانہ آئی ایس آئی کے گماشتے اور ضمیر فروشوں کیلئے جگہ بنانے کی قابلِ مذمت مہم زور شور سے جاری ہے لیکن پھر بھی آزاد جمہوری معاشروں میں بسنے والے اور پاکستان سے محبت کرنے والے اور اسے یزیدیوں اور کوفیوں کے چنگل سے نجات دلانے کے خواہش مند پاکستانی اپنی سی جد و جہد اپنی اپنی گنجائش کے مطابق کر رہے ہیں۔
یزیدیوں کے تسلط میں پاکستانی عدلیہ، خاص طور سے نام نہاد اعلیٰ عدلیہ کی جو زبوں حالی ہے اور جس پست سطح پر ہمارے منصفانِ عدل گر رہے ہیں وہ ہر محب وطن پاکستانی کا المیہ ہے!
یہ وہ منصف ہیں جنہوں نے دنیا کی خاطر، اور مال و منال ِ دنیا کی خاطر دین کو بیچ دیا ہے اور انصاف کا منہ بھی کالا کردیا ہے۔
چھبیسویں آئینی ترمیم کے تحت جو آئینی بینچ ملک کی سپریم کورٹ میں بنائی گئی ہے اس کے ضمیر فروش ججوں کا تازہ ترین کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے آقا عاصم منیر کی خوشنودی کیلئے عدالتِ عالیہ کے اپنے ہی، گذشتہ برس کے اس فیصلے کو بدل دیا ہے، اسے منسوخ کردیا ہے، جس کے تحت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستیں عمران خان کی تحریکِ انصاف کو ملنی چاہئیے تھیں۔ اب یہ مخصوص نشستیں جرنیلوں کے تابع فرمان نواز لیگ اور پیپلز پارٹی میں تقسیم کردی جائینگی!
یہ انصاف فروش منصف اللہ کی کتابِ مبین کا وہ ارشاد اور فرمان بھول گئے ہیں جو صاف کہہ رہا ہے کہ انصاف فروش منصف جہنم کی آگ کا ایندھن ہونگے!دنیا کے جتنے بڑے سودائی اور طلبگار پاکستانی فوج کے افسران ہیں اس کی مثال تو دنیا میں نہیں مل سکتی۔
تازہ ترین اسکینڈل، زمینوں پر فوج کے قبضہ کے حوالے سے جو سامنے آیا ہے وہ کراچی کے معروف ساحلی تفریح گاہ، ہاکس بے، سے متعلق ہے۔کراچی میں پہلے سے ہی شہر کی بہترین زمینیں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے قبضہ اور ملکیت میں ہیں لیکن وہ جو غالب نے کہا تھا
ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
تو یزیدیوں کی ہوس ِزمین ہے کہ بھرنے کا نام نہیں لیتی۔ اب ان کے نشانے پر ہاکس بے کی وہ زمین ہے جو ساحلِ سمندر پر شہر کے باسیوں کیلئے تفریح کا موقع اور محل فراہم کرتی ہے۔ فوج اب اسے بھی اپنی تحویل میں لینا چاہتی ہے۔ وہ خط سوشل میڈیا کے توسط سے سامنے آیا ہے جس میں کراچی کی ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی نے سندھ کے وزیرِ اعلیٰ سے درخواست کی ہے کہ ہاکس بے پر اسے کم از کم چھہ ہزار، جی ہاں چھہ ہزار ایکڑ زمین دے دی جائے اور بہانہ یہ ہے کہ یہ زمینیں فوجی شہداء کے لواحقین کو الاٹ کی جائینگی !
جومحب وطن پاکستانی ان یزیدی جرنیلوں کی ہوس سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ شہداء کے بہانے سے یہ ہوسناک ملک کے وسائل کو لوٹ کر اپنے گھر بھرنے میں طاق ہیں۔
یہ وہ کام ہے جو ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے مقبوضہ ہندوستان میں کیا کرتی تھی۔ کیا فرق ہے اس میں اور نام نہاد آزاد پاکستان کے یزیدی جرنیلوں کے افعال و( بد) کردار میں؟
ظاہر ہے کہ کیا مجال ہے سندھ حکومت کی کہ وہ ان یزیدیوں کی ہوس کے جواب میں ناں کہہ سکے؟ کراچی کا تو پہلے ہی ڈکیت زرداری کے ڈاکو اور چور حشر نشر کرچکے ہیں۔ شہر کو کوڑے کا ڈھیر بنادیا ہے پیپلز پارٹی نے اپنے پندرہ برس کے دورِ اقتدار نہیں، دورِ لوٹ مار میں۔ پھر ستم بالائے ستم یہ کہ کیونکہ ڈکیت اپنی زندگی میں اپنے خواجہ سرا بیٹے کو پاکستان کا وزیرِ اعظم بنوانا چاہتا ہے تو مجال ہے اس کی کہ یزید کے حکم سے سرتابی کرسکے ؟ ناممکن !
کھاگئے پاکستان کو یہ یزیدی اور ان کے سیاسی گماشتے !
بخت کا سکندر جو کہہ رہے ہیں عاصم کو
یہ سکندری اس نے ملک بیچ کر پائی ؟
طالع آزماؤں کا یہ پرانا شیوہ ہے
حرمتِ وطن بیچی اور کمائی رسوائی !
لیکن پاکستان کی حرمت اور نام کا خیال کس کو ہے ؟!