ہفتہ وار کالمز

آرگینک فوڈ کیا ہے اور کیوںکھائیں؟

قارئین، آپ سب کو رمضان کریم مبارک ہو۔اس مہینہ کی مناسبت سے آج آپ کوکچھ آرگینک فوڈ کے بارے میں بتائیں گے۔مگر سب سے پہلے اس لڑ کے کی، ہمارے ایک ہر دلعزیز اینکر مین کو جو پارا چنار سے کال آئی ، وہ پڑھ لیں ، اس کی بات سن کر ایسا لگتا ہے کہ پارا چنار میں پاکستانی حکومت نے کر بلا بر پا کر دی ہے۔ اس لڑکے کا دل دہلا دینے والا پیغام سنئیے : ـ’’ سب سے پہلے تھینک یو ویری مچ موقع دینے کے لیے۔ابھی چالیس دن سے زیادہ ہو گئے ہیں، کہ ہم قید میں ہیں، بلکہ جیل میں بند ہیں۔امیدیں بھی لوگوں کی ٹوٹ چکی ہیں کیو نکہ انکے گھروں میں کینسر کے، بلڈ پریشر کے مریض بھی ہیں، ذیابیطس کے بھی، یا مر چکے ہیں یااپنی موت کا انتظار کر رہے ہیں۔اور انکی بد قسمتی ہے کہ کوئی آواز اٹھائے توکہتے ہیں یہ ٹرائبل ڈسپئوٹ (قبائیلی مسئلہ) ہے۔ اب تو لوگوں کی امیدیں بھی ٹوٹ چکی ہیں۔ نظر آ رہا ہے کہ کہیں گے کہ یہ مذہبی جھگڑے ہیں۔ میڈیا کو کچھ سمجھ نہیں آ رہاہے۔ ان لوگوں سے جو مطالبات کیے گئے وہ انہوں نے سب مان لیے۔جس روڈ پر ٹریک بنائے گئے تھے انہیں پر (درخت؟) کاٹ کاٹ کر لے جایا جا رہا ہے۔ آخر میں اس کا کیا بنے گا؟ مطلب مجھے تو سمجھ نہیں آ رہا۔ایک ریکوسٹ (گذارش) کروں آپ سے کہ اس بات کو آگے بڑھائیں، کہ ہم لوگ مر رہے ہیں سسک سسک کے، تھوڑا تھوڑا کر کے۔مہربانی سے ہم پر ایٹم بم مار دیں کہ ایک ہی وقت میں سب ختم ہو جائیں۔اور ہماری جویہ تکلیف اورمشکل ہے سب ختم ہو جائے۔ہمارے سامنے سرحد ہے جس کے پار لوگوں کے پاس حقوق ہیں اور ہم تو انسانی حقوق بھی نہیں مانگ رہے،صرف جینا چاہتے ہیں۔‘‘
شہباز شریف، وزیر اعظم سے کیا یزید بن گئے ہیں؟ ان کو ذرا بھی خیال نہیں کہ پارا چنار میں کیا ہو رہا ہے اور کون کر رہا ہے؟ اس سے پاکستانی کشمیر پر کیا اثرات ہوں گے؟ اور ہمارے دشمن ان حالات سے کیا کیا فائدہ اٹھائیں گے؟
اب ہم آتے ہیں اصل موضوع کی طرف۔رمضان مبارک آ چکا ہے اور اب سارا مہینہ بجائے اس کے کہ ہم اس مہینے کی برکات سے مستفید ہوں، ہمارا زیادہ وقت اس پر صرف ہو گا کہ سہری میں کیا کھانا ہے، افطاری کیسی ہونی چاہیے اور رات کا کھانا کیا ہو گا؟ دیکھا تو یہ گیا ہے کہ پاکستانی دوکانداروں کا یہ اعتقاد ہے کہ جتنی آمدنی رمضان میں ہوتی ہے سارے سال میں نہیں ہوتی۔ کیونکہ غریب سے غریب بھی پھل خرید تا ہے اور مہنگی سبزیاں، گوشت اور اناج بھی لیتا ہے۔بچوں کا تو بہانہ ہوتا ہے۔ حالانکہ ان لوگوں کو سمجھنا چاہیئے کہ رمضان کا مطلب اپنی بھوک اور پیاس سے نبٹنے کی تربیت ہے۔اور یہ مہینہ وہ ہونا چاہیے کہ جب آپ کے خوراک پر اخراجات کم سے کم ہوں۔ لیکن جہاں لوگوں نے مذہب کی ہر اچھی بات کو اپنے مطلب میں ڈھال کے اس کا حلیہ بگاڑ دیا ہے رمضان کے رسم و رواج بھی ویسے ہی بدل دیئے گئے ہیں۔
اس لیے راقم نے سوچا کہ جب کھانے پینے کا ذکر ہو گا تو کیوں نہ ایک کام کی بات بھی کر لی جائے، یعنی آرگینک(Organic ) خوراک جسے اُردو میں نامیاتی اور عضوی بھی کہتے ہیں، لیکن یہ دونوں الفاظ عام فہم زبان میں استعمال نہیں ہوتے، اس لیے ہم اسے خالص خوراک کا نام دیتے ہیں، جو کسی حد تک اس کی حقیقت کے قریب ہے۔
خوراک صرف ہمارے پیٹ کا ایندھن ہی نہیں، یہ معاشروں، زمین کے ساتھ ہمارے تعلق، اور ہماری اقدار کا مظہربھی ہے۔ لیکن ہم جو کھاتے ہیں اور وہ کیسے اُگایا جاتا ہے، یہ ساری دنیا میں مختلف ہے۔آرگینک خوراک ہے کیا؟ اس کی تعریف مختلف جگہوں میں مختلف ہے۔ امریکہ میں اگر کسی کھانے کی چیز پر USDA Organic کا نشان لگا ہو تو اس کا مطلب ہے کہ وہ چیز ایسی جگہ پر اگائی گئی تھی جہاں کوئی کیڑے مار دوا استعمال نہیں کی گئی تھی، نہ جی ایم او ، یا کیمیکل فرٹلائزر استعمال کیا گیا تھا۔یوروپ میں اس سے بھی زیادہ سخت معیار ہیں اور بھارت میںجدید دور کی سرٹیفیکیشن کے ساتھ ہزاروں سال پرانی روایاتی زراعت کا استعمال بھی شامل ہے۔کچھ ایسے ممالک ہیں جہاں سرٹیفیکیشن کا حصول آسان نہیں ہے۔ جیسے برازیل۔ وہاں غریب کسان بغیر لیبل کے آرگینک فوڈ بیچتے ہیں۔
دنیا کے کچھ خطہ ہیں جہاںآرگینک فوڈ شروع ہی سے رائج ہے جیسے کیوبہ۔وہاں ایک مدت پہلے مصنوعی ادویات اور فرٹیلائزر ملنا بند ہو گئے تھے تو کسانوں نے قدرتی وسائل استعمال کرنے شروع کر دیئے۔اسی طرح بھوٹان۔ وہاں حکومت نے مصنوعی کیمیکلز اور کھاد پر پابندی لگوا دی۔وہاں مثلاً مرچوں والے پانی سے کیڑوں کی روک تھام کرتے ہیں۔ یوروپ کے کچھ ملکوں میں اور ایتھیوپیا میں نصف سے زیادہ زمین پر زراعت آرگینک ہوتی ہے۔لیکن بہت سے ملکوں میں آرگینک زراعت نہیں ہوتی اس کی وجوحات میں سرٹیفیکیشن کی بھاری قیمت، وسائل کی کمی، اور خریداروں کی مانگ نہ ہونا ہیں۔
دنیا میں آرگینک فوڈ کا رحجان کیوں بڑھ رہا ہے؟ اس لیے کہ لوگ اپنی خوراک میں کیڑے مار دوائیاں، مصنوعی کھاد، اور دیگر زہریلے مادے نہیں چاہتے۔ ان چیزوں سے سرطان، دل کی بیماریاں اور دیگر بیماریوں کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ جو خالص غذا یا آرگینک فوڈ کھانے سے نہیں ہوتے۔ خوراک کے علاوہ، فضا میں اگر کیمیکلز پھیلائے جائیں جیسے کہ مچھر مارنے کا سپرے، یا کیڑے مار سپرے وغیرہ تو یہ بھی جب سانس سے ہمارے جسم میں جاتے ہیں تو ان سے نقصان پہنچتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق، بڑھاپے کی بیماریاں جیسے ڈیمینشیا اور الزائمروغیرہ کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ڈیمینشیا بھولنے کی بیماری ہے اور الزئمر میں انسان کے ہاتھ اور منہ کانپتے ہیں اور جب بڑھ جائے تو ٹانگیں جڑ جاتی ہیں اور انسان چلنے کے قابل نہیں رہتا۔
پاکستان میں ایسی اشیا کی فروخت پر کوئی پابندی نہیں ہے اور نہ ہی عوام کو اس تعلیم کی سہولت ہے جو ان کے استعمال کے صحیح طریقے اور نقصانات سے آگاہ کرے۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان میں صحت کی تعلیم عموماً نا پید ہے۔ گاہے بگاہے اخبارات، رسائل اور میڈیا پر کچھ معلومات دی جاتی ہیں، مگر ایسے کہ کچھ سمجھ آئے اور کچھ نہیں۔مثلاً کوئی ڈاکٹر صاحب یا صاحبہ سمجھاتے ہیں لیکن بغیر تصویری چارٹ اور اشکال کے۔ یہ اب دیکھنے والے پر منحصر ہے کہ اسے کتنی سمجھ آئی۔ یہ بھی ضروری ہے کہ سمجھانے والا قابل اعتماد ذریعہ ہو۔صرف چرب زبانی کافی نہیں۔
پاکستان میں ذراعت میں کیمیکلز، مصنوعی کھاد اور کیڑے مار دوائیوں کا استعمال عام ہے۔ کیونکہ ان کے استعمال سے فصلیں خراب ہونے سے بچ جاتی ہیں۔ انہیں کیڑا نہیں لگتا۔ اور فصل زیادہ بھی ہوتی ہے۔ حکومت کسانوں کی اس مانگ کے لیے خاص اقدامات کرتی ہے۔کیونکہ آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ سبزیوں اور اجناس کی مانگ میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے اور کھاد ڈالنے سے فصلیں زیادہ ہوتی ہیں۔ کھاد اور کیڑے مار دوائیوں کا استعمال دنیا کے اکثر ممالک میں ہوتا ہے لیکن پاکستان میں ہمیں نہیں معلوم کہ کیا ہدایات کے مطابق ہوتا ہے یا بس اندازے سے؟ اس لیے اگر ہم آرگینک فوڈ نہیں دے سکتے تو کم از کم ان اشیاء کے استعمال کو ہی کم نقصان دہ تو بنا سکتے ہیں۔
صارفین کو بھی یہ جاننا چاہیئے کہ بازار سے جو بھی سبزی اور پھل وغیرہ لائیں اس کو استعمال سے پہلے اچھی طرح سے دھو لیں۔ تا کہ ان پر جو زہریلا کیڑے مارچھڑکائو کیا گیا ہوتا ہے وہ جہاں تک ممکن ہے صاف کر دیا جائے اور وہ آپ اور آپ کے پیاروں کے منہ میں نہ جائے۔
کسی واقف کار نے راقم کو بتایا تھا کہ پاکستان میں کوئی ایسا زراعتی زمین کا ٹکڑا نہیں ہے جہاں مصنوعی کھاد، کیڑے مار دوائیاں اور دوسرے کیمکل استعمال نہ کیے گئے ہوں۔ شاید بلوچستان میں کوئی ایسا رقبہ ہو گا جو ابھی تک ان زہریلے مادوں سے بچا ہوا ہو اور جہاں آرگینک فوڈ اگائی جا سکتی ہو۔ ورنہ باقی پاکستان میںآرگینک فوڈ اگانے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ البتہ پاکستان میں تھوڑی سی آگاہی ہو رہی ہے اور آرگینک فوڈ کی مانگ قدرے نظر آنا شروع ہو گئی ہے اور بازار میں کہیں کہیں بڑی دوکانوں میں آپ آرگینک فوڈ دیکھ سکتے ہیں۔ یہ غالباً وہ سبزیاں اور پھل ہیں جو بغیر کیڑے مار دواوں اور مصنوعی کھاد کے اگائے گئے ہوں اگرچہ کہ ایسی زمین پر جہاں یہ مضر ادویات پہلے استعمال کی گئی تھیں۔ پھر بھی غنیمت ہے اگر ان سبزیوں اور پھلوں پر مضر صحت اجزاء استعمال نہ کیے گئے ہوں۔
ٔاورگینک فوڈ کی پیدا وار لازماً دوسری اس قسم کی اشیاء سے زیادہ مہنگی پڑتی ہے اس لیے اس کے دام بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ لیکن اچھی صحت کے لیے تھوڑا خرچہ تو برداشت کرنا پڑے گا۔اور جہاں تک فضا میں مچھر مار اور کیڑے مار کیمیکلز کے سپرے کا تعلق ہے اس سے مکمل پرہیز کریں۔ اگر کوئی قدرتی جڑی بوٹیوں سے بنا ہوا کوئی مواد ملے تو اس پر گزارا کریں۔ مچھروں سے بچائو کے لیے اول تو مچھر دانی کے اندر سوئیں۔اور گھر کے باہر جہاں بھی پانی کھڑا نظر آئے خواہ گملے میں، کسی پرانے ٹائر میں یا کسی بھی برتن میں اس کو پانی سے خالی کرتے رہیں کیونکہ مچھر ایسی جگہ ہی پیدا ہوتے ہیں۔اور مکھیاں تو کوڑے کرکٹ میں پیدا ہوتی ہیں۔ گھرمیں اور گھر کے باہر گندگی، کوڑا کرکٹ کو باقاعدگی سے اٹھواتے رہیں۔ مکھیوں کو زہریلے سپرے کے بجائے مکھی مار الیکٹرک یا محض پلاسٹک کے بلے سے ماریں۔یا ایسی چیزوں سے جن پر مکھیاں چپک جاتی ہیں۔ کوئی بھی چیز جو فضا کو آلودہ نہ کرے۔
ابھی ایک انتہائی موضوع کو راقم نے نہیں چھیڑا۔ وہ ہے گوشت۔ مرغی، بکرا، بھیڑ، گائے، مچھلی وغیرہ۔ تو صاحبو، یہ ایک علیحدہ مضمون ہے اور علیحدہ توجہ چاہتا ہے کیونکہ پھلوں اور سبزیوں کی طرح گوشت میں بھی آرگینک گوشت ہوتا ہے، یعنی ایسے جانوروں کا گوشت جن کو ہارمونز اور انٹی بائیوٹکس نہ دیئے گئے ہوں۔مرغیوں میں ایسی مرغی ہو جو آزاد پھر کر گھاس میں سے کیڑے کھاتی ہو۔اور اس کو دوا ؤںوالا دانہ نہ کھلایا جائے۔ہمارے ہاں دیسی مرغی کسی حد تک یہ شرائط پوری کرتی ہے۔اسی طرح، آرگینک انڈے ہوتے ہیں جو عام انڈوں سے اس لیے بہتر ہوتے ہیں کہ ان میںاومیگا ۶ بھی ہوتا ہے۔
ہمارا مشورہ ہے کہ اگر کہیں کسی سیاستدان سے ملیں، یا کوئی اور ایسا موقع ملے، جہاں اہل اقتدار کے کانوں میں بات پہنچائی جا سکے، تو ان کو بتائیں کہ حکومت عوام کی صحت عامہ کے لیے بھی اقدامات لے۔جن میں انہیں بیماریوں سے بچنے اور صحت بہتر کرنے کی معلومات دی جائیں۔صرف کبھی کبھار ٹیکے لگوانے کے اکا دکا بل بورڈ لگانا کافی نہیں۔ ہر صوبہ میںہیلتھ ایجوکیٹرز تعینات ہیں مگر ان سے کام نہیں لیا جاتا۔ وہ بڑے ڈاکٹر صاحب کے منشی کا کام کرتے ہیں۔ان کو بجٹ دیا جائے جس سے وہ تعلیم صحت کے پمفلٹ بنائیں، ریڈیو اور ٹی وی پر پبلک سروس پیغامات سے لوگوں کو بیماریوں سے بچنے کے طریقے بتائیں۔ غرضیکہ بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے، اور تعلیم صحت عوام کو پرہیز کے طریقے بتاتی ہے۔اکثر بیماریاں جن پر ہسپتالوں میں بے شمار پیسہ لگتا ہے وہ ایسی ہوتی ہیں جن کو پرہیزسے یاجا سکتا ہے۔صرف صارف کو صحیح معلومات ہونی چاہئیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button