ٹرمپ کی کابینہ میں بھارتی نژاد امیدوار

ٹرمپ کی کابینہ میں بھارتی نژاد امیدوار

ریاستہائے متحدہ امریکہ میں تقریباً 55لاکھ بھارتی ہیں جن میں سے 33لاکھ سے کچھ اوپر امریکہ کے شہری ہیں اور باقی کے عارضی رہائشی ہیں۔ 66فیصد بھارتی نقل مکانی کر کے آئے اور 34فیصد امریکہ میں ہی پیدا ہوئے۔کل بھارتیوں کا نصف کیلیفورنیا، ٹیکساس، نیو جرسی اور نیو یارک میں رہتا ہے۔2022 میں ایک تخمینہ کے مطابق ایک بھارتی گھرانہ کی اوسطاً آمدنی 124 ہزار ڈالر تھی، جو کہ ایشیائی امریکنوں کی اوسط آمدنی سے زیادہ تھی۔جو ایک لاکھ تھی۔سن 2022-23 میںانڈیا سے تعلق رکھنے والے 26,8900 طالب علم اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں داخل تھے۔البتہ2019 کے تخمینے کے مطابق،5لاکھ پچپن ہزار بھارتی غیر قانونی نقل مکانی کر کے آئے ہوئے تھے۔
بھارتی شہریوں میں بہت سے بھارتی اعلیٰ اور بین الاقوامی سطح کی شہرت یافتہ یونیورسٹیز سے اعلی تعلیم لے کر آئے ہوئے ہیں۔ بہت سے تجارتی اور پیشہ وارانہ تعلیم رکھتے ہیں، اور امریکہ کی بڑی بڑی کارپوریشنز میںاعلیٰ حیثیت میں ترقی کر کے پہنچ جاتے ہیں۔ ان کی فہرست خاصی طویل ہے۔بزنس اور تجارت کے علاوہ بھارتی نژاد شہریوں نے سیاست میں بھی نمایاں نام بنایا ہے۔ جس کی سب سے بڑی مثال 2024 کے امریکی عام انتخابات میں امریکہ کی بڑی پارٹی کی صدارتی امیدوار کملا ہیرس بھارتی نژاد تھی۔ جو ڈیموکریٹک پارٹی کے صدر جو بائیڈن کی نائب صدر بھی تھی۔سب کو خیال تھا کہ اگر جو بائیڈن کو کچھ ہو گیا تو کملا صدر بن جاتی۔لیکن بھگوان کی مرضی نہیں تھی کہ امریکنوں کو یہ دکھ بھی سہنا پڑتا۔لیکن یاد رہے کہ گذشتہ انتخابات میں کملا صدارت کی امیدوار تھی اور اس کے علاوہ تین چار اور بھارتی بھی۔ ایک اور بھارتی نژاد خاتون نکی ہیلی بھی اس فہرست میں شامل ہے۔ ٹرمپ کی گذشتہ صدارت میں نکی کو اقوام متحدہ میں امریکی سفیر لگایا گیا تھا لیکن اب کے اس کے ساتھ ایساکوئی معاملہ ہوتا نظر نہیں آتا۔
ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کے لیے ٹرمپ نے کاش پٹیل کا انتخاب کیا ہے۔ یہ ایک بہت اہم عہدہ ہے جس پر امریکی سیاستدانوں کو تشویش ہے۔ موجودہ ڈائریکٹر کرس رے کو رضا کارانہ طور پر اپنا عہدہ وقت سے پہلے چھوڑنا پڑے گا۔اس میں خاصی قباحتیں ہیں جن سے ٹرمپ کی ٹیم واقف ہے44 سالہ پٹیل نے ٹرمپ کی گذشتہ حکومت میںخفیہ اور دفاعی معاملات میں کام کیا تھا، مثلاً وزیر دفاع کے چیف آف سٹاف کے طور پر۔ٹرمپ کا کہنا ہے کہ پٹیل ایک ذہین وکیل، تفتیشی کارکن، اور’ امریکہ پہلے‘ کا علمبردار ہے جس نے اپنی ملازمت کو کرپشن کو افشاء کرنے، انصاف کے حصول اور امریکنوں کی حفاظت پر صرف کیا۔وہ ایک ایسا وکیل ہے جو ٹرمپ کے وفا داروں کے طور مشہور ہوا۔پٹیل یونیورسٹی کالج لندن سے فارغ التحصیل ہے اور ٹرمپ کی قومی حفاظتی کونسل میں رہا ہے۔پٹیل نے ایک کتاب بھی لکھی ہے ’گورنمنٹ گینگسٹر‘ کے عنوان سے جس کی ٹرمپ نے تعریف کی۔ اس میں اس نے کہا ’’ایف بی آئی مکمل طور پر بیکار ہو چکی ہے، جب تک انتہائی اقدامات نہیں لیے گئے، یہ شخصی سلامتی کے لیے خطرہ رہے گی۔‘‘
جان تھیون، جو سینیٹ کے اکثریتی قائد ہو نگے، وہ ٹرمپ کی اس نامزد شخصیت کو پاس کروانے کے تانے بانے بن رہے ہیں۔کسی نے سوال کیا کہ کیا کاش پٹیل جرائم کے خلاف یا قومی سلامتی کے لیے کام کرنے کے سیاسی اہمیت کے کام کریں گے؟ ۔ جواب تھا: ایف بی آئی میں بہت خامیاں ہیں، ان کو ٹھیک کرنے میںبہت وقت لگے گا۔
ایک لیڈی جو ہوائی کی، ڈیموکریٹک پارٹی کی، کانگریس وومین تھی ، تلسی گیبارڈ ، اگرچہ بھاتی نژاد نہیں تھی لیکن اس نے ہندو مذہب اختیار کیا ہوا تھا اور اپنے بچوں کے نام بھی ہندوانہ رکھے تھے۔اور دیکھا گیا کہ بھارتی وزیر اعظم مودی کی مداح تھی۔مان نہ مان، وہ بھارتیوں سے زیادہ بھارت کی طرفدار لگتی ہے۔ٹرمپ نے اس کو قومی خفیہ ایجنسی کا سربراہ بنانے کا اشارہ دیاہے۔ یہ ادارہ ملک کی تمام خفیہ ایجنسیز کے اوپر نگران ہے۔ تلسی نے دو دہائیوں سے ملک کی خدمت کی ہے۔وہ نیشنل گارڈز میں تھی اور 2013-2021 میں کانگریس میں تھی۔ 2022 میں غیر جانبدار ہو گئی ، اور اب پکی ریپبلیکن ہے۔تلسی کو خفیہ ایجنسی کا کوئی تجربہ نہیں اور اور یو کرائن کی جنگ میں امریکی شمولیت کے خلاف ہے۔
ووک راماسوامی، ایک کروڑ پتی بھارتی نژاد ہے جس نے حالیہ صدارتی انتخابات میں بہت دیر تک جم کے مقابلہ کیا اور بالآخر ہمت ہار دی۔اب ٹرمپ نے اس کو اور ایلون مسک کو ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ افیشنسی ، کا سربراہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ٹرمپ نے کہا ہے کہ یہ دونوں ملکر حکومتی نوکر شاہی کا خاتمہ کریں گے۔بہت سے فالتو قوائد و ضوابط کو کم کریں گے، فضول اخراجات کو کم کریں گے اور وفاقی اداروں کی ساختِ نو کریں گے۔مسک نے کہا کہ اس اعلان سے پورے سسٹم میں تہلکہ مچ جائے گا۔خصوصاً ان لوگوں میں جو فضول اخراجات میں ملوث ہیں۔ ٹرمپ نے کہا ان کا کام4جولائی 2026 تک مکمل ہو جائے گا۔
یا درہے کہ ٹرمپ کے نائب صدر جے ڈی وانس کی اہلیہ بھی بھارتی نژاد ہیں۔
ان کے علاوہ اور اہم عہدوں پر کئی بھارتی نژاد کا تعین کرنے کا اشارہ دیا گیا ہے۔ مثلاً:
سری رام کرشنن۔ مصنوئی ذہانت پر سینئر وہائٹ ہائوس پالیسی ایڈوائزر ۔ ان صاحب کی پیدائش انڈیا کے شہر چنائے کی تھی۔ انہوں نے تامل نادو کے ایک اچھے تکنیکی کالج سے بی ٹیک کی ڈگری لی۔اور 2005 میں امریکہ آ گئے۔اپنی فنی مہارت اور علمی قابلیت کی وجہ سے وہ مصنوعی ذہانت کی ترقی میں امریکی حکمت عملی میں اہم کردار ادا کریں گے۔
ٹرمپ نے انڈیا میں کسانوں کے بڑے احتجاج کے قائدین میں سے ہرمیت کے ڈھلون کو سول رائٹس کے اسسٹنٹ اٹارنی جنرل کے لیے چنا ہے۔ڈھلون ، چوتھی بھارتی نژاد ہیں جنہیں کابینہ میں لیا جائے گا۔چندی گڑھ کی پیدائش، ہرمیت ڈھلون اس وقت نظروں میں آئیں جب انہوں نے ریپبلیکن نیشنل کنونشن جولائی 2024 میں سکھوں کی دعا، ارداس، پڑھی۔اس تعیناتی کی اہمیت یہ ہے کہ بائیڈن کی حکومت نے بھارت پر الزام لگایا تھا کہ اس ملک نے خالصتان کے حامی گورپتونت سنگھ پنوں ، جوایک امریکی شہری ہیں ان کو امریکہ میں قتل کرنے کی سازش کی تھی۔مز ڈھلون کسانوں کے سنگھو اور غاز ی پور کے احتجاجی دھرنوں میں پولیس گردی کے خلاف اور انسانی حقوق کی بات کرنے سے منظر عام پر آئیں۔اور پانچ سال تک انہوں نے احتجاجی سکھ کسانوں کے ساتھ کام کیا۔جب کانگریس مین رو کھنا نے پاکستان کی سیاسی صورت حال کا ذکر کیا تو مز ڈھلون نے انہیں یاد دلایا کہ بھارت میں سکھ احتجاجیوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟کیا تم پنجاب میںانٹرنیٹ بند ہونے پر ، اور احتجاجیوںپر گولیاں چلنے پر تشویش نہیں رکھتے؟ اور جب حکومت نے X ویب سائٹ پر صحافیوں اور احتجاجیوں کے اکائونٹ بند کیے گئے، تو کوئی خیال آیا؟انہوں نے بھارتی حکومت پر سکھ احتجاجیوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکانے کا الزام لگایا۔ انہوں نے بھارتی حکومت پر کینیڈا میں سکھ لیڈر ہردیپ سنگھ نجار کے قتل کا ذکر کیا جس سے بھارت اور کینیڈا کے تعلقات خراب ہوئے۔
کلول بھٹہ چیرجی ،
ٹرمپ کی نئی کابینہ میں ابھی تک کوئی پاکستانی نژاد امیدوار دکھائی نہیں دیا۔ اگرچہ امریکہ میں تقریباً سات لاکھ پاکستانی ہیں جن میں سے زیادہ تر نے ٹرمپ کو ووٹ دئیے۔ لیکن اس لیاقت اور اہلیت کے پاکستانی شاید کم ہیں جن میں سے ٹرمپ کو اپنی پسند کا کوئی فرد ملتا۔اس کی نو منتخب کابینہ میں کچھ افراد ایسے ہیں جنہیں بھارتی تجزیہ کار پاکستان مخالف سمجھتے ہیں۔لیکن ضروری نہیں کہ وہ ایسا کریں۔ وہ بھی وقت کے ساتھ بین الاقوامی اور خطہ کی سیاسی اہمیت کا اندازہ لگا کر ہی اپنی حکمت عملی اپنائیں گے۔
اگرچہ پاکستانی موجودہ قیادت، خصوصاً عسکری قیادت تو ہمہ وقت امریکہ کی طرف دیکھتی ہے کہ وہاں سے کیا حکم آتا ہے، لیکن یہ قیادت عوام میں مقبول عام نہیں۔عوام میں تو صرف عمران خان ہی مقبول عام ہے۔ اگر امریکہ کو پاکستان کی ضرورت محسوس ہوئی، خواہ افغانستان کے بارے میں، خواہ چین کے بارے میں، یہ اس پر منحصرہو گا کہ پاکستان کے بارے میں اور عمران خان کے بارے میںکیا رویہ رکھا جاتا ہے۔
ٹرمپ کی اولین کوشش ہو گی کہ امریکہ کو عالمی سطح پر جنگ بازی سے روکے۔خواہ یہ جنگ فلسطین میں ہو یا یو کرائن میں۔اس کا نعرہ امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانا ہے تو وہ اسی قسم کے کام کرنے سے عظیم بنے گا۔ البتہ ٹرمپ کے کچھ ابتدائی خیالات بھی سے عجیب و غریب سمجھے جا رہے ہیں جیسے کہ کینیڈا کو امریکہ کی 51ویں ریاست بنانا، گرین لینڈ کو ڈنمارک سے اور پانامہ کینال کو امریکہ کی سلامتی کے لیے بزور طاقت حاصل کرنا، وغیرہ۔ ان بیانات کو ٹرمپ کی تخت نشینی سے پہلے نشر کرنا، ممکن ہے اپنے انتہا پسند طرف داروں کو خوش کرنا ہو، لیکن دنیا والے اسے حیرت سے دیکھ رہے ہیں، کیونکہ آج کی دنیا میں بزور بازو ملک فتح کر کے ان پر قبضہ جمانا نا ممکن ہو گیا ہے۔
عمران خان کو تھوڑی سی آس ضرور ہو گی کہ شاید ٹرمپ کی حکومت اس کو جیل سے رہائی دلوا دے لیکن ہماری ناقص رائے میں، اس کی رہائی کے بعد سیاست میں واپسی کے امکانات کم ہیں جب تک اسرائیل کو اس چیز کا اطمینان نہیں ہو جاتا کہ خان پاکستانی ایٹمی اثاثوں کو ان کے دشمنوں کے حوالے نہیں کرے گا۔وگرنہ اسرائیل کی حکمت عملی کے مطابق ان کے دشمن کا دشمن ان کا دوست ہے یعنی بھارت ان کا دوست ہے۔اسی لیے بھارت اور اسرائیل کی گاڑھی چھنتی ہے ۔ دونوں کے مفادات ایک ہیں۔ اس لیے پاکستان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کے پس پردہ ان دونوں کا ہاتھ ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہو گی۔غالباً یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی پاکستان پالیسی میں اسرائیل اور بھارت کی مرضی ضرور دیکھی جاتی ہو گی۔کیونکہ اسرائیل امریکہ کی اندرونی سیاست میں پورا کنٹرول رکھتا ہے۔
اگرچہ بہت سے قابل بھارتی نژاد ٹرمپ کی کابینہ میں شامل ہو نگے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ لازماًپاکستان کے خلاف ہو نگے۔ا ن کو اپنی پارٹی اور ملکی مفاد کو پہلے سامنے رکھنا ہو گا۔ اگر ٹرمپ کو شبہ ہوا کہ یہ بھارتی امریکہ کے مفاد کے خلاف کام کر رہے ہیں تو وہ ان کو ہٹا بھی سکتا ہے۔ اس لیے پاکستان کو بہت زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔

 

Ejaz Farooqi

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے