جنرل (ر) فیض حمید
پچھلے ہفتے کا کالم لکھ رہا تھا اسی دوران یہ خبر بریک ہوئی کہ فیض حمید کو ایک ہاؤسنگ سوسائٹی میں خرد برد کے الزام میں فوجی تحویل میں لے لیا گیا ہے علاوہ ازیں POST RETIREMENT سیاسی سر گرمیوں میں بھی فیض حمید ملوث پائے گئے ہیں، لہٰذا ان کا کورٹ مارشل کیا جائیگا، اس وقت یہ ایک DEVELOPING STORY تھی لہٰذا میں نے انتظار کیا کہ مزید اطلاعات بہم ہوں تو اس موضوع پر کچھ لکھا جائے، یہ خبر آئی ایس پی آر نے دی تھی فوج کے ترجمان نے اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا، مگر الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا وہ شور اٹھا کہ الامان و الحفیظ یہ خبر کیا تھی ایک BOMB SHELL تھا، ایسا کم ہی ہوا کہ کسی فوجی جنرل کی اس طرح سرزنش کی گئی ہو ، سب جانتے ہیں کہ جنرل مشرف کو جنرل راحیل شریف نے کس طرح آرٹیکل چھ کی کاروائی سے بچایا کس طرح دبئی میں ایک عرب ریاست کی جانب سے APARTMENT کا تحفہ ملا، اور جنرل مشرف نے اپنی باقی زندگی آرام سے گزاری، اور پھر ہم نے یہ بھی دیکھا ایم کیو ایم کی معاونت سے جنرل مشرف کو فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا، اسکندر مرزا ایوب خان اور بیٹی خان کو بھی کوئی گزند نہ پہنچا، حالانکہ بیٹی پر تو ملک توڑنے کا الزام تھا بھٹو اگر چاہتے تو مقدمہ چلا سکتے تھے، مگر بھٹو ایسا کیوں کرتے ،وہ بھی تو اس JOINT VENTURE کا حصہ تھے، حمود الرحمن کمیشن رپورٹ چیختی رہ گئی کہ جنرل غلام عمر جو مشرقی پاکستان میں تعینات تھا وہ کرمنل ہے مگر تاثر یہ تھا کہ فوجی جنرل کو سات خون معاف ہیں تو جنرل غلام عمر کو سزا کیوں دی جاتی، حاضرجنرلزنے ریٹائر ہونے والےجنرلز کے شرمناک اعمال سے ہمیشہ صرف نظر کیا اور ان کو تحفظ دیا، جن میں سارے آمر اور طالع آزما شامل ہیں ، یہ تو فوج کی توہین تھی کہ BLOODY CIVILLIANS کسی بھی آئینی شق کا سہارا لے کر کسی بھی جنرل کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں، مجھے یاد ہے کہ جنرل ضیا کے دور میں پی پی پی کے جنرل سکریٹری نے ایک اجلاس میں فوجی جرنلز کے بارے میں سخت زبان اختیار کی تو پی پی پی کے کارکنان نے ان کا گلا دبوچ لیا تھا اور کہا تھا کہ ہم فوج کے خلاف کچھ بھی سننا نہیں چاہتے یہ وہ پارٹی تھی جس کے سربراہ کو فوج کے اشارے پر عدلیہ نے پھانسی کی سزا سنائی تھی جب سیاسی جماعتوں کا یہ طرزِ عمل ہو تو شکوہ کس بات کا، عوام میں یہ شعور کب رہا کہ وہ اپنے بھلے برے کی تمیز کر سکیں، جنرل فیض حمید جب ڈی جی آئی ایس آئی تھے تو عمران کے بہت قریب تھے، عمران بھی ان کو پسند کرتے تھے اور بہت اعتماد کرتے تھے ، جنرل حمید گل کے زمانے سے آئی ایس آئی نے ملکی سیاست میں کھلم کھلا دخل دینا شروع کیا، انہی کے حکم پر IGI بنائی گئی جس نے نواز شریف کے لئے سیاست کا راستہ ہموار کیا، اس کے بعد آئی ایس آئی کے ہر سربراہ نے سیاست میں دخل اندازی اپنا فرض سمجھا، جنرل فیض نے بھی سیاست میں بھر پور حصہ ڈالا، جنرل باجوہ نے جب ان کو کور کمانڈر پشاور تعینات کرنے کی سمری اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کو روانہ کی تو عمران نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا، یہیں سے باجوہ اور عمران کے تعلقات کشیدہ ہوئے ، جس رات تحریک عدم اعتماد منظور ہوئی اس رات بھی بی بی سی کے مطابق عمران کو جنرل فیض حمید کے ہیلی کاپٹر کا انتظار تھا، میں نے ایک کالم میں DEEP STATE کی بات کی تھی، کچھ ذرائع کے مطابق پلان یہی تھا کہ کسی نہ کسی طرح فیض حمید کو آرمی چیف بنایا جائے وہ عمران کی صدارتی نظام لانے میں مدد کریں ، شاہ فرمان جو عمران کے زمانے میں پختوں خواہ کے گورنر تھے ان کو کئی بار ARY کے ٹاک شوز میں بلایا گیا اور شاہ فرمان نے صدارتی نظام کی برکات بیان کیں تھیں اور یہ اشارے بھی دئے تھے کہ فوج اس پلان کے ساتھ ہے، تجزیہ کار یہی کہتے ہیں کہ پلان یہی تھا کہ عمران کوتین سال کے لئے سیاست میں باقی رکھا جائے اور یہ کام عمران کے خیال میں فیض حمید کے بغیر ممکن نہ تھا، اور بہت ممکن ہے کہ فوج کے کچھ اور جنرلز بھی فیض حمید کے ہم نوا ہوں، جو خبریں آرہی ہیں ان سے اندازہ تو یہی ہوتا کہ DEEP STATE اسی پلان پر کام کر رہی تھی اس پلان میں فوج کے ریٹارڈ افسر بھی اپنا حصہ ڈال رہے تھے اسی سلسلے میں غالباً جنرل (ر) علی قلی کے ساتھ دیگر جز لز اور افسران نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس بھی کی تھی، بہت پہلے جنرل پاشا کی ایک ویڈیومنظر عام پر آچکی تھے جس میں انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ وہ عمران کو ایک تھرڈ فورس کے طور پر لے کر آئے ہیں، جنرل ظہیر الاسلام کے عمران سے روابط ڈھکے چھپے نہیں ہیں پی ڈی ایم کی حکومت آنے کے بعد امریکہ میں کرنل افتخار نقوی نے سوشل میدیا کا محاذ سنبھال لیا اور لندن میں میجر حیدر مہدی اور میجر عدیل راجہ نے عمران کے لئے بہت منظم مہم چلائی یہ مہم بہت IMPRESSIVE تھی ہر چند کہ عدیل راجہ اور حیدر مہدی کا ABSENTIA میں کورٹ مارشل ہو چکا ہے کیونکہ وہ بیرون ملک مقیم ہیں مگر وہ تن دہی کے ساتھ میڈیا مہم جاری رکھے ہوئے ہیں، جنرل فیض حمید کے بارے میں حامد میر نے کچھ انکشافات کئے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ فیض حمید اپنی ریٹائر منٹ کے بعد بھی پی ٹی آئی پر گرفت رکھتے تھے اور مشورے صادر کرتے رہتے تھے اور پی ٹی آئی ان سے فیضیاب ہوتی تھی، خبریں یہ بھی ہیں کہ کراچی میں راؤ انوار نے جعلی پولیس مقابلوں کا بازار گرم کر رکھا تھا اس کے احکامات جنرل فیض ہی دیا کرتے تھے اس میں کہاں تک صداقت ہے اس کا احوال کسے معلوم مگر کہا یہی جاتا ہے کہ ایم کیو ایم کے ڈاکٹر ظفر عارف کا قتل راؤ انوار نے ہی کرایا، ابصار عالم کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کے زیدی کے قتل کے کھرے بھی جنرل فیض حمید سے ملتے ہیں، یہ سارے انکشافات اسی
وقت ہوتے ہیںجنرلز کی وردی اتر چکی ہوتی ہے مگر یہی انکشاف کرنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم عوام تک درست خبر دینے میں اپنی جان کی پرواہ نہیں کرتے حامد میر نے شاہ زیب کے پروگرام میں فیض حمید پر بات کرتے ہوئے کئی بار یہ کہا کہ میں مجرموں کے نام نہیں بتا سکتا، بہر حال یہ سچ ہے کہ جب سے آئی ایس آئی نے سیاست میں دخل دینا شروع کیا ہے ڈی جی آئی ایس آئی ملک کا مالک ہوتا ہے خاص طور پر جب وزیر اعظم بھی اس کا ہم نوا ہو مگر یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ عمران کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے اور فیض حمید کے آئی ایس آئی کا سر براہ ہوتے نواز شریف ان کی آنکھوں میں دھول جھونک کر لندن کیسے چلے گئے، اور ایسا کیوں ہوا کہ عمران باجوہ اور فیض کا گینگ کسی بھی سیاست دان یا کسی مجرم کو سزا کیوں نہ دلوا سکے، ہم کئی بار کہہ چکے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کی منظور ہونے کے بعد عمران نے کہا تھا کہ مجھ کو نکالا تو میں بہت خطرناک ہو جاؤنگا عمران نے واقعی خطرناک ہو کر دکھا دیا، ملک وہیں ٹھٹک گیا ہے جہاں عمران نے چھوڑا تھا، معیشت کو آگ لگ گئی اور نو مئی بھی ہو گیا ہر چند کہ عمران قید میں ہیں مگر وہ جیل سے مضامین بھی لکھتے ہیں جو عالمی جریدوں میں چھپتے ہیں صحافیوں سے بات بھی کرتے ہیں فوج کو لتاڑتے بھی ہیں عاصم منیر کو برا بھلا بھی کہتے ہیں، ججوں کو بھی معطون کرتے ہیں مگر کوئی ان کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتا، پاکستان کی تاریخ میں عمران وہ واحد طاقتور سیاسی قیدی ہے جس پوری ریاست کو ناکوں چنے چبوادئے ہیں، ہم اپنی بات پر قائم ہیں کہ کوئی نہ کوئی انتہائی مضبوط عالمی طاقت ہے جو عمران کی حفاظت کر رہی ہے،اسد علی طور ایک معمولی یو ٹیوبر ہے اس نے خبر دی تھی کہ فوج میں اہم عہدوں پر جو افسران فائز ہیں ان کا تعلق باجوہ فیض گینگ سے ہی ہے اور اسی نے یہ خبر دی تھی کہ عاصم منیر کو اہم عہدوں پر اپنے اعتماد کے لوگ لانے میں ایک سال لگ گیا، یہی وجہ کہ نو مئی کے مجرموں کو ابھی تک سزائیں نہ ہو سکیں شہباز میں قوت فیصلہ کی کمی ہے، خواجہ آصف نے طلعت حسین کو جو انٹر ویو دیا ہے اس میں اس کی وضاحت کی ہے، میرا خیال ہے کہ فیض حمید کا کورٹ مارشل کرنے کا فیصلہ بڑا فیصلہ ہے پی ٹی آئی سے فیض حمید کے روابط اگر سامنے آگئے تو بہت کچھ بدل جائیگا سنا ہے فیض حمید کے آئی فون سے بھی کچھ معلومات ملی ہیں اور چکوال سے دو چار دیگر ریٹائرڈ افسران بھی شامل تفتیش ہیں، اتنا خطر ناک کھیل شائد کسی ڈی جی آئی ایس آئی نے نہیں کھیلا ہوگا، اب موقع ملا ہے تو اس گند کو صاف ہو جانا چاہیے۔