جہلِ خرد نے دن یہ دکھائے ۔۔۔۔!

جہلِ خرد نے دن یہ دکھائے ۔۔۔۔!

پرانی کہاوت ہے:
اندھا بانٹے ریوڑی اپنے اپنوں کو دے
پاکستان پر حکمراں جسے اشرافیہ کے نامِ نامی سے یاد کیا جاتا ہے ان میں نام کے شریف تو بہت سے ہیں لیکن اصل کردار اور خاندانی پس منظر کے ساتھ شاید ہی کوئی ایسا جوہر ملے جسے واقعی شریف یا صاحبِ کردار کہا جا سکتا ہو!
لیکن ان میں جنہیں پاکستان کے اصل حکمرانوں نے پاکستانی عوام اور جمہور کے مینڈیٹ پر، جو عمران خان اور تحریکِ انصاف کے حق میں تھا، لیکن جس پر جرنیلوں کے اس بد دیانت اور ملت فروش ٹولہ نے ڈاکہ ڈالا جس نے پاکستانی افواج کو فی زمانہ جتنا رسوا اور بدنام کیا ہے اس کی پاکستان کی داغدار تاریخ میں بھی مثال نہیں ملتی۔
تو قصہ مختصر کہ جن چھٹ بھیوں کو رسوائے زمانہ چور، شہباز شریف کی قیادت میں ، عاصم منیر اور اس کے شر پسند ٹولہ نے پاکستان کے چوبیس کروڑ جمہور پر مسلط کیا ہوا ہے، ایک سے ایک مادر زاد اندھا ہے، آنکھوں سے نہیں بلکہ عقل و فہم و خرد کے اعتبار سے۔
لیکن ان کور مادر زاد اندھوں اور علم و بصیرت سے عاری نوسر بازوں نے اس حالیہ یومِ آزادی پر پاکستان کے سول اعزازات کی جو بندر بانٹ کی ہے اس نے نہ صرف ان جاہلوں کی عقل و بصیرت سے محرومی کو آشکار کیا ہے بلکہ یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ ان کے تاریک ذہنوں میں، جہاں علم کی روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی، پاکستان کے سول اعزازات کیلئے کتنی تحقیرہے اور ادب و احترام کا کتنا فقدان پایا جاتا ہے!
اعزاز بانٹنے والوں کی علمیت اور قابلیت کا بھرپور ادراک تو مریم نواز، جنہیں لندن پلان پر عمل کرتے ہوئے یزیدی ٹولہ کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے ملک کے سب سے بڑے صوبے کی سربراہی سونپ دی ہے اور ایسی سونپی ہے کہ اب لوہار نواز شریف کی بیٹی بھی بزعمِ خود پنجاب کی اسی طرح بے تاج ملکہ سمجھنے لگی ہیں جیسے بنگلہ دیش کی معزول وزیر اعظم، حسینی واجد اپنے پندرہ سالہ طویل دورِ اقتدار میں بن بیٹھی تھیں!
کہا جاتا ہے کہ دیگ کا ایک چاول دیکھ کر یہ بتایا جاسکتا ہے کہ اس میں جو پک رہا ہے اس کا ظرف کیا ہے۔ تو رانی مریم نواز کی تعلیمی قابلیت پر وہ جو ایک ویڈیو پاکستان میں اور دنیا بھر میں وائرل ہوگئی اس میں وہ ایک جملہ بھی، انگریزی میں نہیں بلکہ اُردو میں، درست املا کے ساتھ لکھنے سے معذور رہیں۔
لیکن وہ جو ایک اور کہاوت ہے کہ ” جو پیا من بھائے وہی سہاگن” تو مریم نواز اور ان ہی جیسے لائق و فاضل سیاسی لوٹوں کا ٹولہ اپنے عسکری سرپرستوں کی عنایت سے پاکستان پر حکمرانی کر رہا ہے اور قوم کے سینے پر مونگ دل رہا ہے۔
تو ایسے لوگوں کے دلوں میں پاکستان کے سول اعزازات کا احترام نہ ہونا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن ان اعزازات کی جو کھلی توہین اور بے عزتی ان نوسر بازوں نے اس یومِ آزادی پر کی ہے وہ انتہائی قابلِ مذمت ہونے کے علاوہ مجرمانہ حرکت ہے جس پر اگرپاکستان میں قانون کی حکمرانی ہوتی تو ان خائنوں پر ملک و قوم کی توہین کرنے کے الزام میں کھلی عدالت میں مقدمہ چلنا چاہئے تھا۔ لیکن بد قسمتی تو پاکستان کی یہ سب سے بڑی ہے کہ اس کے مالک و مختار ملت فروش جرنیل اور ان کے نوسر باز سیاسی گماشتے ہیں!
جن اعزازات کا اعلان کیا گیا ہے ان میں بکثرت وہ لوگ ہیں جو حکمرانوں اور ان کے سرپرست جرنیلوں کے کاسہ لیس واقع ہوئے ہیں۔
لیکن دو نام وہ ہیں جن پر اعزاز سے نوازنے والوں کا مواخذہ ناگزیر ہوجاتا ہے۔
ایک تو وہ انور مجید نام کا بیوپاری ہے جو پورا پاکستان جانتا ہے کہ ڈکیت زرداری کا فرنٹ مین یا عرفِ عام میں دلال ہے۔ یہی وہ شخص ہے جس کے ذریعہ ڈکیت زرداری نے اربوں روپے کی خرد برد کی، سینکڑوں جعلی یا فرضی بنک اکاؤنٹ اسی دلال کے نام پر کھولے اور بند کئے گئے جن میں زرداری نے اربوں روپوں کا گھپلہ کیا اور ملک سے لوٹی ہوئے کالے دھن کو دبئی اور درجنوں ایسی جگہوں پر منتقل کیا جو بدمعاشوں اور جعلسازوں کی جنت کہلاتی ہیں۔
زرداری کے اس دلال کو اس کے کارناموں پر "ہلالِ امتیاز” سے نوازا جائے گا! اے سبحان اللہ۔ پاکستان میں چوری اور ڈکیتی بھی کارِ امتیاز ٹھہرے ہیں۔
دوسرا ایک ایسا ہی نوسر باز ہے، عمر فاروق نام کا۔
یہ وہ گماشتہ ہے جس نے دعوی کیا کہ عمران خان نے وہ گھڑی جو سعودی ولی عہد نے اسے تحفہ میں دی تھی کئی ملین ڈالر میں اس بدمعاش کے ہاتھ فروخت کی۔
یہ عمر فاروق فوج کے جرنیلوں، خاص طور پہ یزید عاصم منیر کا دلال ہے۔ اسی کے بیان پر عمراں خان کے خلاف توشہ خانہ کے عنوان سے مقدمہ بنایا گیا۔ اس مقدمہ میں سے تو کیا نکلنا تھا۔ کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا کے مصداق عمران کے خلاف اس کے دشمن خیانت یا بے ایمانی ثابت کرنے سے قاصر رہے۔ لیکن گماشتہ اور دلال عمر فاروق کو بھی یزیدی حکم پر "ہلالِ امتیاز” سے نوازا جارہا ہے۔
ایک دلال اگر عاصم منیر کا اعزاز پاسکتا ہے تو پھر پاکستان کو برباد کرنے والے سیاسی مہروں کا بھی تو حق بنتا ہے کہ ان کا بھی ایک دلال اعزاز و اکرام سے نوازا جائے۔ سو حساب برابر ہوگیا: ایک دلال عاصم منیر کا تو دوسرا زرداری کا۔
دنیا میں جہاں قانون کی پاسداری ہوتی ہے، آئین کا احترام و تقدس ہوتا ہے، وہاں صرف ان افراد کو قومی اعزازات سے نوازا جاتا ہے جنہوں نے ملک کا نام روشن کیا ہو، کوئی ایسا کارنامہ سر انجام دیا ہو جس پر ملک و قوم کا سر دنیا میں فخر سے بلند ہوجائے۔ جیولن تھرو کا پیرس اولمپکس میں طلائی تمغہ جیتنے والا ارشد ندیم بلا شبہ ہر قومی اعزاز کا جائز حقدار ہے۔
اور ارشد کے طلائی تمغہ جیتنے پر جو مبارکباد کٹھ پتلی وزیر اعظم (ایک چور کو وزیرِ اعظم کہنا وجدان پر کتنا گراں گذرتا ہے یہ کوئی ہم سے پوچھے) شہباز شریف نے اپنی زبان سے دی اس نے پاکستانی قوم کا سر شرم سے جھکادیا۔ شہباز اتنا جاہل، اتناان پڑھ ہے، کہ اس کیلئے "تمغہ” کہنا دشوار ہوگیا۔ تمغہ کے بجائے وہ مسلسل "تغمہ” کہتا رہا۔
جنوں کا نام خرد رکھ دیا خرد کا جنوں
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے!
تو ظاہر ہے کہ جس ملک میں قانون کی دھجیاں وہ بکھیرنے والے ہیں جو بزعمِ خود ملک کی نظریاتی اور زمینی سرحدوں کے محافظ ہیں تو پھر ایسی ہی جہالت، بد دیانتی اور بے ایمانی کا راج ہوگا۔ قومی اعزازات چوروں بدمعاشوں کے نام ہونگے اور ملک کی تقدیر ان ہاتھوں میں رہی گی جو علم و بصیرت سے قطعا” محروم ہیں۔یہ ساری ابتری، یہ انتشار اس وجہ سے ہے کہ پاکستانی فوج کے بدمست جرنیلوں کے منہ کو بلا شرکتِ غیرے ملک پر حکمرانی کرنے کا لہو لگا ہوا ہے۔
پاکستانی عسکری طالع آزماؤں کی تاریخ بھی اتنی ہی سیاہ اور داغدار ہے جتنی پاکستانی عدلیہ کی۔ اور ملک کی خرابیء تقدیر کا اس سے بڑھ کر اور کیا المیہ ہوگا، کیا نوحہ ہوسکتا ہے، کہ اس دور میں عسکری قیادت عاصم منیر اور عدلیہ کی سربراہی فائز عیسٰی جیسے بے ضمیروں کے قبضہ میں ہے۔ یہ وہ دو ملت فروش ہیں جو پاکستان کو عمران خان کی دشمنی اور ان کی اپنی ہوسِ حکمرانی کے ہاتھوں مکمل تباہی اور بربادی کے کھڈ کے اس کنارے پر لے آئے ہیں جہاں ایک غلط قدم وہاں گرادیگا جہاں سے نکلنا ناممکن ہوجائے گا!
پاکستان کی معاشی زبوں حالی کو دیکھتے ہوئے دنیا کی معروف ملٹی نیشنل کارپوریشنیں پاکستان میں اپنا کاروبار یا تو بند کر رہی ہیں یا فروخت کررہی ہیں۔
بجلی کے نرخ پورے جنوبی ایشیائی خطہ میں سب سے زیادہ پاکستان میں ہیں جس سے صنعتیں متاثرہورہی ہیں، ٹھپ ہورہی ہیں۔
پاکستان کی سب سے بڑی صنعت کپڑے کی ہے لیکن جب سے جرنیلوں کی تابع فرمان کٹھ پتلی حکومت اقتدار پہ قابض ہوئی ہے صرف فیصل آباد میں، جو کپڑے کی صنعت کا مرکز ہے، سو سے زائد کارخانے بند ہوچکے ہیں جس سے لاکھوں مزدور روزگار سے محروم ہوگئے ہیں۔ ہر مزدور کے کنبے میں کتنے افراد ہوتے ہیں یہ معمولی حساب ہے جو کوئی بھی لگا سکتا ہے۔ کڑوڑوں افراد مزید غربت کی لکیر کے نیچے پہنچ گئے ہیں۔
عمران اور سوشل میڈیا کی دشمنی سے اندھے جرنیلوں نے کنگال ملک کے خزانے سے بیس ارب روپے کے صرفہ سے اسرائیل سے انٹر نیٹ کو کنٹرول کرنے کیلئے ایک "فائر وال” یا آگ کی دیوار پاکستان میں نصب کی ہے جس نے ملک بھر میں انٹرنیٹ کی سروس کو تو الگ متاثر کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ لاکھوں نوجوانوں کے روزگار پر بھی لات ماری ہے۔
اس منتقامانہ کارروائی کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ پاکستانی نوجوان اپنی انٹرنیٹ اور سائبر کی لیاقت اور استعداد سے جو پیسہ ملک کیلئے کما رہے تھے اس پر عاصم منیر جیسے یزید نے ڈاکہ ڈالا ہے۔ تاحال پاکستان 300 ملین ڈالر کا نقصان اٹھا چکا ہے اور اگر یہی روش برقرار رہی تو آنے والے دنوں اور مہینوں میں یہ نقصان اربوں ڈالر تک پہنچ جائے گا!
پاکستان سے سرمایہ اور کاروبار بیرونِ ملک منتقل ہورہا ہے اسلئے کہ پاکستان کے فوجی اور نوسرباز اور ان کے سیاسی مہرے پاکستانی تاجروں کیلئے اپنی جہالت کے سبب زمین تنگ کرتے جارہے ہیں۔
دبئی کے چیمبر آف کامرس کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اس سال کے پہلے نصف، یعنی ابتدائی چھ مہینوں میں تقریبا” چار ہزار پاکستانی تجارتی اداروں نے دبئی میں اپنے آپ کو رجسٹر کروایا ہے۔ یہ تعداد گذشتہ سال کے مقابلہ میں 17 فیصد زیادہ ہے۔
لاکھوں پاکستانی نوجوان، پڑھے لکھے نوجوان، مریم نواز یا شہباز شریف کی طرح ان پڑھ یا جاہل نہیں، ملک سے باہر نکلنا چاہ رہے ہیں اسلئے کہ پاکستان میں ان کیلئے سانس لینا بھی دشوار ہوتا جارہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ سے زائد پاسپورٹ بننے سے محروم یوں ہیں کہ جس کاغذ کا پاسپورٹ بنانے میں استعمال ہوتا ہے وہی نہیں ہے!
لیکن عاصم منیر اور فائز عیسٰی کے تاریک ذہنوں پر صرف اور صرف انتقام کا جذبہ راج کر رہا ہے۔ عمران خان ان کیلئے ایک ایسا آسیب بن گیا ہے جس سے وہ چھٹکارا پانا چاہتے ہیں، اور یہی ان کی ابلیسی فطرت کا خواب ہے، لیکن عمران تو پاکستانی عوام کیلئے دن بہ دن اور زیادہ نجات دہندہ کا روپ اختیار کر رہا ہے اور یہ ان سفلہ طالع آزماؤں اور ہوسِ اقتدار کے ماروں کیلئے ایک ڈراؤنا خواب بن گیا ہے!
ایسے اعصاب شکن ماحول میں پاکستان کی اپنوں کے ہاتھوں ستائی ہوئی قوم کے افراد نے کیا یومِ آزادی منایا ہوگا؟
یہ خیال ان دنوں ہمیں بہت ستاتا بھی رہا ہے اور ہم سے سوال بھی کرتا رہا ہے اور ہم یہ سوچ سوچ کر بھی بہت کڑھتے رہے ہیں کہ عالمِ بالا میں پاکستان کا خواب دیکھنے والے حکیم الامت ، علامہ اقبال، اور پاکستان بنانے والے بابائے قوم، حضرت قائدِ اعظم کی روحیں کتنی پریشان نہ رہتی ہونگی؟
تو یہ چار مصرعے پڑھئے جو اس ذہنی کیفیت اور پژمردگی کے ماحول کی عکاسی کرتے ہیں اور ہمیں اگلے ہفتے تک کیلئے اجازت دیجئے:
یاد دلواتا بہت کچھ ہے یہ آزادی کا دن
کیا ہوا وہ عہد، وہ میثاق جو ہم نے کیا
کھوگئی منزل کہاں اے قوم تیری، یہ بتا
یہ وہی دن ہے سفر آغاز جب تم نے کیا!

kamran