اسرائیل کی معاشرتی شکست و ریخت!

کسی بھی ملک کے اقتصادی اور معاشرتی حالات کا اندازہ اسکے نیوز میڈیاسے لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن ذرائع ابلاغ کا ایک بڑا حصہ اگر اپنے مالکان اور سرمایہ دار طبقے کے مفادات کے تحفظ کے لیے جھوٹ بول رہا ہو تو پھر سچ کہاں تلاش کیا جائے؟ اسکا آسان جواب سوشل میڈیا ہے۔ لیکن اسرائیل کا سوشل میڈیا بھی اخبارات اور ٹیلیویژن چینلز کیساتھ ملکرایسی خبریں دے رہا ہے جسے حکومت مخالف تجزیہ نگار فیک نیوز کہہ رہے ہیں۔ دنیا کو اسرائیل اور فلسطین کے بارے میں حقائق بتانے کے لیے چند یورپی اور عرب دانشوروںنے جرمنی میں فروری 2001 میں The Electronic Intifada کے نام سے ایک نیوز چینل قائم کیا تھا۔ چند روز پہلے ایک اسرائیلی ماہر معاشیات Shir Hever نے اس چینل کو دیے گیے انٹرویو میں کہا کہ ہزاروں کی تعداد میںسرمایہ دار‘ہائی ٹیک پروفیشنلزاور انجینئرز اسرائیل چھوڑکر جا چکے ہیں۔ یہ لوگ کسی ایسے ملک سے اپنا مستقبل وابستہ نہیں کرنا چاہتے جو ایک طویل جنگ میں الجھا ہوا ہو۔شیر حیور جو چند ماہ پہلے اسرائیل سے نقل مکانی کر کے اپنے خاندان سمیت جرمنی میں رہائش پذیر ہو ئے ہیںنے کہا ہے کہ کسی ایسے ملک میں کیسے رہا جا سکتا ہے جس پر Genocide(نسل کشی) اور Ethnic Cleansing (کسی نسلی گروہ کا خاتمہ) جیسے الزامات لگے ہوے ہوں ۔ جسکے وزیر اعظم کے خلاف انٹرنیشنل کریمینل کورٹ نے گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے ہوں اور جس سے اقوام عالم کی اکثریت نفرت کرتی ہو۔ شیر حیور نے کہا کہ اس جنگ کے آغاز ہی سے پاسپورٹ دفتر وں کے باہر طویل قطاریں لگی ہوئی ہیں۔
اسرائیلی دانشور کی رائے میںاسرائیل کے معاشرے میں ہونے والی توڑ پھوڑ کو مغربی میڈیا نے چھپایا ہواہے۔ ایک گھنٹے کے انٹرویو میں اسرائیلی معیشت دان نے کہا کہ تجارت کم ہو چکی ہے‘ سٹاک مارکٹ تنزل کا شکار ہے‘ تعمیراتی کام رکے ہوئے ہیں اور زراعت‘ انڈسٹری اور پولٹری فارم کے کاروبار ٹھپ ہو چکے ہیں۔ ہر روز غزہ سے آنیوالے راکٹ گھروں اور عمارتوں کو تباہ کر رہے ہیں۔ شیر حیور نے کہا کہ ہزاروں ڈاکٹرز‘ نرسیں‘ انجینئرز‘ الیکٹریشن اور ڈرائیور میدان جنگ میں فوج کی مدد کر رہے ہیں۔ ڈاکٹروں کی کمی کے باعث ہزاروں مریض علاج کی سہولت سے محروم ہیں۔ تعمیراتی کاموں میں تعطل کی ایک بڑی وجہ ویسٹ بینک کی فلسظینی لیبر فورس کا میسر نہ ہونا ہے۔ اسرائیل کے سب سے بڑے شہر تل ابیب کو فلسطینی مزدوروں نے بنا یا تھا لیکن اب جنگ کی وجہ سے انہیں ورک پرمٹ دینے بند کر دیے گیے ہیں۔یہ محنت کش کام کاج نہ ہونے کی وجہ سے فاقہ کشی کا شکار ہیں۔ حکومت کا خیال تھا کہ انڈیا اور افریقی ممالک سے ایک بڑی تعداد میں مزدور آ جائیں گے مگر اب اسے پتہ چلا ہے کہ ایک جنگ زدہ ملک میں کوئی بھی نہیں آنا چاہتا۔
پروگرام کی میزبان نے شیر حیور سے اسرائیل کی ملٹری ڈاکٹرئن کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ اسرائیل کی کوئی ڈاکٹرائن نہیں ہے۔ What we have is a collapse of Israeli society. It is a social collapse. It is also psychological collapse and it has to do with the fact that Israelis have lost connection with reality. ترجمہ: اسرائیلی معاشرے کی شکستگی ہمارے سامنے ہے۔ یہ ایک معاشرتی شکستگی ہے۔ یہ نفسیاتی شکستگی بھی ہے اور اسکا تعلق اس بات سے ہے کہ اسرائیلی عوام کا حقائق سے کوئی واسطہ نہیں رہا۔
اسرائیل کے ایک بڑے اخبار Haaretz نے لکھا ہے کہ اپنی مادر وطن کا دفاع کرنے میں فلسطینی دنیا کی بہترین قوم ہیں۔ اخبار کے ایڈیٹر نے لکھا ہے’’ میں ایک یہودی کی حیثیت سے اسرائیلیوں کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ یہ ثابت کریں کہ اس سرزمین سے انکی اتنی وابستگی ہے اور اسمیں انکی اتنی جڑیں ہیں جتنی کہ فلسطینیوں کی ہیں۔ ہمارے لوگوں کو اگر اس سرزمین سے محبت ہوتی تو ہمارے ائیر پورٹوں پر ملک چھوڑ کر جانے والوں کی قطاریں نہ لگی ہوتیں۔ہم نے فلسطینی قتل کیے‘ قید کیے‘ ان پر بے پناہ مظالم ڈھائے۔ ہم نے انہیں منشیات کا عادی بنایااور جنسی عیاشی کی ترغیب دی اور پھرہم نے دیکھ لیا کہ ایک نشے کا عادی فلسطینی بھی الاقصیٰ مسجد کے لیے ایسے اللہ اکبر کے نعرے لگا رہا ہے جیسے وہ اسکا امام ہو۔ ‘‘ Haaretz کے ایڈیٹر نے لکھا ہے’’ اب جبکہ تل ابیب کے لوگوں نے مزاحمت کے راکٹوں کا مزہ چکھ لیا ہے تو اب انہیں گریٹر اسرائیل کے پر فریب خواب سے دستبردار ہو جانا چاہیے۔ اب ہمارے ہمسائے میں ایک ایسی فلسطینی ریاست ہونی چاہیئے جسکے ساتھ ہم امن سے رہ سکیں۔ اب یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں اس سرزمین پر مزیدچند سال رہنے کی مہلت دے سکتا ہے۔ ہم نے ایسا نہ کیا تو فلسطینی پیدا ہوتے رہیں گے اور ہماری طرف آتے رہیں گے اور پھر ایک دن ایسا بھی آئے گا جب وہ گھوڑوں پر بیٹھ کر آئیں گے اور تل ابیب ہم سے لے لیں گے‘‘