ہفتہ وار کالمز

بغاوت

بغاوت کی بنیاد difrence of opion ہوتا ہے جسے انتہا پسند ذہن بات چیت کے دروازے لپیٹ کر احتجاج کی صورت حملہ آور ہونے کی منصوبہ بندی سے بھی گریز نہیں کرتے اپنی ہی ریاست کے خلاف ملکی شہریوں کا بد ظن ہونا مجھے عجیب اس لئے لگتا ہے کہ فوج میں موجود فوجی اسی ملک کے بیٹے اور بھائی ہوتے ہیں جو نوکری کی تنخواہ دیگر اداروں کے ملازمین کی طرح لیتے ہیں مگر فوج منفرد حیثیت اس لئے رکھتی ہےکہ وہ اپنی ریاست اور قوم کی حفاظت کے اپنی جانوں کے نذرانے دینے سے دریغ نہیں کرتی دیگر اداروں کی حب الوطنی پر بغیر کسی شک و شبے کے اعتماد کیا جا سکتا ہے مگر فوج وہ واحد ادارہ ہےجو تنخواہ کے بدلے میں ریاست کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے سے دریغ نہیں کر تے ۔ ایسی ہی ایک بغاوت نے نیپال میںبھی جنم لیا جو حکومتی نااہلیوں ،بدعنوانیوں اور خصوصی طور پر سوشل میڈیا پر پابندی کی وجہ سے پیدا ہوئی۔نیپالی حکام کے مطابق گزشتہ ہفتے نیپال کی حکومت نے فیس بک سمیت کئی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اس وجہ سے پابندی لگائی کہ وہ رجسٹریشن قوانین کی خلاف ورزی اور جعلی اکائونٹس کے ذریعے نفرت انگیزی ،جھوٹی خبریں اور فراڈ پھیلانے میں استعمال ہو رہے تھے یوں اس پابندیوں کو روکنے کے لئے جوان نسل جذبہ شباب میں فوج کے سامنے کھڑی ہو گئی غیر مساوی غیر منصفانہ معاشی پالیسیاں بھی عوامی اشتعال کو بھڑکانے کا سبب بنیں احتجاج جب اپنے حدود سے تجاوز ہوا تو نتائج دنیا کے سامنے آگئے کہ جمہوری نظام ِ حکومت کا خاتمہ ہوا اور فوج نے کنٹرول سنبھال لیا ہے کالم کے شائع ہونے تک عبوری وزیر اعظم مسند نشین ہو چکے ہونگے غور کریں تو اس سارے عوامی احتجاج جس نے بغاوت کی حدیں بھی توڑیں مگر کامیاب نہیں ہوا ۔نیپالی فوج کی دفاعی کاروائیوں سے وہ طبقہ مکمل پسپا ہوا جو سوشل میڈیا پر اداروں کے خلاف نفرت بذریعہ جھوٹی خبروں کو پھیلا رہا تھا وطن ِ عزیز میں بھی یہ کھیل کھیلا گیا اور سوشل میڈیا پر ابھی بھی اپنی باغیانہ سوچ کے ذریعے جھوٹی خبروں اور انتشار پھیلانے کے عزائم لئے ہوئے ہیںجسے بغاوت کہنا غلط ہر گزنہیں ہے جیسے محبتوں کے جذبات سے لبریز جب کوئی بیشعور جوان جوڑا اپنی من مانی کرتے ہوئے اپنے والدین خاندان کے مزاج کے خلاف کوئی قدم اٹھاتا ہے تو وہ بھی بغاوت کے زمرے میںہی آتا ہے میں یہ سمجھتا ہوں کہ کسی سچائی سے منہ موڑنا ،اُسے نظر انداز کرنا بغاوت ہوتی ہے مذہبی احکامات ہوں یا ملکی قوانین ان کا احترام اپنی جگہ لیکن ان قوانین کو عملی زندگی میں اپنانا ہی دینی و دنیاوی راحتوں سے مستفید ہونا ہے مگرہم اپنے مفادات کے لالچ میںاپنی ماں بہنوں بیٹیوں کی وراثت کے حصوں کو صرف ہڑپ ہی نہیں کرتے بلکہ اس جرم پر کسی قسم کی تنقید کو اعتراضات کو توہین سمجھ بیٹھتے ہیں جس سے کشیدگیاں جنم لیتی ہیں ہماری ایسی معاشرتی روایات جو انسانی حقوق پہ ڈاکہ زنی کرنے کےمترادف ہوتی ہیں انھیں کر گزرتے ہیں اور یہ احساس ہی نہیں کرتے کہ ہم دنیاوی قوانین اور احکام ِ خداوندی سے بغاوت کے مرتکب ہو چکے ہیں راوی نے بغاوت کے ایسے کئی مجرموں کو ایسی وارداتوں میں کامیابی ملنے کے بعد حج و عمرے کرتے بھی دیکھا ہے ماضی میں ایک قوم کو دوسری اقوام سے لڑتے تاریخ کے آئینے میں تو دیکھا مگراس عالم ِ حیراںمیں خواندگی کی بلند فشار لہروں کی موجودگی میں بغاوت کے ایسے مناظر دیکھنے کو ملے جو ابھی تک دلی یقین سے ہم آہنگ نہیں ہوتے پاکستانی عوام کو پاک فوج کے خلاف اُکسا کر انھیں سوشل میڈیا کا میدان فراہم کرنا اُن دشمن قوتوں کی کارستانیاں ہیں جو اس ارض ِ پاک کو کسی صورت معاشی و دفاعی سے مستحکم ہوتا نہیں دیکھ سکتے ضرب المثل اسی حوالے یاد آئی کہ گھر کی کتی چوروں سے مل جائے تو گھر محفوظ نہیں رہتا پاکستان ایسی ہی صورت حال سے گزر رہا ہے جسکے سدباب کے لئے حکومت پاکستان سائبر کرائم کے تحت اپنی تفتیش جاری رکھے ہوئے ہے کہ ریاست مخالف پروپیگنڈہ کرنے میں کن کن شرپسندوں کو بیرونی و اندرونی دشمنوں کی آشیرباد حاصل ہے سوشل میڈیا پر پھیلے ان بغاوت کرنے والے عناصر کو قرار واقعی سزائیں دینا انتہائی لازمی امر ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button