یومِ عاشورہ پرزرداری اور شہباز کے منافقانہ بیانات نے ایک دفعہ پھر موجودہ جعلی حکومت کو ننگا کردیا!

پچھلے اتوار کو پاکستان بھر میں یومِ عاشورہ روایتی جذبے اور امام حسین ؑ کے فلسفہ شہادت کے ساتھ منایا گیا۔ اس موقع پر صدرِپاکستان آصف علی زرداری اور وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے بھی جانا کہ انہیں بھی ایک ایک عدد بیان جاری کرنا چاہیے، چاہے وہ لاکھ وہ خود ان کی بے عزتی اور ہزیمت پر ہی باعث ندامت کیوں نہ ہو۔ شہباز شریف نے اپنے پیغام میں کہاکہ ’’حق کا راستہ کٹھن اور دائمی حق کا راستہ بنتا ہے، اگر ہم معرکہ کربلا کی روشنی میں اپنا راستہ متعین کریں تو پاکستان ایک فلاحی اور خودار ریاست بن سکتا ہے۔ یہ دن ہمیں حق کے اصولوں پر ڈٹے رہنے کی مثال اور درس دیتا ہے‘‘۔ آصف زرداری نے یوم عاشور پر پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ’’واقعہ کربلا ہمیں عزم، قربانی اور حق گوئی کا درس دیتا ہے۔ کربلا ہردور کے اندھیروں میں حق کا راستہ دکھانے والا روشن چراغ ہے‘‘۔
ان دونوں جعلی اور نقلی افراد کے پیغامات سے پاکستانی عوام کے سامنے چند حقائق مزید واضح، مستحکم اور درست ثابت ہو گئے۔ ایک بات تو یہ کہ یہ دونوں افراد ذہنی طور پر مفلوج ،معذور اور قطعاً بے ضمیر ہو چکے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ کہ یہ دونوں آج بھی ملک کے عوام کو بیوقوف اور احمق سمجھتے ہیں کہ عوام الناس کے پاس کوئی کامن سینس اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ ایک طرف یہ کہہ رہے ہیں کہ کربلا ہمیں حق اور اصولوں پر ڈٹے رہنے کا درس دیتا ہے لیکن یہ خود اس وقت باطل اور وقت کے یزید جنرل حافظ سید عاصم منیر شاہ کے ساتھی اور ہم رکاب بنے ہوئے ہیں اور اس وقت جوپاکستان میں فسطائیت کا دور دورہ ہے وہ اس پارٹنر شپ میں برابر کے شریک ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کربلا ہر دور کے اندھیروں میں روشنی دکھانے والا چراغ ہے مگر چراغ تلے اندھیرا یہ ہے کہ آپ سب لوگ آج اندھیروں اور رات کے راہی بنے ہوئے جن کے خلاف امام ؑ مظلوم نے جدوجہد کی اور اپنا تمام گھرانہ قربان کر دیا مگر آپ آج کے یزیدنو کے ساتھ مل کر اپنے پورے خاندان کو فیض یاب کررہے ہیں۔
اگر آج کے اس پرآشوب اور فسطائیت اور ڈکٹیٹر شپ کا موازنہ اس دور کے واقعہ کربلا سے کیا جائے تو کافی چیزیں اور حالات میں قریبی مماثلت پائی جاتی ہے۔ یزید ابن معاویہ کی فوج میں بے شمار ملا، قاری اور حافظ شامل تھے اور آج کا یزید تو خود ہی حافظ ہونے کا دعویدار ہے۔ یہاں ہم بچپن کی ایک اپنی خوش فہمی بھی آپ کو بتاتے چلیں محرم کی مجالس اور محافل میں واقعہ کربلا کے حوالے سے تقاریر اور بات چیت سننے کے بعد اور زرداری اور شہباز جیسے سرکاری عہدیداروں کے یزید کے خلاف پیغامات سننے کے بعد نہ جانے کیوں ہم نے یہ خود کو باور کرالیا تھا کہ امام ؑ مظلوم علیہ السلام اور ان کے بہتر رفقاء مسلمان تھے اور یزید اور اس کی ظالم فوج کافر تھے۔ جب ذرا بڑے ہوئے اور عقل آئی تو ہم پر حیران کن انکشاف ہوا کہ کربلا کے دونوں اطراف مسلمان ہی مسلمان تھے اور ایک دوسرے کو ذبح کررہے تھے اور آج بھی پاکستان میں جو مظالم ڈھانے والے عاصم اینڈ ٹولہ ہے وہ بھی مسلمان ہے اور جومظلوم ڈی چوک میں سروں پر براہ راست گولیاں کھا کر مر رہا ہے وہ بھی مسلمان ہے۔ مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں طرف کے مرنے والے لوگوں کو شہید کیا جارہا ہے یعنی کہ جو فوجی یا رینجرز کا بندہ اپنے ہی ٹرکوں کےتلے کچلا جاتا ہے وہ بھی شہید ہے اور جو فوج کی گولیوں کا نشانہ بن کر مرتا ہے وہ بھی شہید ہے، یعنی جس طرح سے سب نے اپنی اپنی مسجدیں بنا رکھی ہیں اسی طرح سے سب نے اپنے اپنے شہید بنا رکھے ہیں وگرنہ تو ہم بچپنے میں سنتے آئے تھے کہ پاکستان کی فوج کی گولیوں سے جو نان مسلم ماراجاتا ہے تو وہ ہلاک کہلاتا ہے اور کافر کے ہاتھوں پاکستانی فوجی مارا جاتا ہے تو وہ شہید کہلاتا ہے۔
دوسری بات جو دورِ یزیدی اور آج میں مشترکہ ہے وہ یہ کہ یزید ابن معاویہ نے بھی ملائوں اور قاضیوں کو اپنے ساتھ ملایا ہوا تھا اور آج کے یزید نے بھی عدلیہ اور مولویوں کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے، قاضی لعنتی اور مولانا ڈیزل کی مثالیں آپ کے سامنے ہیں۔ اس وقت فیلڈ مارشل نے ملک میں جو غیر اعلانیہ مارشل لاء لگایا ہوا ہے اور لوگوں کی آواز گلے سے بند کی ہوئی ہے اس کے ڈر سے کوئی ملا کچھ نہیں بول رہا ہے اور نہ ہی کوئی جج یا وکیل آواز بلند کرنے کو تیار ہے۔ یزید بن معاویہ نے جھوٹی روایتیں اور واقعات گھڑنے کیلئے جھوٹے راویوں کی ایک فوج تیار کی ہوئی تھی اور لوگوں کو یہ باور کرایا گیا تھا کہ امام حسین ؑ اور ان کے ساتھی ریاست مخالف باغیوں کا ایک گروہ ہے جس کے خلاف کربلا میں تادیبی کارروائی کی گئی ہے۔ وہ تو بقیہ مسلمانوں کو اس وقت پتہ چلا جب حضرت زینب بنت علی نے شام میں یزید کے دربار میں اپنا انقلابی خطبہ دیا اور پھر شہر شہر جا کر انفارمیشن عام مسلمانوں کو بتانے کیلئے مجالس کیں جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ آج کے یزید نے بھی ملک کے سارے میڈیا کواپنے قابو میں کیا ہوا ہے اور ہر نیوز چینل پر ایک بریگیڈیئر اور فوجی ٹائوٹس بٹھا رکھے ہیں جو نہ صرف ملک میں بلکہ ہیوسٹن میں بھی پاکستان سینٹر میں آ جر جھوٹا پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہیں لیکن یہ بات شاید ان کے علم میں نہیں کہ یزید بن معاویہ کے زمانے میں سوشل میڈیا نہیں تھا لیکن آج کا یزید عاصم منیر ابن سرور منیر شاہ وہاں پر مات کھا رہا ہے۔ کربلا میں یزید بن معاویہ جیت کر بھی ہار گیا اور آج اس کی قبر پر کوئی تھوکنا بھی نہیں چاہتا اسی طرح سے عاصم منیر بن سرور منیر شاہ کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اسی طرح سے پاکستان کے ایک فوجی ڈکٹیٹر ضیاء الحق کا کیا انجام ہوا تھا اور آج اس کی قبر بھی موجود نہیں ہے صرف اسلام آباد میں ایک جبڑہ چوک کے نام سے ایک بس سٹاپ ہے وہ زبان پر آتا ہے۔ زرداری فیملی، شریف فیملی اور عاصم منیر شاہ فیملی کاانجام بھی ہمیں کچھ اچھا نظر نہیں آتا۔ کوئی بعد نہیں کہ فیلڈ مارشل کے اقتدار سے اترنے کے بعدان کی اہلیہ ارم عاصم کی ماہواری کے چرچے میڈیا پر نظر آئیں گے، بشریٰ بی بی کی طرح سے کیونکہ وقت بہت ظالم ہوتا ہے۔