ہفتہ وار کالمز

پاکستانیوں،بچوں پر ظلم نہ کریں؟

بچوں کو کیوں بچائیں؟ آخر انہیں ہو کیا رہا ہے؟ بچے تو سب کی آنکھ کا تارا ہوتے ہیں۔ ان کا خیال کون نہیں رکھتا؟ کیا کہا، ان کے والدین؟ یہ کو نسے والدین ہیں؟ ان کی سرزنش ہونی چاہیئے۔جی۔ بجا فرمایا آپ نے۔ریاست؟ ریاست کا کیا تعلق ہے بچوں سے؟ جی بہت گہرا تعلق ہے، خصوصاً غریبوں کے بچوں سے۔ریاست ہی تو ہے جو ان کی بنیادی تعلیم کی ذمہ وار ہوتی ہے۔اور ان کی صحت اور بہبود کی۔اچھا تو مسئلہ کیا ہے؟ ہمارے بچے تو ماشاللہ اچھا کھاتے اور اچھا پہنتے ہیں۔ اچھے سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ عوام کا کیا مسئلہ ہے؟سر جی۔پاکستان کی پچیس کروڑ کی آبادی ہے۔ نصف کے قریب آبادی دیہات میں رہتی ہے اور باقی شہروں اور قصبوں میں۔
چلیے، ذرا حقائق معلوم کریں۔ سن 2018 میں، منسٹری آف نیشنل ہیلتھ سروسز کے نیوٹریشن ونگ نے ایک قومی نیوٹریشن سروے کروایا، جس میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوںکی تقریباً ستر ہزار مائوں اور دیکھ بھال کرنے والی خواتین سے استفسار کیا گیا۔ ان میں سے، دو سال سے کم عمر کے چوبیس ہزار سے کچھ اوپر بچوں کی خوراک کے بارے میں پوچھا گیا تو معلوم ہوا، ان میں سے تقریباً 51فیصد لڑکے تھے اور باقی لڑکیاں۔ 36فیصد سے کچھ اوپر شہری علاقوں میں رہائش رکھتے تھے باقی دیہاتی علاقوں میں۔تقریباً 56فیصد مائیں انپڑھ تھیں۔اور 5.62 فیصد بچے غربت کی لکیر کے نیچے والے کنبوں سے تھے۔ ان بچوں میں سے پانچ سال کی عمر والے بچوں میں چالیس فیصدسے کچھ اوپر کی تعدادکی افزائش رکی ہوئی تھی(Stunted)، تقریباً 18فیصد ضائع (wasted) ، تقریباً 29فیصد کم وزن تھے اور 5.9فربہ تھے۔یہ سب خوراک کی نا مناسب مقدار اور تناسب کا نتیجہ ہیں۔ شہری اور دیہاتی بچوں میں خوراک کی کمی کے نتائج نمایاں طور پر دیہی بچوں میں زیادہ تھے۔لڑکے نسبتاً زیادہ خوراک کی کمی کا شکار تھے۔
سٹنٹنگ، یعنی بچوں کی رکی ہوئی افزائش ، پاکستانی بچوں کو سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے دیکھیں کہ ایک کروڑ بیس لاکھ بچے اس کا شکار تھے، یعنی ان کاقد اپنی عمر کے لحاظ سے کم تھا۔سرکار اس مسئلہ کو اول نمبرکا مسئلہ گردانتی ہے کیونکہ یہ وہ بچے ہیں جنہوں نے آگے بڑھ کر ایک دن ملک کی اقتصادی اور معاشرتی ترقی کا انجن چلانا ہے۔ افزائش میں کمی کا تناسب اسلاماباد اور پنجاب کے مقابلے میں سب جگہ زیادہ ہے۔یہ تناسب 1965اور 1964کے دوران کافی کم ہوا لیکن 2001کے بعد سے پھر زور پکڑ گیا۔(صاف ظاہر ہے کے حکومتوں نے سوائے زبانی جمع خرچ کے کوئی عملی اقدامات نہیں اٹھائے ۔)
جب بچے کا وزن اس کی عمر کے حساب سے کم ہو تو اسے ویسٹنگ کہتے ہیں۔سروے کے مطابق، 1997سے بچوں میں ویسٹنگ کا تناسب رہاہے۔جو 6.8فیصد سے بڑھ کر 2011میں 1.15ہو گیا تھا۔ان اعداد و شمار کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حالات دگر گوں ہیں، اور اس معاملے میں انہیں قومی ایمرجینسی قرار دیا گیا ہے۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے بڑی شرح ہے۔ سندھ اور شمال مغربی صوبوں میں سب سے بُرے حالات ہیں۔وہاں تقریباً 23 فیصد سے بھی اوپر بچے اس کمی کا شکار ہیں۔
پانچ سا ل اور اس سے کم عمر کے بچوں میںمتناسب اور متوازن خوراک کی کمی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نصف سے زیادہ بچے خون میں فولاد کی کم کا شکار تھے۔ اور تقریباً6فیصد انتہائی زیادہ کمی کا شکار تھے۔ اور لڑکے قدرے زیادہ۔اور شہری بچوں کی نسبت دیہی بچے زیادہ خون کی کمی کا شکار تھے۔ فولاد کی طرح، زنک کی کمی بھی پائی گئی تھی۔وٹامن اے کی کمی بھی دیکھی گئی۔ جو 12 فیصد میں شدید تھی۔اور چالیس فیصد میں درمیانی۔
64 سے 59مہینے کے بچوں میں کیڑے مارنے کا علاج صرف 13فیصد بچوں کو دیا گیا تھا۔
ان مسائل پر وہ بھی شامل کرلیں جو مائیں خود بچوں کو جلد اپنا دودھ پلانا چھوڑ دیتی ہیں۔ اس سے دوسرے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
جیسے وقت گذرتا ہے، چار میں سے تین غیر متناسب خوراک کے اشاریئے زوال پذیر ہوئے ہیں۔اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ بچوں کو مناسب غذائیت دینے کی اشد ضرورت ہے۔ تبھی بچوں میں خوراک کی کمی کے واقعات میں کمی ہو گی۔صرف سات میں سے ایک بچے کو ، جو6ماہ سے 23ماہ کے ہیں، کو ایسی غذا ملتی ہے جسے معقول کہا جا سکتا ہے، یعنی ان بچوں کو چار خوراک کے گروپس سے کچھ نہ کچھ حصہ ملا۔چار میں سے صرف ایک بچے کو دن میں کم از کم کچھ تو کھانے کو ملا۔اور جتنی غذائیت انہیں ملنی چاہیئے وہ بیس میں سے ایک بچے کو ملی۔یعنی بیس میں سے19بچوں کو پوری غذائیت نہیں ملی۔
اب دیکھیں کہ 64سے 59ماہ کے بچوں میں کتنے فیصد بچے ، کسی نہ کسی لحاظ سے، معذور پائے گئے؟ جی۔ تقریباً 13 فیصد۔
نو جوان بچوں میں تقریباً دس فیصدبچے زیادہ وزن کے پائے گئے، تقریباً 8فیصد لڑکے اور6فیصد لڑکیاں حد سے زیادہ موٹے پائے گئے، یعنی (Obese)۔سروے کے مطابق، غذائیت کی کمی کا دوہرا بوجھ ہر صوبہ اور علاقہ میں دیکھا گیا۔اس مسئلہ کو فوری توجہ کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں بچوں کی صحت کا بیڑہ غرق کیوں ہے؟ ۔ اس کی بڑی وجوہات ہو سکتی ہیں۔مثلاً (1) مہنگائی، جس کی وجہ سے خصوصاً غریب والدین بچوں کو وہ خوراک نہیں دے سکتے جو ان کے خیال میں ان کو دینی چاہیئے۔ (2) لا علمی۔یعنی، والدین کو معلوم ہی نہیں کہ بچوں کے لیے ، ان کی عمر کے حساب سے کون سی غذا دینی چاہیئے۔ یہ مسئلہ اور بھی تشویش ناک ہو جاتا ہے جب کہ بازار میں ملنے والے خوراک نا خالص، ملاوٹی اور گھٹیا معیار کی ہو۔ (3) حکومتی اداروں کی اپنے فرائض سے غفلت، خواہ عمداً اور خواہ وسائل کا ناہونا ، خواہ عملہ کی لا علمی۔ غیر سرکاری رضا کار ادارے یا ہیں ہی نہیں یا ان کے پاس وسائل اور تکنیکی اہلیت کی کمی۔سب سے بڑا مسئلہ حکومت کے اعلیٰ اداروں میں بچوں کی غذائیت کسی بھی ترجیح میں نہیں آتی، کیونکہ سیاسی لحاظ سے یہ مسئلہ ان لوگوں کا ہے جو ایسے معاشرے کے سب سے نچلے طبقہ میں ہیں اور ان کا ووٹ سستہ مل جاتا ہے۔ ان کے کوئی نمائندے اسمبلیوں میں نہیں پہنچتے جو ان کے حقوق کی خاطر لڑیں۔
لیکن ان کروڑوںبچوں کو نظر انداز کرنا ایک گھنائونا جرم ہے، کیونکہ کل یہی بچے ملک کی مشینری چلانے کے لیے چاہیئے ہوںگے۔ یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ جن بچوں کو رحم ِمادر میں اور پیدائش کے بعد پانچ سال کی عمر تک متوازن غذا نہ ملے تو انکے دماغ کے خلیے پوری طرح پھل پھول نہیں پاتے۔ایسے بچے کند ذہن ہو جاتے ہیں۔ اور ذرا تصور کیجئے کہ یوم آزادی کے دن سے ابتک کتنے ایسے کند ذہن ہمارے نظام کو چلا رہے ہیں۔اکثر تو مزدوری اور نوکری چاکری کرتے ہیں، کئی مشرق وسطیٰ پہنچ کر جسمانی مشقت کر کے وطن عزیز کو رقومات پہنچاتے ہیں۔اگر تھوڑے سے مڈل پاس کر لیں تو فوج میں بھرتی ہو جاتے ہیں اور اس میں ترقی کرکے کہیں کے کہیں پہنچ جاتے ہیں۔ لیکن ہمیں اس وقت سے ڈرنا چاہیے کہ جب یہی کند ذہن رشوتیں دیکر ، جعلی ڈگریاں لیکر، ڈاکٹر، انجینئر ، اکائونٹنٹ، معمار، اور سیاستدان بن جاتے ہیں۔اس دن سے ڈریں جب آپ کو ان سے واسطہ پڑے۔
جہاں تک معصوم بچوں کا تعلق ہے وہ تو بے زبان ہیں اور اپنے حق کے لیے زبان نہیں کھول سکتے۔ ان کی صحت اور بہتری کے لیے حکومت کو ہی کچھ کرنا ہو گا جو صرف زبانی جمع تفریق کرتی ہے۔دیکھ رہے ہیں کہ نئے حکمران نوجوانوں پر توجہ دے رہے ہیں، لیکن ان کا مرکز نگاہ ان معصوموں کی خوراک کی طرف کب بنے گا، خدا ہی جانتا ہے۔غریب دنیا میں کچھ ایسی مثالیں ہیں کہ حفظ عامہ کے نگہبانوں میں سے کچھ نے شاندار کام کیے ہیں۔ کیا ممکن نہیں کہ پاکستان میں بھی کوئی ایسے مہربان نکل آئیں؟ ملاحظہ ہو:
ٹائمز میگزین کے تازہ شمارے میں، عالمی صحت پر کام کرنے والوں کی بہت سی مثالیں دی گئی ہیں، جن میں جو دو بچوں کی صحت سے متعلق ہیں، وہ ملاحظہ فرمایئے:
لادیدی کلووا باکوأآیگبوسی ، نائجیرین وزارت برائے ہیلتھ اور سوشل ویلفئیرکے نیوٹریشن ڈپارٹمنٹ کی سر براہ نے بچوں کی خوراک میںغذائیت کی کمی کودور کرنے کے لیے بلین کیوبز ، جو وہاں بکثرت استعمال ہوتے ہیں، ان میں غذائی اجزا ڈلوا دئیے، جن سے بچوں کی غذائی کمی دور ہو سکتی ہے، اگر وہ اور ذرائع سے پوری غذائیت حاصل نہ کر سکتے ہوں۔ ان بلین کیوبز میں وٹامن بی ۱۲، فولک ایسڈ اور زنک کا اضافہ کیا گیا۔ان کی اس اختراع سے لاکھوں بچوں کو فائدہ پہنچے گا۔
بنگلہ دیش کے بین الاقوامی مرکز تحقیق برائے ا مسا ل ، ایگزیکٹو ڈائیریکٹر، ڈاکٹر تہمید احمد، نے جب اپنے کام کا آغاز کیا تو ان کی نظر میں یہ بات آئی کے ڈھاکا کے پسماندہ علاقوں میںکچھ بچے صحتمند تھے اور کچھ بیمار۔جب انہوں نے ان بچوں میں فرق جاننے کے لیے تحقیق کی تو معلوم ہو ا کہ انکی خوراک کی نالی اور معدہ میں ایسے جراثیم تھے جو خوراک کے ذریعے ملتے تھے۔ یعنی بیمار بچوں کے معدوں میں بُرے جراثیم تھے۔اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے انہوں نے ایسے خوراک کے اجزا بنائے جو تازہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے استعمال سے بچوں کا وزن بھی بڑھ رہا ہے اور ان کے افزائش بھی صحیح ہو رہی ہے۔
میرا ایمان ہے کہ پاکستان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں، جو بچوں کی خوراک اور پرورش میں بہتری کے لیے، نت نئے اور زیادہ قابل عمل حل پیش کر سکیں لیکن ہمارا ماحول ایسا نہیں جس میں ان کی بات سنی جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔حکومت کے منہ سے میں نے آجتک ان بچوں کے بارے میں نہیں سنا۔ حکومت ، لگتا ہے، صرف کالج کے طلباء پر دلچسپی لے رہی ہے۔ انہیں لیپ ٹاپ دئیے جاتے ہیں جس سے فوٹو کھینچوانے کے مواقع بنتے ہیں۔ غریب بچوں کی متوازن خوراک اتنے ڈرامائی مواقع نہیں پیدا کرتی۔ہمیں ایسے سیاستدانوں کی ضرورت ہے جو مستقبل کی انسانی افرادی قوت کے بارے میں فکر مند ہوں۔ اگر ایسے لوگ سامنے نہیں آئیں گے ، تو مستقبل کا خدا ہی حافظ۔پاکستان میں زیادہ تر مسلمان بستے ہیں جنہیں حکم ہے کہ ہمسائے کا خیال رکھیں۔ کیا ہم اتنا کر سکتے ہیں کہ ہمسائے میں جو غریب ہیں ان کے بچوں کی نگہداشت میں ماں باپ کا ہاتھ بٹائیں؟

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button