ؔ؎ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے!
روزانہ کی بنیاد پر آج کل پاکستان میں ایک طُرفہ تماشہ جاری ہے۔ ایک ایسا ٹوپی ڈرامہ چل رہا ہے جس کا نہ سر ہے نہ پیر۔ صحافی، بلاگرز، اخبارات اور میڈیا پریشان ہیں کہ کس طرح سے ہر لمحے بدلتی صورت حال کو اپنی نگارشات میں شامل کر سکیں۔ جو بلاگرز اور یوٹیوبرز 24گھنٹوں میں ایک بلاگ کرتے تھے وہ اس وقت چوبیس گھنٹے میں چار چار بلاگز کررہے ہیں لیکن سرکس ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ پہلے الیکشن، پھر دھاندلی، پھر فارم 45 ، پھر فارم 47 پھر کمشنر پنڈی ڈویژن، پھر ڈھائی ڈھائی سال کے وزیراعظم، پھر ڈیڈلاک، پھرڈی سی اسلام آباد فرار، پھرلکشمی چوک کے چھاپے خانے کا انکشاف، پھر تین سال اور دو سال کے دو وزیراعظم پھر چیف جسٹس کا الزام کا جواب، پھرمذاکرات کے چار دور، پھر اسلام آباد میں خواجہ سعد اور حنیف عباسی کی خواتین کے ساتھ ہاتھا پائی ،پھر انٹرنیشنل میڈیا میں پاکستان کے الیکشنز اور آرمی کی رسوائی ، پھرمولوی فضل الرحمن کے فیض حمید اور قمر جاوید باجوہ پر الزامات، پھر PTIکا چیف الیکشن کمشنر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ، غرض یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا نظر نہیں آرہا۔ آخری خبریں آنے تک اور اس کالم کے پریس اور ینگ ترنگ ریڈیو پر جانے تک ملک کی اکثریتی پارٹی پاکستان تحریک انصاف حکومت سازی سے باہر ہے اور دو اقلیتی پارٹیاں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز حکومت سازی کررہی ہیں۔ پوری دنیا میں پاکستانی الیکشنز اور پاکستانی آرمی کی جو کھلی اڑرہی ہے یہ نیا مذاق اس میں خاطر خواہ اضافہ کرے گا۔ پاکستان تحریک انصاف کے تمام ہارنے والے اراکین اور امیدواران اپنے ہاتھوں میں اپنی اپنی جیتوں کا ثبوت فارم 45ہاتھوں میں لئے کھڑے ہیں۔ نہ عدلیہ پر نہ الیکشن کمیشن کے کانوں پر جوں رینگ رہی ہے جبکہ اس تمام ناٹک بازی میں پیچھے کھڑے سہولت کار یعنی وہ چند جرنیل اور کرنیل جو یہ سب کھیل کھیل رہے ہیں وہ اپنے کانوں میں گھگیاں ڈال کر تماشا دیکھ رہے ہیں۔ اپنی تمام تر پابندیوں اور آرمی سینسر شپ کے باوجود تمام ملکی میڈیا ان انتخابات کو ملک کی تاریخ کے سیاہ ترین انتخابات کہہ رہے ہیں جبکہ غیر ملکی میڈیا تو پہلے ہی ان الیکشنز کو فراڈ قرار دے چکا ہے۔ بقول جرمن ٹی وی ڈوئچے ویلوے، یہ الیکشن جنرل الیکشنز نہیں بلکہ جنرلوں کے الیکشنز تھے مگر حیرت ناک بات یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر چند جنرلوں کی وجہ سے اس قدر بدنامی اور فوج کی رسوائی کے باوجود اپنے وہی ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے۔ پی ٹی آئی کے نامزد کردہ پنجاب کے وزیراعلیٰ سلیم اقبال کو ایک مرتبہ پھر نامعلوم افراد نے اغواء کرنے کی کوشش کی اور وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ ہمارا خیال ہے کہ اب بہت ہو گیا۔ اب نیا طریقہ کار یہ ہونا چاہیے کہ اب کوئی بھی فرد یا افراد کسی کو اغوا کرنے کی کوشش کریں تو ممکنہ مغوی کو سیدھا اس نامعلوم فرد یا افراد کے بھیجے میں گولی اتار دینا چاہیے کیونکہ یہ عمل آپ کے رائٹ آف سیلف ڈیفنس کے زمرے میں آتا ہے۔ اب ضروری ہو گیا ہے کہ ہر شخص اپنے ساتھ اسلحہ رکھے اپنی حفاظت کرنے کیلئے۔ ہاں البتہ وردی میں ملبوس کسی پولیس کے سپاہی، رینجرز، اہل کار اور فوجی ہر گزگولی نہیں چلانا چاہیے کیونکہ ان کی یونیفارم ان کی شناخت ہے اور وہ نامعلوم اغوا ءکار ڈھاڈے باندھے ہوئے دہشت گرد نہیں ہیں۔ ایک مرتبہ نامعلوم افراد یا دہشت گرددں کے خلاف یہ اقدامات شروع ہو جائیں تو آپ دیکھیں گے کہ کس طرح کوئی کسی کو اغواء کرتا ہے۔ اب معاملات حد سے گزر چکے ہیں، آپ کو خود اور اپنی فیملی کو بحفاظت رکھنا آپ کی قانونی ذمہ داری ہے۔
0