0

شدت ِ دھند

موسمی تغیرات سے پیدا ہونے والی دھند کی شدت نے جہاں مسافروں کو ترک ِ سفر پر بے بس کئے رکھا کچھ اُسی انداز سے انتخابات میںاُڑی گردوغبار میں نتائج ڈھونڈنے والے ابھی تک مخمصوں میں گھرے کسی واضح رستے پر پہنچنے سے قاصر ہیں البتہ روایتی قیاس آرائیاں جو کسی بنیاد پر وزن نہیں رکھتیں پھر بھی اذہان ِ خلق میں اپنا منفی یا مثبت تاثر ضرور چھوڑ رہی ہیںیہ شاید سیاست کی شدت ِ دھند کی وجہ ہے کہ سیاسی گٹھ جوڑ کی رسیاں ممکنہ خدشات کے ڈر سے ڈھیلی پڑ جاتی ہیں جس سے تیسرے فریق کو بھی اپنی اہمیت جتلانے کا پورا بلکہ مکمل موقع مل رہا ہے راولپنڈی کمشنر کی حالیہ پریس کانفرنس خاکسار کی نظر میں اندرونی و بیرونی شازشوں کی دیرینہ کڑی ہے جسے وقت کے لحاظ سے استعمال کیا جاتا رہا ہے بھوک سے ناداری کی طویل عمر سے غربت کو بچوں سمیت موت کے حوالے کرنے کے واقعات تو دل تسلیم کرتا ہے مگر کمشنر کے ضمیر کے جاگنے پر یقین انکاری ہے کیونکہ حضرت کا تحریک ِ انصاف سے رابطہ بھی پوشیدہ نہیں اور ہمدردیاں جن کا اظہار ٹویٹ میں موجود ہے مقصد اس پریس کانفرنس کا جہاں انتخابی نتائج کو مشکوک کرنے کی کوشش ہے وہیں اقوام ِ عالم کو پاکستان کے حالیہ انتخابات کے حوالے سے بھی بے اعتماد کرنا ہے امریکہ کو تو پاکستان کے انتخابی نتائج نہ تسلیم کرنے کا مشورہ بھی دیا جارہا ہے لیاقت علی چھٹہ کی یہ پریس کانفرنس ریاست ِ پاکستان میں معاشی بحران کے ساتھ ساتھ سیاسی بحران پیدا کر کے ملکی استحکام کو کمزور کرنے کی سازش کے علاوہ کوئی دوسری بات نہیں لگتی ضمیر بیچارے کی نیند یونہی خراب کی جا رہی ہے یاد آیا کہ ضمیر تو جسٹس شوکت صدیقی کا بھی بیدار ہوا مگر کوئی مانا نہیں ،ضمیر تو جج ارشد ملک کا بھی جاگا تو جج کو ہی سلا گیا مگر حالیہ ضمیر کے جاگنے پر تحریک ِ انصاف کی خوشی قابل ِ دید ہے اگر 9مئی کے واقعات کا فیصلہ جو نہ جانے کیوں تاخیر کا شکار ہے آ گیا تو پھر ملک دشمنوں کی آنکھیں حیرت سے بند نہیں ہونگی یہ میرا خیال ہے ۔پریس کانفرنس کے پس ِ پردہ حقائق بھی انہی جملہ خدشات کے ساتھ جلد عیاں ہونگے ریاست کو اپنے مضبوط استحکام کے لئے قانون کو بلاتفریق لاگو کرنا ناگزیر ہے اس پر سمجھوتہ کرنا یا رعایت دینا عاجزی نہیں کمزوری کہلاتی ہے جس کا سدباب کرنا لازمی و احسن ہے انتخابات ہونے کے باوجود مختلف نظریات کی حامل سیاسی جماعتیں اکٹھ کے باوجود بھی حکومت بنانے میں لیت و لعل سے کام لے رہی ہیں ان حالات کو دیکھتے ہوئے مجھے خواجہ سعد رفیق کی قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر یاد آ گئی جس میں وہ کہتے ہیں کہ ایسا وقت آنے میں دیر نہیں ہے کہ اس ملک میں جتنی تذلیل وزرائے اعظم کی گئی ہے یہ وزارت ِ عظمی دینے والے یہ مسند اپنے ہاتھ میں لے کر پھریں گے کوئی اس پر مسند نشین ہونے والا نہیں ملے گا اسی طرح وزارتوں پر بھی کوئی براجمان نہ ہو گا کیونکہ اپنی عزت کے لئے وہ ان مرتبوں کو قبول نہیں کریں گے تو پہلی سچائی سعد رفیق کی نواز شریف کی وزارت ِ عظمی سے انکار کی صورت سامنے آیا پھر پیپلز پارٹی حکومت سازی کے حوالے سے ساتھ دینے پر تو راضی ہوئی مگر حکومتی وزارتوںسے منہ موڑ گئی ایسی پیشن گوئیاں عصر ِ حاضر کی سیاست میں پوری ہونا کسی اچھے حالات کا اشارہ نہیں کسی شاعر نے کیا خوب ترجمانی کی ہے کہ یہ اک اشارہ ہے آفات ِ ناگہانی کا ۔ کسی جگہ سے پرندوں کا کوچ کر جانا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں