پائیدار ترقی

ہمیشہ سے طبیعت کبھی جذباتی سیاست کی ہلڑبازی والی باتوں نہ مرعوب ہوئی اور نہ ہی ان کے خیالی منصوبوں سے فخریہ ہو کر گھومے اساتذہ کرام اور بزرگوں کی تربیت نے عجز و انکساری سے زمینی حقائق کا جائزہ لینا سکھایا اور بہتر اخلاقیات کی پاسداری کو عمل میں رکھنا سکھایا سمجھ سے بالا ہے یہ بات کہ ہم سے اعلی درجے کی سکولوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم پانے والے ہمارے سیاسی اکابرین ،معاشی ماہرین ، و حکومتی عہدوں پر فائز افسران اعلی خلق ِ خدا سے جھوٹ کیوں بولتے ہیں ؟ انھیں کے مسائل حل کرنے میں ازحد تاخیر کیوں کی جاتی ہے اور ادارے کمیشن و رشوت ستانی میں سرِ عام کیوں مشغول ہوتے ہیں ؟قائد کی حاصل کی ہوئی اس دھرتی پر حلف اُٹھانے کے بعد اُس کے برعکس عمل پیرا ہونا اللہ کی طاقت کو للکارنے کے مترادف ہے ان کوتاہیوں کے مناظر کئی دہائیوں سے سرکاری دفاتر میں معمول کا حصہ ہیں یہی وجوہات ہیں کہ ہم معاشی طور پر پسماندگی کی جانب رواں ہیں کیونکہ ہم نے حلف اُٹھا کر سچ کی بجائے جھوٹ کو روزگار کا وسیلہ بنا رکھا ہے ۔پچھلے دنوں ایک جھوٹ کی ملک گیر سطح پر تشہیر کی گئی کہ حکومت نے اپنی انتھک کاوشوں سے مہنگائی کوکم کر کے 0.4فی صد پر لے آئی ہے اس معاشی لطیفے پہ مشکل سے ہی پھیکی سی مسکراہٹ سے الفاظ کی تلخی کو کم کرتے ہوئے حکومت کو جھنجھوڑتے ہوئے کہنا پڑتا ہے کہ عام آدمی کی زندگی پر ان معاشی اعشاریوں سے کوئی فرق نہیں پڑا ہے مہنگائی بدستور پوری توانائی سے بڑھتی چلی جارہی ہے کیونکہ مخصوص اشرافیہ حسب ِ روایت اپنے مفاد سمیٹنے میں مصروف ِ عمل ہے یوں عوام خط ِ غربت سے نیچے روزانہ کی بنیاد پر گرائی جا رہی ہے ملک میں صرف مخصوص اشرافیہ اور حکمران خوشحال ہیں عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہوتے ہوئے خوشحالی سے کوسوں دور ہے چئیرمن ایف بی آر نے بھی اعتراف کیا ہے کہ حکومت غلط رستے پہ گامزن ہے گویا حکومتی پالیسیوں کے غلط ہونے کا اقبال ِ جُرم ہے حکومت بھی ڈھکے چھپے لفظوں میں یہ تسلیم کر چکی ہے کہ جس ترقی کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے اُس کے اثرات عام آدمی تک نہیں پہنچ رہے اُلٹا اس نادار غریب عوام پر بیجا ٹیکسوں کولاگو کر کے حکومتی قرضوں کی واپسی کو ممکن بنانا ہی حکومت کی معاشی پالیسی نظر آتی ہے جسے پائیدار ترقی سے جوڑنا یا سمجھنا دانشمندی ہر گز نہیں البتہ ملکی قرض کا تناسب جی ڈی پی (مجموعی ملکی پیداوار) کے 73فیصد سے کم کر کے 60فیصد پر لایا گیا جسے خوش آئند کہا جا سکتا ہے زراعت پاکستان کی معیشت کا بڑا شعبہ ہے قابل ِ کاشت اراضی 55ملین ہیکٹر ہے جس میں سے صرف 21 ملین ہیکٹر زیر کاشت ہوتا ہے اور ملکی معیشت میں زراعت کے شعبے کا حصہ 22فی صد ہے جسے آبادی کے بڑھتے طوفان کو مزید بڑھانا ناگزیر ہے ملکی ترقی کا سیاسی طور پر ناقوس بجانا پائیدار ترقی نہیں کہلاتی اسی لئے ملک کے طول و ارض سے حکومت کی خودساختہ ترقی کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں حکومت کو چائیے کہ وہ اپنے معاشی و سیاسی ماہرین کے ساتھ ان آوازوں کو سنے اور سمجھے جو کہہ رہی ہیں کہ قوموں کی ترقی ایک طویل ،سماجی ،سیاسی اور ثقافتی شعوری سفر کی متقاضی ہوتی ہے جبکہ پاکستان سیاسی و معاشی سطح پر لاغر،انسانی حقوق کے آداب سے قطعی ناآشنا ہے جو کہ کسی بھی نظام کو چلانے کی سکت نہیں رکھتا نظام چاہے آمریت ہو یا جمہوریت میں لپٹی جمہوری جعلسازی !!! بالغ نظری سے گریبان ِ وطن میں جھانکا جائے تو ہم نے اسے اپنے انفرادی مفادات کی خاطر تار تار کرنے میں کبھی دریغ نہیں کیا یوں اس دہشت گردی میں جمہوری اکابرین ، آمرانہ ذہن کے لوگ اور بیشعور عوام سب شامل ہیں تو قائد کے حاصل کئے گئے اس خطے میں پائیدار ترقی کی راہ کون ہموار کرے ؟ ہر موڑ پہ ہم کو رہزنوں سے واسطہ پڑتا رہا ہے جس نے ہمیں ان حالات کا عادی سا بنا دیا ہے جانتے ہیں کہ ظلم و زیادتی کا سدباب ہونا ضروری ہے انصاف ملنا چائیے مگر اس کے لئے عملی قدم نہیں اُٹھاتے جس سے سرسبز ملک بے یقینی،مفلسی ، ناداری کے صحرا میں تبدیل ہو چکا ہے پڑھی لکھی نوجوان نسل کو جب گرین ہیلمٹ پہنے موٹر سائیکل پر سواریاں اُٹھاتے دیکھتا ہوں تو حکومت کی پائیدار ترقی کے دعوئوں پر دل ماتم کناں رہتا ہے کیونکہ ہماری سیاست مفروضوں ، بہتان تراشی و سیاسی محاذ آرائی سے ابھی تک باہر نہیں آئی کہ ملک چلانے کے لئے اُسے معیشت کو کیسے استوار کرنا ہے ؟کیسے زراعت کے شعبوں میں بہتری کے جدید آبپاشی کے نظام کو متعارف کروانا،شمسی توانائی و آبی توانائی پر توجہ مرکوز کرنا ،ٹیکسوں کی بھرمار سے خلقِ خدا کو نجات دینا ،صنعتی زونز کو سستی بجلی کی بلا تعطل فراہمی یقینی بنانا وغیرہ پائیدار ترقی کے زینے ہیں ان کی جانب متوجہ ہونا یا انھیں نظر انداز کرنا ہمیں خود کفالت سے ہمکنار نہیں کر سکتا موجودہ حکومت جو بیانات دے رہی ہے کاش اس پہ عمل پیرا بھی ہو جائے ۔