یو ایس ایڈ کیوں نہ بند کریں؟

دوستوں۔ گذشتہ پچاس سالوںمیں، آپ نے مشاہدہ کیا ہو گا کہ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں ایک سے بڑھ کر ایک شاندار بنگلے بن رہے تھے۔ اور سڑکوں پر بڑی بڑی چمکیلی گاڑیاں بھاگتی نظر آتی تھیں۔ یہ انقلاب کیسے؟ جی۔ یہ سب رشوت اور کچھ یو ایس ایڈ کا پیسہ تھا اور کچھ دوسرے ملکوں کا جو فیملی پلاننگ کے لیے اربوں روپے کی امداد ،بطور عطیہ، دے رہے تھے۔ اور وہ امداد بے دردی سے ہڑپ کی جاتی تھی اور اس سے حاصل کردہ رقم سے بنگلے اور گاڑیاں خریدے جاتے تھے۔ جی ہاں۔ اسے ہی کرپشن کہتے ہیں۔جو امداد دہندگان ملک تھے ان کے دفاتر یہ سب کچھ دیکھتے تھے لیکن کچھ نہیں کہتے تھے۔ پہلے انہوں نے حکومت کو امداد دینی بند کی اور اپنی توجہ رضاکار رفاہی اداروں کی طرف کر لی۔ جس پر انہیں ذرا بہتر کنٹرول تھا۔ لیکن کرپشن میں آپ پاکستانیوں کو ہرا نہیں سکتے۔ ماشااللہ بڑی ذہین قوم ہے۔ اور کسی معاملے میں ذہانت استعمال کرے یا نہ کرے ب،بے ایمانی اور کرپشن کے انہیں وہ وہ طریقے آتے ہیں کہ انسان کی عقل دنگ رہ جائے۔راقم کو یو این کے کا م پر ویت نام جانا پڑا وہ وہاں دیکھ کر حیران رہ گیا کہ پاکستان کو دی گئی مانع حمل اشیاء بوڑھی عورتیں ٹوکریوں میں سجائے بیچ رہی تھیں۔ہمارے ذہین و فطین سرکاری افسر امداد میں آئی خاندانی منصوبہ بندی کی ادویات سمگل کرتے تھے اور اپنے سرکاری رجسٹرز میں دکھاتے تھے کہ یہ انہوں نے مقامی آبادی کو تقسیم کیے۔یعنی آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام۔ اب آپ یو ایس ایڈ کو تو ذمہ وار نہیں ٹھہراسکتے۔ان کا قصور اتنا ہی تھا کہ وہ سب جانتے ہوئے بھی کرپشن کے خلاف بات نہیں کرتے تھے۔ کیونکہ کرپٹ سرکاری افسر بڑے کام کی چیز ہوتا ہے۔
جو پاکستان میں ہوتا رہا اسے آپ ایک سو سے ضرب دے دیجئے تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ یو ایس ایڈ کو کیوں بند کیا جا رہا ہے۔کیونکہ یو ایس ایڈ غریب ملکوں کو دی جاتی ہے اور ان کے مشاغل وہی ہیں جوپاکستانیوں کے۔
گذشتہ جمعہ سے پاکستان کے وہ تمام رفاہی ادارے بند ہو جائیں گے جو یو ایس ایڈ کی امداد پر پلتے تھے۔صرف رفاہی ادارے ہی نہیں جو بھی پراجیکٹ پاکستانی حکومتوں کی طرف سے چلتے تھے وہ بھی بند ہو جائیں گے۔ ان میں اگر کوئی امریکن آفیسرز کام کرتے ہیں وہ لازماً تعطیل کے تحت واپس گھر چلے جائیں گے۔ ایک سوشل میڈیا کی رپورٹ کے مطابق، امریکہ نے پاکستان کو 845 ملین ڈالر کی امداد وقف کی تھی۔جن سے 39منصوبوں پر کام ہو رہا تھا۔ یہ منصوبے توانائی، زراعت، تعلیم، صحت اور جمہوریت کے شعبوں میں تھے۔ وہ سب اب معطل ہو چکے ہیں۔ان میں قابل ذکر وہ 86ملین ڈالر کے منصوبے ہیںجو صحت عامہ سے متعلق ہیں۔اور ایک تعلیمی وظیفوں کا پروگرام ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں سب سے پہلے جو یو ایس ایڈ کے منصوبے بنائے گئے تھے(1965 میں ) وہ فیملی پلاننگ سے متعلق تھے۔ ان کے تحت اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد امریکہ میں قلیل مدت کی معیاد کے تربیتی پروگرام کے تحت بھیجی گئی۔اور ایک بڑی تعداداعلیٰ تعلیم کے لیے بھیجی گئی۔راقم بھی ان اہلکاروں میں سے ایک تھا جس کو کیلیفورنیا کی برکلے سٹیٹ یونیورسٹی میں ماسٹرز آف پبلک ہیلتھ ایجوکیشن کی ڈگری کے پروگرام میں بھیجا گیا۔ یہ وہی یونیورسٹی تھی جہاں آنجہانی بھٹو انڈر گرائجو یٹ کی تعلیم کے لیے گئے تھے۔ یہ ا مریکہ کی اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں میں سے ایک تھی۔یہ پروگرام بتاتا ہے کہ کچھ پروگرام اچھے بھی تھے۔
پاکستان کو آبادی کے مسئلے پر یو ایس ایڈ نے کئی سال امداد بھیجی، جس میںدھاندلیاں بھی خوب کی گئیں۔ایک طرف مولویوں نے صدر ایوب کی حکومت کے خلاف جو محاذ بنایا اس میںخاندانی منصوبہ بندی کا پروگرام سر فہرست تھا ۔ لہٰذا جو بھی نئی حکومت آئی اس نے خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام کو پس پشت ڈالا اور صرف ایسی کاروئی کی جو امداد دینے والوں کو نظر آئے لیکن مولویوں کو نہیں۔ا ن مولویوں کو بھی اور کوئی موضوع نہیں ملتا تھا،لے دے کر بس خاندانی منصوبہ بندی کے پیچھے پڑے رہے تھے۔ حالانکہ مولانا موددوی نے کہا تھا کہ اسلام خاندانی منصوبہ بندی کے خلاف نہیں ہے البتہ سرکاری سطح پر ایسا پروگرام نہ بنایا جائے۔
حیرت انگیز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی حکومت شروع ہوتے ہی انقلاب بر پا کر دیا ہے۔ ایک سو ایگزیکٹو احکامات یکے بعد دیگرے جاری کر دیئے ہیں۔ ان میں بہت سی اہم اور حیرت انگیز امریکی محکموں کے فوری طور پر بند کرنے کے احکامات شامل ہیں۔امریکہ کے وفاقی محکمہ تعلیم اور یو ایس ایڈ کے احکامات تازہ ترین ہیں۔ ابھی لاکھوں غیر قانونی نقل مکانی والے میکسیکن اور دوسرے لاطینی ملکوں کے مردوں عورتوں اور بچوں کی زبردستی واپسی کا عمل بھی زور شور سے جاری ہے۔صرف لاطینی ہی نہیں، آٹھ ہزار پاکستانی اور پچاس ہزار بھارتی غیر قانونی نقل مکانی والوں کو بھی واپس بھیجا جا رہا ہے۔ ان خاندانوں میں ایک قیامت صغرا برپا ہے۔لیکن سلطانی احکامات ایسے ہی ہوتے ہیں۔ اگر کوئی اہلکار تعاون نہ کرے تو اسے فوراً معطل کر دیا جاتا ہے۔بہت بڑے محکمے بند کرنے میںٹرمپ اور اس کے مشیر ایلن مسک کا فیصلہ ایک ہے۔
یو ایس ایڈ کے جتنے بھی دفاتر ہیں دنیا میں، ان سب کو سرکار کے حکم کے مطابق بند کرنے کے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں اور جمعہ تک سب اہلکاروں کوواپس بلا لیا جائے گا۔ایجنسی کے نئے ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر پیٹ مارکو، محکمہ خارجہ کے قائدئین سے ملے اور انہوں نے یو ایس ایڈ کے دنیا بھر کے اہلکاروں کو واپس بلانے کا حکم سنا دیا۔اور تنبیہ کی کہ اگر ایسا نہ ہوا تو بزور امریکن ملٹری سے نکلوایا جائے گا۔یا د رہے کہ یو ایس ایڈ دنیا کے ایک سو سے زیادہ ملکوں میں کام کرتی ہے، جو زیادہ ترقدرتی آفات، صحت ، طبی امداد اور ہنگامی خوراک کی فراہمی کا کام ہوتا ہے۔ایجنسی کے دس ہزار سے زیادہ اہلکار ہیں جن میں سے دو تہائی بیرونی دنیا میں کام کرتے ہیں۔ایجنسی کے ملکی اور علاقائی دفاتر ساٹھ سے زیادہ ملکوں میں ہیں۔یہ پیشرفت صدر ٹرمپ کی وفاقی اخراجات میں کمی کے پروگرام کے تحت کی گئی ہے، جس کے سربراہ ایلن مسک ہیں۔
United States Agency for International Development سن 1961 میں غربت کے خلاف، جمہوریت کی بحالی،حقوق انسانی کی حفاظت اور عالمگیر صحت کے لیے قائم کی گئی۔ لیکن اب اس کا مستقبل غیر یقینی ہو گیا ہے۔ایلن مسک کا کہنا ہے اس ادارے کو بند کرنا ہی ہو گا کیونکہ یہ اب مرمت کے قابل بھی نہیں رہا۔صدر ٹرمپ نے ایلن کے فیصلہ کو سراہا۔ان کو بتایا گیا کہ ایجنسی کے فنڈ ایسے گروہوں کو دیئے گئے جو اس کے مستحق نہیں تھے۔جن کو ایک دھیلہ نہیں ملنا چاہیئے تھا۔ایجنسی سے منسلک ایک ڈائیریکٹر کا کہنا ہے کہ یہ پیشرفت ملک کے لیے خطرناک ہو گی۔ان کا کہنا ہے کہ صرف ایچ آئی وی پر دو کروڑ لوگ کام کر رہے تھے جن کی وجہ سے یہ موذی مرض قابو میں آیا۔اسی طرح برڈ فلو کا مرض ہے جو پھیل رہا ہے۔
وزیر خارجہ مارکو روبیو نے یو ایس ایڈ کے عارضی ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھال لیا ہے۔لیکن ٹرمپ کے اس فیصلے نے بھونچال مچا دیا ہے، کیوں؟
مجھے یاد آ رہا ہے کہ میں نے یو ایس ایڈ پاکستان لاہور میں ڈھائی سال کام کیا تھا ۔ ایک بہت اچھے فارن سروس والے باس کے ساتھ۔ لیکن مجھے شبہ ہو گیا تھا کہ میرا باس در اصل سی آئی اے کے لیے کام کرتا تھا۔ یہ ایک عام سی بات تھی کہ سی آئی اے سرکاری دفاتر میں اپنے بندے لگاتی تھی۔ جو دونوں کام کرتے تھے۔ ہمارے دفتر میں کئی دفعہ امریکنز آئے جو بالکل افغان لگتے تھے۔ اور شاید پشتو بھی بولتے ہونگے۔ وہ سی آئی اے کے حکم پر افغانستان کے حالات کا جائزہ لینے گئے تھے۔میرا باس بھی کچھ ایسے ہی کام کرتا تھا۔ اسے بنگلہ دیش میں حالات کا جائزہ لینے بھیجا گیا تھا، لیکن بے چارے نے غلط رپورٹ بھیج دی کہ مشرقی پاکستان علیحدہ نہیں ہو گا۔
اتفاق کی بات ہے کہ مجھے کچھ سالوں بعد کٹھمنڈو میں ملازمت مل گئی اور وہاں کے یو ایس ایڈمیں میرا لاہور والا باس بھی تھا۔ وہ وہاں نیپال سے چین کے بارڈر پر رپورٹ بنا کر بھیجتا تھا۔مجھے یاد ہے کہ یو ایس ایڈ کا سٹاف تین طبقوں میں بانٹا جا سکتا تھا۔ سب سے اوپر وہ امریکنز تھے جنہیں ڈائیرکٹ ہائیر آفیسر کہتے تھے۔ یہ با قاعدہ سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے افسر تھے۔اس کے بعد وہ امریکن شہری تھے جوبطور کنسلٹنٹ یا کنٹریکٹ پر کام کرتے تھے۔ اور تیسرے درجے پر مقامی شہری ملازمین تھے۔میں اس طبقہ سے تھا۔ ان کے مختلف درجات تھے۔ سب سے اوپر درجہ ، اول پھر دوم وغیرہ۔ میں بطور ایک پروفیشنل کے دوسرے گریڈ میں تھا۔
میں نے دیکھا کہ یو ایس ایڈ کا کام بنیادی طور پر حکومت کو خوش رکھنا تھا۔ وہ سرکاری افسروں کو کم معیاد کے امریکہ کے دورے پر تربیتی کورس کرواتے تھے۔بعد میں وہ ایک طرح کے مخبر بن جاتے تھے۔ کئی ہزار پاکستانی ڈاکٹرز، انجنیئرز، پروفیسر زاور دوسرے پیشوں والے افسران ان وظیفوں سے فیضیاب ہو چکے تھے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے یو ایس ایڈغیر سرکاری رفاہی اداروں کے ساتھ کام کرتی تھی۔ ان سے جو بھی کام ہوتا وہ آسانی سے کروایا جا سکتا تھا۔وہ ادارے اکثر و بیشتر کرپٹ تھے۔کچھ ایمانداری سے کام بھی کرتے تھے جس سے عوام کا فائدہ ہوتا۔
یو ایس ایڈ کی امداد بالکل مفت ہوتی تھی اور گرانٹس کی شکل میں دی جاتی تھی۔ اس لیے ایک طرح کی بھیک تھی جو غریب اور ترقی پذیر ممالک شوق سے لیتے تھے اور پھر کوئی خاص پوچھ گچھ بھی نہیں تھی۔ یو ایس ایڈ کے افسران کی کوشش ہوتی تھی کہ سرکاری عہدہ داروں کو خوش رکھا جائے تا کہ وہ بھی ان کے بڑوں کو اچھی رپورٹ دیں۔یہ چسکا سب کو لگ چکا تھا اور اسی لیے اب شور و غوغا مچ رہا ہے کہ امداد کیوں بند کی؟لیکن اگر آپ اس امداد کے نظریہ پر غور کریں تو یہ امیر ملکوں کی سخاوت کم اور انہیں اپنا اثر و رسوخ بنانے کی کوشش زیادہ تھی۔ اور لینے والوں کو اپنی آبادیوں کی ضروریات پورا کرنے کے لیے زیادہ کوشش نہیں کرنی پڑتی تھی۔یہ نظریہ امداد اس لیے تھا کہ غریب ملک آہستہ آہستہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں۔ لیکن غریب ملکوں میں ان کی قیادت یہ سوچتی تھی کہ جب تک گنگا بہتی ہے اسے بہنے دو۔جب بند ہو گی تو دیکھا جائے گا۔ لوگ خود ہی کچھ کر لیں گے۔اس میں قصور دونوں کا تھا۔ دینے والوں کا بھی اور لینے والوں کا بھی۔
بہر حال۔ اس مسئلہ کے حل کے لیے ایک ایسے ارب پتی کی ضرورت تھی جواتنا جگر رکھتا ہو کہ اتنے بڑے فیصلے لے سکے۔یہ صرف ٹرمپ اکیلا نہیںکر سکتا تھا۔یہ محکمہ اتنا پرانا اور طاقتور ہے کہ اس کو ختم کرنا خود ایک بہت بڑا کام ہے۔ اب یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس محکمہ کو تراش خراش کر کے چھوٹا کر دیا جائے اور اس کو محکمۂ خارجہ کا ایک ذیلی شعبہ بنا کر اس میںچلایا جائے۔ ویسے تو یو ایس ایڈ ہمیشہ سے محکمہ خارجہ کا حصہ رہاہے لیکن آزاد حیثیت رکھتا تھا۔اب غالباً اسے ملکی سطح پر امریکی سفیروں کی زیر نگرانی رکھا جائے گا۔
اس محکمہ کو بند کرنے یا اس کا قد چھوٹا کرنے کی وجوہات ایک تو کرپشن ہے دوسری غالباًزائنیسٹ کنٹرول ہے، جو اس کے ذرائع کو اسرائیل کی زیر ہدایت استعمال کرتا ہے ۔ یہ امریکہ میں یہودی ڈایا سپورا کا مشن ہے کہ وہ تمام اہم محکموں میں اہم حیثیت والی کرسیوں پر بیٹھ کر اسرائیل کی مرضی کے کام کرتے اور اس کی حکمت عملی کو پروان چڑھاتے ہیں۔ ان ایجنسیوں اور ڈپارٹمنٹس میں یو ایس ایڈبھی پوری طرح شامل ہے۔ راقم نے جب لائبیریا میں یو ایس ایڈ میں ایک امریکن کنٹریکٹر کے طور پر کام کیا تو یہ حقیقت آشکار ہوئی۔ ہمارا ایک چھوٹا سا شعبہ تھا جس میںدو بڑے افسر یہودی اور ایک یہودی رابائی بطور مشیر کام کرتے تھے۔ان لوگوں نے مجھے ، ایک پاکستانی مسلمان کو بڑی مشکل سے ایک سال برداشت کیا اور پھربہانہ بنا کر دوسال کا کانٹریکٹ ایک سال کا کر کے نکال باہر کیا۔کیا عیش کی زندگی تھی ان ڈائیریکٹ ہائیر افسروں کی، کچھ نہ پو چھیے۔