ایران اسرائیل جنگ

تاریخ تو یہی کہتی ہے کہ وقت کی لگا میں جب بھی کسی طاقت ور شخص، گروہ یا قوم کے ہاتھوں میں آئیں تو اصول کا قتل ہو گیا، انصاف کا سر کاٹا گیا اور خون ریزی نے جشن منایا، یہ ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے اور سدا ایسا ہی ہوتا رہے گا، ستر ھیوں اور اٹھارویں صدی نظریات کی صدیاں تھیں ان صدیوں میں انسان دوستی کا پرچم سر بلند ہوا، انسان کا ذہن انسان دوستی اور انسان پرستی کی جانب مائل ہوا، انسان شناسی کی بات ہوئی اور خدا پرستی سے زیادہ انسان پرستی رجحان بڑھا، یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ادب کی دو بڑی تحریکیں MODERNISM اور POST MODERNISM انسانی ذہن کو خدا کی بجائے انسان کی جانب مائل کر رہی تھی، مغرب میں چرچ کے خلاف جو جد و جہد تھی اس نے ذہن تبدیل کرنے میں مدد دی، سترھویں اور اٹھارویں صدیوں میں جو تخلیق ہوا اس کا مقصود و منتہا ایک ایسے سماج کا قیام تھا جو BARBARRISM سے ایک پر امن معاشرے میں RANSFORM ہو جائے مجھے کہنے دیجیے کہ ان کوششوں میں روسی ادب نے گراں قدر خدمات انجام دیں مگر اسی وقت جب مغرب میں MODERNISM اور POST MODERNISM کی تحاریک چل رہی تھی دنیا میں جنگ عظیم اول کا ڈھول بجایا جا رہا تھا، ایک
معرکہ جو COMMUNISM اور CAPITALISM کے درمیان ہونے والا تھا وہ مؤخر ہو گیا اور یورپ کی سای قوتیں جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوم کی تیاریوں میں جٹ گئیں، نتیجہ تو یہ بھی نکالا گیا کہ جرمنی سمیت کچھ اور ممالک کی PRODUCTS کو عالمی منڈی میں داخل ہونے سے روکا جا رہا تھا اس لئے جنگ کا حل نکالا گیا، اگر اس مفروضے کو قبول کر لیا جائے تو اس کے پیچھے بھی سرمایہ دارانہ ذہنیت نظر آتی ہے، بہر حال دنیا کے بڑے سیاست دانوں اور سرمایہ داروں کو مذکورہ بالا صدیوں کے نظریات پسند نہیں آئے ان نظریات میں ان کے لئے کشش نہ تھی عوام کو جھانسا دینے کے لئے عظیم تخلیق کاروں کا ذکر یا ان کے اقوال کا حوالہ ان کے قد کو بڑھا دیتا تھا یہ شعبدہ بازی آج بھی جاری ہے کہنے کا مطلب یہ کہ وہ نظریات نہ سیاست دانوں کے کام کی چیز تھی نہ سرمایہ داروں کی، اور ہوا تو یہ بھی کہ اہل تقوی نے جب سکہ کا ذائقہ چھکا تو انہوں نے بھی تقوی پان کی پچکاری کی طرح کسی گلی کے موڑ پر تھوک دیا، مجھے یاد ہے جب مارٹن لوتھر کنگ کے پیرو کاروں نے امریکی سیاست دانوں سے کہا کہ وہ سچائی کا راستہ اپنائیں تو امریکی سیاست دانوں نے ناک سکیڑ کر کہا تھا کہ کوئی دوسرا جھوٹ کو سچ بنا کر ہمارا گلا کاٹ دے گا اس گفتگو سے اتنا تو اندازہ آپ کو ہو ہی گیا ہوگا کہ سیاست کی دنیا میں اصول اور انصاف کی گنجائش رہ نہیں گئی اور وہ ادارہ جو اقوام متحدہ کی صورت میں اس لئے بنایا تھا کہ کمزور اقوام کو طاقتور اقوام کے مقابلے میں انصاف ملے گا اس ادارے کو عضو معطل بنا کر چھوڑ دیا گیا جو کسی کام کا رہا نہیں عالمی عدالت بھی بڑی طاقتوں کا منہ دیکھتی رہ جاتی ہے اس صورت میں نہ تو غزہ کو انصاف مل سکتا ہے، نہ ایران کو، لہذا یہ ثابت کرنا کہ غزہ کی کوئی خطا نہ تھی مگر بر بادی اس کا مقدر شہری، ایران پندرہ سالوں سے کہہ رہا ہے کہ ہمیں ایٹم بم نہیں بنانا مگر کون سنتا ہے اب کیونکہ یہ کہنا اسرائیل کا ہے کہ ایران ایٹم بم بنا لے گا اور وہ اسرائیل کے خلاف ہی استعمال ہوگا تو امریکہ برطانیہ، فرانس، جرمنی کو یہ بات ماننی ہی ہوگی کہ جو کچھ اسرائیل کہہ رہا ہے وہ سچ ہے اور ایران کو روکنا ہی ہوگا کہ وہ یورینیم کی افزودگی روک دے، اور اس نیک کام کے لئے دنیا کی ساری طاقتوں کو اسرائیل کا ساتھ دینا چاہیے، سو اسرائیل نے ایران پر حملہ کر دیا اور ساری طاقتیں کہہ رہی ہیں کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے حالانکہ دنیا کو یہ حق ایران کو ملنا چاہیے تھا ایران نے اپنا حق دفاع استعمال کیا تو ساری دنیا میں دکھاوے کے اجلاس ہونے لگے اقوام متحدہ سلامتی کونسل، جی سیون وغیرہ وغیرہ، اب اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری گوتریس لاکھ چیختے رہے رہیں کہ جنگ بند کر دو کون سنتا ہے غزہ میں بھی بمباری اس وقت تک جاری رہی جب تک سب کچھ تباہ نہیں ہو گیا اب بھی اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری لاکھ منع کرتے رہیں یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک مقاصد حاصل نہیں ہو جاتے ، ادھر ایک مقصد یہ تھا کہ بھارت کو چودھری بنانا ہے ادھر مقصد یہ ہے کہ مشرق وسطی میں مکمل طور پر اسرائیل کی چودھراہٹ قائم ہو، سوچتا ہوں کہ اسرائیل آنکھ کا تارا کیوں ہے تو بات سمجھ آتی ہے کہ اسرائیل دنیا کو بہترین سائنس دان، مفکر ، ڈاکٹرز انجینئر ماہرین معاشیات ENTERPRENUER دیتا ہے مسلم ممالک کا مذکورہ فیلڈز میں CONTRIBUTION صفر ہے لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ کمزور ملکوں کو جینے کا حق نہ دیا جائے، آج فرانس کے صدر بھی کہہ رہے ہیں کہ لبیا کو طاقت کے بل پر تباہ کرنا اچھا عمل نہ تھا، مجھے تو امن اور محبت کی بات ہی اچھی لگتی ہے میں تو اکثر یہ بھی سوچتا ہوں کہ وہ صلیبی جنگیں جو ستائیس سال چلیں ان میں کتنی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ہوگا، ایک قطعہ زمین جو مسلمانوں یہودیوں اور عیسائیوں کے لئے یکساں مقدس ہے اس پر قبضہ رکھنے کے لئے تینوں مذاہب نے کتنا خون بہایا ہے، کیا خون بہانا ضروری تھا ان مذاہب کے ماننے والوں کے لئے جو امن کی بات کرتے ہیں، کیا مذہب کے نام پر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا رہی ہے اور مذہب کے نام پر خون بہایا جا رہا ہے میکاولی سوچ کا بنیادی نکتہ ہی یہ ہے کہ کہو کچھ اور کرو کچھ اور یہ منافقت صدیوں سے نظر آ رہی ہے میرے خیال میں یہ جنگ جو مسلط کی گئی ہے ایک مسخرہ پن ہے اور یہ مسخرہ پن صرف ایشیا اور افریقہ میں ہی ہوتا ہے گزشتہ ایک صدی سے یورپ میں کوئی جنگ نہیں ہوئی جنگ کا میدان مشرق وسطی ہی رہا، ویسے پچھلے پچاس سالوں میں ان ممالک پر استعماری قوتوں نے حملہ کیا اور اس کا مقصد توانائی کے ذرائع پر کنٹرول حاصل کرنا تھا سو یہ کام طاقت کے بل پر کر لیا گیا، غور سے دیکھیں تو تو عراق، لبیا شام، افغانستان یمن میں جنگ تو ہوئی ہی نہیں ، طاقت کا بے محابا استعمال ہوا ، تباہی ہوئی اور بس،اب میڈیا جو مغرب کے ہاتھ میں وہ کچھ بھی کہے اس کو ایک عام شخص قبول کر لے گا مسلم ممالک نے تو تہیہ کر رکھا ہے کہ انہوں نے فہم کو ہاتھ نہیں لگانا یہی رویہ مغرب کی طاقت ہے، جھوٹ کو پھیلانے اور جھوٹ کو چھپانے کی کوششیں جاری ہیں، ایران اور اسرائیل کے درمیان پانچ دن سے لڑائی جاری ہے ایران کے پاس فضائی دفاع تو ہے نہیں تو اسرائیل اور امریکہ کا یہ کہنا کہ ہم نے ایران کی فضائی حدود پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے ایک دلچسپ مذاق کے سوا کچھ نہیں ماں یہ ضرور ہوا کہ ایران نے مزاحمت ضرور کی اور دنیا کو حیران کر دیا، مغربی میڈیا نے حماس کو بھی ایک بڑی طاقت PAINT کیا تھا اور دنیا کو باور کرایا تھا کہ جنگ ہو رہی ہے مزاکرات ہو رہے ہیں اب بھی دنیا کو بتایا جا رہا ہے کہ ایران سے دنیا کو خطرہ ہے ایران کہہ رہا ہے کہ ہم ایٹم بم نہیں بنا رہے اسرائیل اور مغربی میڈیا کا واویلا ہے کہ ایران ایٹم بم بنا رہا ہے، امریکہ کے صدر کہہ رہے ہیں ہم جنگ میں کود پڑیں گے ایسی جنگ جو جنگ ہے ہی نہیں بات اتنی سی ہے کہ طاقت ور نے کمزور کو دیوار سے لگانا ہے امریکہ اور ایران کا نہ کوئی مقابلہ نہ جوڑ، مگر ایران پر ساری بڑی طاقتوں کا دباؤ ہے ایران پچاس سالوں سے SANCTIONS سہہ رہا ہے اور تنہائی کا شکار ہے اب مقسط میں مزاکرات ہو رہے ہیں، مزاکرات ہمیشہ برابر کی طاقتوں کے درمیان ہوتے ہیں یہاں ایسا نہیں ہے ٹرمپ کے بیانات بہت CONFUSING ہیں ہر بیان کے بعد دنیا کو ان کے اگلے بیان کا انتظار رہتا ہے، امریکہ ایران کے جوہری اثاثے تباہ کر دے گا کیا ایسا ہو سکتا ہے کیا اس کے اثرات نہیں ہونگے کیا چین اور روس تماشہ دیکھیں گے کیا تاب کاری کے اثرات سے پورا ایشیا تجلس جائیگا اور یہ تماشا دیکھا جائیگا، ٹرمپ شو بز کے آدمی رہے ہیں ڈرامہ کیسے لکھا جاتا ہے اور ڈرامہ کیسے اسٹیج ہوتا ہے یہ بات ٹرمپ کو آتی ہے ایران کے عوام کی سانسیں سڑی بسی ایرانی مذہبی قیادت نے مسموم کر رکھی ہیں جو پچاس سال سے مسلط ہیں وہ مسلط ہیں ان کے پاس نہ کوئی پلان نہ کوئی وژن، عبادات کے نام پر دکھاوا اور RITUALS یہ چیزیں اب ایرانی قوم کے کام کی رہیں نہیں بہر حال ایرانی وفد سلطنت عمان پہنچ چکا ہے وفد کا کہنا ہے کہ وہ دباؤ میں کوئی مزاکرات نہیں کرے گا یہ تماشا بھی ہو لینے دیں سر پر بال کتنے رہ گئے ہیں وہ بھی مزاکرات کے بعد نظر آ جائینگے۔