پاکستان کی ریاست، سیاست، عدالت، صحافت ہر چیز جنرل عاصم منیر کے قدموں تلے!

پاکستان کی ریاست، سیاست، عدالت، صحافت ہر چیز جنرل عاصم منیر کے قدموں تلے!

پچھلے کئی ہفتوں سے جاری حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نام نہاد مذاکرات اُس وقت منجمد ہو گئے جب سپیکر قومی اسمبلی اور حکومتی مذاکرات کی ٹیم کے اعلان کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کی مذاکراتی ٹیم کو اڈیالہ جیل میں ملاقات کی اجازت نہ دی گئی۔ فارم 47کی حکومت نے ٹش کا زور لگا لیا لیکن اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات اس وقت تک نہ کرائی گئی جب تک جنرل عاصم منیر سے اجازت نامہ نہ آگیا، گویا حافظ جی کے سامنے سپیکر ایاز صادق اپنا سا شرمندہ منہ لیکر رہ گئے اور میاں شہبازشریف بھی گونگے بن گئے اور یہ بات ثابت ہو گئی کہ اس وقت اصل حکمرانی کس کی ہے۔
9 مئی کے بعد سے پاکستان تحریک انصاف کے راہنما اور سینیٹر اعجاز چودھری مسلسل جیل میں بند ہیں۔ سینیٹ کے کئی اجلاس ہو گئے مگر حکومت نے ان کے پروڈکشن آرڈرز کبھی جاری نہ کئے، آخر کار پی ٹی آئی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے لعن طعن کے بعد سینیٹ کے چیئرمین یوسف رضا گیلانی نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے گرین سگنل دینے کے بعد، پہلی مرتبہ سینیٹر اعجاز چوہدری کے سینیٹ میں آنے کیلئے پروڈکشن آرڈر جاری کر دئیے۔ اسلام آباد سے پولیس کی نفری انہیں اڈیالہ جیل سے لانے کیلئے روانہ کر دی گئی مگر وہاں پہنچے تو جیل کے سپرنٹنڈنٹ نے اعجاز چوہدری کو سینیٹ کے اجلاس کیلئے جانے کیلئے رہا کرنے سے صاف انکار کردیا۔ یعنی ایک سینیٹ چیئرمین کی حیثیت ایک اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ سے بھی بدتر اورکم تر ہے لیکن دراصل یہ انکار جیل سپرنٹنڈنٹ کا نہیں تھا بلکہ جنرل عاصم منیر کا حکم تھا جس کی تعمیل کی گئی اور جناب سابق وزیراعظم پاکستان، عالمی مقام اور موجودہ چیئرمین سینیٹ محترم یوسف رضا گیلانی اپنا لوکی ورگا منہ جھکا کر شرمندہ شرمندہ ہو کر خاموشی سے بیٹھ گئے۔یعنی ملک کے اس وقت کے شہنشاہ معظم عالی جاہ حافظ عاصم منیر شاہ نے ان کو بھی ذلیل و خوار کرادیا۔ ایک ڈھکوسلہ سا کیس ہے القادر یونیورسٹی کا جس میں عمران خان پر الزام ہے کہ انہوں نے اس یونیورسٹی کے حوالے سے برطانیہ آنیوالے 190ملین پونڈز میں خرد برد کر کے ادھر کا مال ادھر کر دیا۔ واضح رہے کہ القادر یونیورسٹی کو چلانے کے لئے ایک ٹرسٹ فنڈ قائم کیا گیا ہے جس سے ٹرسٹیز کو ایک روپیہ بھی نہیں مل سکتا ہے، غیر قانونی طور پر عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی بھی ٹرسٹیز ہیں اور 190 ملین پونڈز سیدھا سپریم کورٹ کے پاس گئے ہیں جس پر انہیں خاصہ منافع بھی مل رہا ہے۔ عدالت کافی عرصہ بیشتر اس کیس کا فیصلہ کرچکی ہے جس کا اعلان کرنا باقی ہے۔ عدالت نے پہلے اعلان کیا کہ فیصلہ 13دسمبر کو سنایا جائے گا مگر کسی کے کہنے پر عین وقت پر کیاگیا کہ فیصلہ اب 6 جنوری کو سنایا جائے گا۔ پھر 6 جنوری کو اسٹیج سج گیا سب لوگ جمع ہو گئے پنڈال میں مگر پھر کسی کے حکم پر کہاگیا کہ یہ فیصلہ 13 جنوری تک کے لئے موخر کر دیا گیا ہے۔ عمران خان سمیت پورا پاکستان 13 جنوری کا انتظار کررہا تھا، جج صاحب عدالت بھی پہنچ گئے اڈیالہ میں بلکہ وقت سے پہلے صبح ساڑھے آٹھ بجے ہی اڈیالہ کی جیل عدالت میں پہنچ گئے جب عدالت کا فیصلہ صبح گیارہ بجے سنایا جانا تھا مگر پھر عین موقع پر بادشاہ سلامت عاصم منیر مدظلہ کا حکم صادر ہوا کہ کسی بھی طرح سے یہ فیصلہ آج نہ سنایا جائے۔ جج صاحب نے بہانہ یہ بنایا کہ چونکہ اڈیالہ جیل کے حکام عمران خان کو اڈیالہ ہی کےاندر قائم عدالت میں وقت پر لانے سے معذور رہے اور بشریٰ بی بی بھی صبح ساڑھے آٹھ بجے نہیں آئیں لہٰذا فیصلہ ایک مرتبہ پھر موخر کیا جاتا ہے یعنی کہ ایسے بے شرم جج اور ایسی بے غیرت عدالت پر لعنت ہے جو اس جنرل کے سامنے ہیرا منڈی کی طوائف کی طرح اشاروں پر ناچ رہی ہے۔ اس سے پہلے طوائف الملوکی تو سنا تھا مگر اب اسلامی جمہوریہ پاکستان میں طوائف گیری کا رقص جاری ہے۔ ان تمام باتوں سے اور کچھ نہ سہی مگر ایک بات تو ثابت ہو گئی۔ بقول فاطر غزنوی
گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے!
جوگ لوگ اب بھی اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ پاکستان کی سیاست، حکومت، صحافت اور عدالت میں پاکستان کی فوج کوئی مداخلت نہیں کرتی، کم از کم اب تو ان کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ پاکستانی فوج کے چند جنرلوں کاٹولہ سویلین حکومت کی آڑ میں نہ صرف پاکستان بلکہ اپنی آرمی فنانشل ایمپائر بھی گزشتہ 76 برسوں سے بڑی کامیابی کیساتھ چلارہی ہے۔ اس ہفتے جنرل عاصم منیر نے پشاور میں سویلین سیاسی آفیشلز کے بیچ میں بیٹھ کر بادشاہوں کی طرح سے فرمان جاری کیا ہے کہ ریاست ہے سیاست ہے یعنی جنرل اور فوج اس غلط فہمی یا خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ ریاست فوج ہے جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ عوامی طاقت اور عوام ریاست ہوتے ہیں، جنرلز تو آتے جاتے رہتے ہیں مگر عوام سدا رہتے ہیں جو کہ ریاست کے علمبردار ہوتے ہیں، کہاں پر ہے آج جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیاء اور جنرل مشرف؟ اگر یہ ریاست ہوتے تو ریاست تو کب کی ان جنرلوں کی طرح مر چکی ہوتی۔ مگر ریاست زندہ ہے اور زندہ رہے گی۔

Ejaz Farooqi

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے