اکتوبر 2001 میں افغانستان پر فضائی حملوں سے شروع ہونیوالی جنگ دہشت گردی ابھی تک جاری ہے۔ اگست 2021 میں کابل سے نیٹو افواج کے انخلاء کے وقت بھی اس جنگ کے اختتام کا اعلان نہیں کیا گیا بلکہ یہ تاثر دیا گیا کہ جب تک تمام دہشت گرد گروہوں کا خاتمہ نہیں ہوجاتا یہ جنگ جاری رہے گی۔ امریکی مفادات کے خلاف لڑنے والے ان مسلمان شدت پسندوں کے لیے کبھی کسی رعایت یا معافی کا اعلان نہیں کیا گیامگر اب اچانک ایک نہایت مطلوب دہشت گرد کو ’’ معقول اور معتدل‘‘ قرار دیکر اسے نہ صرف معاف کر دیا گیا ہے بلکہ اسے ایک بڑے ملک کا سربراہ بھی تسلیم کر لیا گیا ہے۔ اس سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوے اس دہشت گرد تنظیم کے جنگجو سربراہ کیساتھ مذاکرات بھی شروع کر دیے گئے ہیں۔ یہ حیران کن تبدیلی صرف واشنگٹن میں نہیں آئی بلکہ مذکورہ بالا جنگی گروہ کے سربراہ نے اپنے آپ کو نئے دوستوں کے لیے مزید قابل قبول بنانے کے لیے اپنا نام اور وردی دونوں تبدیل کر لیے ہیں۔ چند روز پہلے تک ماضی کے یہ ’’دہشت گرد‘‘ خاکی وردی پہنے ہوتے تھے اور اکثر انکے کاندھے سے ایک بندوق بھی لٹکتی نظر آتی تھی۔ اب یہ کیونکہ ’’ معقول اور معتدل‘‘ ہو گئے ہیں اس لیے انہوں نے اب سوٹ بوٹ پہننا شروع کر دیا ہے۔ سی این این پر اب انکی چمکیلی ٹائی دیکھ کر یہ گمان ہی نہیں ہوتا کہ کل تک انکے سر کی قیمت پورے دس ملین ڈالر تھی اور انکے دشمن یہ انعام حاصل کرنے کے لیے بیتاب تھے۔ تاریخ کی اس کروٹ نے ہمیں انکے دشمنوںکو کف افسوس ملتے اور دوستوں کو انگشت بدنداں ہوتے دکھایالیکن جو ہونا تھا وہ ہو چکا۔اب ابو محمد الجولانی احمد الشرع بن چکے ہیں ۔ ایک ہفتہ پہلے دمشق میں جب الجولانی نے امریکی سفارتکاروں سے ہاتھ ملائے تو انہوں نے جنگجوئوں والی خاکی وردی پہن رکھی تھی۔ مغربی صحافیوں کوجب امریکہ کی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ اور ایک دہشت گردکے مابین مذاکرات کی اطلاع ملی تو انہوں نے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی ۔ پوچھا گیا کہ وہ دس ملین ڈالر کی بائونٹی کہاں گئی ‘ ہیئت تحریر الشام کیا ابھی تک ایک دہشت گرد تنظیم ہے ‘یہ قدغن اگر موجود ہے تو پھر اس بات چیت کا کیا جواز ہے۔
اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ Barbara Leaf کے نہایت اطمینان سے ان مشکل سوالوں کے جواب دینے سے یہ عقدہ کھلا کہ یہ صحافتی استفسار انکے لیے قطعاًغیر متوقع نہ تھا بلکہ وہ تو پوری تیاری کیساتھ انکے جوابات دینے آئی تھیں۔ امریکی میڈیا کے مطابق سوال و جواب کی اس مفصل نشست میں باربرا لیف نے نہ صرف امریکہ شام تعلقات کی پرانی تاریخ بیان کی بلکہ دمشق کے حکمرانوں کے ساتھ ایک نئے تعلق کے امکانات کی گرہ کشائی بھی کی۔ باربرا لیف نے کہا کہ احمد الشرع نے انہیں دشمنوں سے انتقام نہ لینے‘ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرنے‘ داعش کی سرکوبی کرنے اوردوسرے ممالک سے معاہدوں کی مکمل پابندی کرنے کا یقین دلایا ہے ۔ باربرا لیف نے یہ انکشاف بھی کیا کہ امریکہ دمشق سے بشارالاسد کی رخصتی سے پہلے ہی باغی گروہوں سے مذاکرات کر رہا تھا۔ امریکی سفارتکار نے اپنے ملک کی اس حیران کن قلابازی پر ملمع کاری کرتے ہوے یہ بھی کہا کہ احمد الشرع کیسا تھ مذاکرات ایک ایسا وقتی بندو بست ہے جوفریقین میں باہمی اعتماد سازی کے ذریعے رفتہ رفتہ ایک مستقل تعلق میں ڈھل سکتا ہے۔
دمشق میں ایک ہفتے سے موجود امریکی سفارتکاروں کو صحافیوں کے تندو تیز سوالات سے نجات دلانے کے لیے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے احمد الشرع کے سر پر لگائی ہوئی دس ملین ڈالر کی رقم کی تنسیخ کا فوراًاعلان کر دیا۔ اب ہیئت تحریر الشام کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکال کر Baptize کرنے یعنی بپتسمہ دینے یا پاک و صاف کرنے کا عمل باقی ہے۔ ظاہر ہے امریکہ اگر دمشق میں بارہ برس بعد اپنا سفارت خانہ کھولنا چاہتا ہے تو اسے پرانے دشمنِ جاں اور نئے اتحادی کو یہ سہولت تو دینا پڑے گی۔ اس رعایت کے بدلے میں امریکہ کو اتنا کچھ مل جائے گا کہ جسکی توقع چند روز پہلے تک امکانات کے منطقے سے باہر تھی۔ ایک طرف دمشق سے ایران کی مکمل بیدخلی ہو جائیگی تو دوسری طرف روس بحیرہ روم کے گرم پانیوں سے دستبردار ہونے کے بعد مشرق وسطیٰ کے علاوہ افریقہ میں بھی اپنا اثر رسوخ برقرار رکھنے میں مشکلات کا شکار ہو جائے گا۔ گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کی سرحدیں محفوظ ہو جائیں گی۔ تزویراتی اعتبار سے شام جیسا اہم ملک امریکہ کے ہمنوا عرب ممالک کا ہمرکاب ہو جائے گا۔ قطر اور متحدہ عرب امارات سے ترکی اور اس سے آگے یورپی ممالک تک تیل اور گیس کی پائپ لائینیں بچھا دی جائیں گی اور مشرق وسطیٰ میں ایک نیا سیاسی منظر نامہ اپنی تب و تاب دکھانے لگے گا۔اطلاعات کے مطابق دمشق میںبرطانیہ‘ جرمنی‘ فرانس اور سوئزرلینڈ کے سفارت خانے چند دنوں میں کھل جائیں گے۔ قطر اور اردن کے وزرائے خارجہ کئی دنوں سے احمد الشرع کیساتھ مذاکرات میں مصروف ہیں۔ لگتا ہے راوی نے چین ہی چین لکھا ہے۔شام کی جنگ زدہ سرزمین اور غربتوں کے مارے ہوے لوگوں کی حالت زار یہی بتا رہی ہے کہ الشرع کے پاس امریکہ سے دوستی کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔ شام کی معیشت میں اتنی سکت نہیں کہ وہ امریکہ کی لگائی ہوئی اقتصادی پابندیوں کا مقابلہ کر سکے۔ امریکہ نے کرد ملیشیا سے ملکرشام کے بیش بہا تیل اور گیس کے ذخائر پر بھی قبضہ کر رکھا ہے۔ شاید مال و دولت کا یہ ذخیرہ یا اسکا کچھ حصہ ہی دمشق کو واپس مل جائے۔ کچھ حاصل کرنے کے کچھ کھونا تو پڑتا ہے۔
0