میاں ریاض گل کاکا خیل میرے دوستوں کی فہرست میں اک بہترین اضافہ ہیں اور وہ اپنے نام کی طرح دینی و دنیاوی معلومات میں وسیع ذخیرہ لئے ہوئے ملتے ہیںانھوں نے دنیاوی لحاظ کی موجودہ سیاست کا محاکمہ کرتے ہوئے مجھے یہ یک سطری لطیفے بھیجے جو آج کے کالم کا عنوان ہیں ان یک سطری لطائف کا تعلق ہماری معاشرتی زندگی سے پیوست ہے سب جانتے ہیں کہ ان میں سچائی کی عام سی گرد بھی نہیں ہے مگر عقل جو گدھوں کی پیٹھ پر راہ ِ حیات کی مسافت طے کر رہی ہو وہ جلد یقیں کے غلبے میں ڈھل جاتی ہے جس سے وقت ماتم کناں ہو کر،قدرت کے تابع ہو کر اسی الناک صورت میں آگے بڑھ جاتا ہے وقت کے شناختی کارڈ پہ ان لطیفوں کی صورت کچھ اس انداز سے نمایاں ہونا معمول سا ہے
۱)شدید الفاظ میں مذمت کی ہے (۲)اہل کاروں کو معطل کر دیا گیا (۳)تحقیقاتی کمیٹی بنا دی گئی (۴)دہشتگردوں کو امن برباد کرنے کی اجازت نہیں دیں گے (۵)دشمن ہماری شرافت ہماری کمزوری نہ سمجھے (۶)انکوائری کی جائے گی (۷)کیفر ِ کردار تک پہنچایا جائے گا (۸)دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے (۹)سیاست سے کوئی تعلق نہیں (۱۰)نوٹس لیکر اجلاس طلب کر لیا گیا (۱۱)آئین سے کوئی بھی مار وا نہیں ہے (۱۲)وزیر اعظم عوام میں گھل مل گئے (۱۳)باہمی دلچسپی کے اُمور پر تبادلہ خیال کیا گیا (۱۴)میڈیا مکمل طور پر آزاد ہے (۱۵)قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دے جائے گی (۱۶)سول اور ملٹری قیادت ایک صفحے پر ہے (۱۷)غریب کو اُس کی دہلیز پر انصاف ملے گا (۱۸)ہر صورت میں میرٹ رکھا جائے گا (۱۹)قوم بیرونی دشمنوں کے خلاف متحد ہے (۲۰)کرپشن ختم کر کے لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے ۔یہ تھے میرے محترم میاں ریاض صاحب کے تجزیاتی طور پر یک سطری لطیفے مگر اک یک سطری لطیفہ شاید ان کے معلوماتی احاطے سے باہر رہ گیا اُسے میں آپ کی نذر کر رہا ہوں وہ ہے کہ انتخابات صاف شفاف،عوامی اُمنگوں کے مطابق ہوئے ہیں ان مندرجہ بالا لطیفوں میں راوی کو یقین ِ کامل ہے کہ یہ لطائف آپ کی نظروں و سماعتوں سے ٹکرائے ہوں گے کسی ایک میں بھی سچائی کا عنصر تک نہیں پایا جاتا ان لطائف میں یہ لطیفہ ہر قائد ِ جماعت یا حکمران کی زبان سے نکلتے پایا جاتا ہے کہ غربت کو ختم کرنا ہمارا مشن ہے اس مشن میں ان کے اچھے خاصے اثاثہ جات میں اضافہ تو ہوتا ہے مگر غربت کی دلدل میں پھنسے کسی غریب کو سر نکالتے ہماری تاریخ نے نہیں دیکھا خط ِ غربت سے نیچے رہنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ اس بات کی دلیل ہے کہ حکومت کے معاشی حالات کو سنبھالنے میں ناکامی سے دوچار ہے مگر کیا کروں ان سیاسی جماعتوں کے پیرو کاروں کا جو ہر جھوٹ کو ،ہر فریب کی بات کو والہانہ طریقے سے قبول کرتے ہوئے ان کی تشہیر میں دیر نہیں لگاتے سوشل میڈیا پر تو تحریک ِ انصاف کے تنخواہ دار ملازمین عرصہ دراز سے دل لگی کی باتوں کوجرمنی کے سابق آمر ایڈولف ہٹلر کے نازی وزیر برائے پروپیگنڈا جوزف گوئبلز کی طرح جھوٹ کو سچ میں بدلنے کا گُر جانتے ہیں اسی لئے وہ اپنی روزی روٹی حلال کرنے کے لئے اس قول ِ بے ایمان کی پیروی کرتے ہوئے کہ جھوٹ کو اتنی مرتبہ دہرائیں کہ وہ لوگوں کو سچ معلوم ہونے لگے پر تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کے تنخواہ دار ملازمین پوری تندہی سے عمل پیرا ہیں اور بے شعوری کی آب و ہوا میں سانس لینے والی مخلوق ہی ان کی منصب پر فائز ہونے کی اُمید ِ واثق ہے ملک میں نو مئی کا فیصلہ ہو کہ نہ ہو مگر حالات کی روانی اس بات کا عندیہ دے رہی ہے کہ ملک میں فوجی حکومتیں قائم ہونے میں دیر نہیں لگے گی کیونکہ عدلیہ میں شخصی تضادات و سیاسی عمل کا حصہ مخصوص نشستوں کے حوالے سے سامنے آنے پر آنکھوں پر پٹی باندھے میزان میں جانبداری کے جھکائو میں مسلسل اضافے سے انصاف اپنا وزن اپنی غیر جانبداری رخصت کر چکا ہے تو ضروری ہے کہ انصاف کی پامالی کا سدباب کیا جائے اب ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر منتخب ہو گئے ہیں تو اس میں پاکستان کو یا ملکت ِ اسلامیہ کے کسی بھی ملک کو فائدے کی توقع رکھنا حماقت ہو گی امریکہ اسرائیلی کا دوست ہے اور وہ دیگر غیر مسلم اتحادیوں کے ساتھ مل کر فلسطین میں مسلمانوں کی نسل کشی کر رہا ہے جبکہ مسلم اُمہ صرف مذمتی بیان دے کر یا کہہ لیں کہ یک سطری لطیفہ سنا کر جہاد سے منہ موڑ رہی ہے اور فلسطین کے نہتے مسلمانوں کی قتل وغارت کو تماشائی بن کر بس دیکھے جا رہی ہے سوائے ایران کے کوئی ان اسرائیلیوں سے نبرد آزما ہونے کوتیار نہیں ۔دین ِ اسلام کا ذمہ اگر اللہ تبارک تعالی نے خود نہ لیا ہوتا تو آج کا مسلمان اُسے کب کا گنوا چکا ہوتا کیونکہ اس دور کے مسلم کا ہدف دین اسلام کی سر بلندی نہیںاپنی نفسانی سہولیات و ذاتی مفادات کی گھٹریاں ہیں جنھیں وہ بغل میں لئے اپنی غرض سے تعلق بنائے پھرتے ہیں یہ یک سطری والے لطیفے جس میں مذمتی بیانات بڑی کثرت سے سنائے جاتے ہیں وہ بھارتی یا اسرائیلی سرکار کی اسلام دشمن کاروائیوں پہ مذمت ہوتی ہے مگر عملی کاروائی کبھی دیکھنے کو نہیں ملی اصل وہ صرف مذمت کرنے کو ہی فخر وانبساط کا زینہ سمجھتے ہیں اسلامی احکامات سے بیزاری کا یہ نتیجہ ہے کہ ہم سب اندھیرے کنویں کی سیڑھیاںخود اُتر رہے ہیں احساس جب بیدار ہوا تو اُس وقت تک جانے کتنے عشرے ہماری مرقد پرہمیں کوستے ہوئے ماتم کناں ہونگے جھوٹ ، سچ کے اس ملے جلے معاشرے میں سیاسی جماعتوں میں (سوائے جماعت ِ اسلامی کے )جھوٹ کی کثرت بہت زیادہ ہے تو ذرا سوچیں کہ جہاں جھوٹ اور سود دونوںحکمرانوں کے زیر ِ سایہ رواں ہوں اور دعوی یہ کریں کہ ہم اسلامی قدروں کی پامالی برداشت نہیں کریں گے تو یہ بھی یک سطری لطیفہ ہی ہوا نا ۔
0