بالآخر پاکستان کی عدالت عالیہ نے حق اور انصاف پر مبنی یہ فیصلہ سنا دیا کہ نہ صرف پاکستان تحریک انصاف کا سیاسی وجود ہے، اس کو خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں بھی ملیں گی۔ تیرہ رکنی بنچ نے اکثریتی فیصلہ دیا جس میں حکومتی اور عسکری نمائندے منصف قاضی عیسیٰ کی مرضی شامل نہیں تھی۔ یہ مقام اس لیے خوشی کا ہے کہ اس فیصلہ سے ایک امید کی کرن پھوٹی ہے کہ شاید پاکستان ایک کربناک دور سے نکل جائے گا۔عدالت نے اس بات کا نوٹس لیا کہ کس طرح الیکشن کمیشن نے بد ذاتیاں کیں اور کھل کر تحریک کے خلاف فیصلے لیے۔اب اس کو جواب دہی کرنی پڑے گی۔اور اپنے غلط فیصلے بد لنے پڑیں گے۔اب سپریم کورٹ کے فیصلے سے تحریک اپنی حیثیت میں ایوان میں پہچانی جائے گی۔ اور سنی اتحاد سے علیحدہ۔ اور بہت امکان ہے کہ ا گرجعلی ووٹوں کا فیصلہ تحریک کے حق میں ہوتا رہا تو خان کی حکومت بھی بن سکتی ہے۔
راقم یہ سوچ کر کانپ جاتا ہے کہ اگر سپریم کورٹ یہ فیصلہ تحریک کے خلاف کر دیتی تو کیا ہوتا؟ یہ اللہ ہی ہے جس نے ان آٹھ ججوں کے دل میںعدل اور انصاف کا عزم ڈالا۔ اور شیطانوں کو شکست دی۔ورنہ عدالت کے نزدیک ریڈ زون میں فوجی دستے ٹرکوں اور دوسری گاڑیوں میںتعینات کر دیے گئے تھے کہ جج حضرات محتاط رہیں۔اللہ کا شکر ہے کہ ان آٹھ منصفوں نے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہا اور پاکستان تباہی کے گڑھے میں گرتے گرتے بچ گیا۔
جو لوگ عمران خان پر غداری کے مقدمے چلانا چاہتے ہیں وہی لوگ در اصل ملک کے غدار ہیں۔جیسے کہ قمر باجو ہ، سابق کمانڈر ان چیف، جس نے خان کی حکومت گرانے کی سازش کی۔ اور وہ تمام لوگ جو اس سازش میں شریک ہوئے، جسے لندن پلان کہا جاتا ہے، جیسے نواز شریف، اس کا بھائی شہباز اور حرافہ بیٹی مریم صفدر، زرداری فیملی، ایم کیو ایم والے۔ وہ تمام لوگ جو بڑے ہنستے کھیلتے مخلوط حکومت میں شامل ہوئے جن کو نظام الدین کی پشت پناہی حاصل تھی۔خصوصاً جن لوگوں نے تحریک کو چھوڑ کر مخلوط حکومت میں شمولیت اختیار کی، سب جانتے بوجھتے ہوئے۔ اس سے بڑی سازش اور غداری اور کیا ہو گی کہ ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹایا گیا۔ان غداروں پر مقدمہ چلایا جائے اور قرار واقعی سزا دلوائی جائے۔ان سازشیوں میں بلا شبہ میڈیا مالکان بھی شامل ہیں جنہوں نے حقائق سے رو گردانی کی اور عوام الناس کو حقیقی حالات سے آگاہ نہیں کیا جب کہ انہیںمعلوم تھا کہ کون کیا کر رہا ہے؟
پاکستان کے غداروں کی فہرست بہت لمبی ہے لیکن ان میں جو شامل ہیں وہ یہ نہیں جنکا نام لیا جا رہا ہے۔اسے کہتے ہیں الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔عمران خان ایک بڑے دل کا مالک ہے۔ جس نے قید تنہائی کی صعوبتیں کاٹی ہیں، اور جواںمردی کے ساتھ، ایک مرد مومن کی مثال، جس پر اگر آج علامہ اقبال بھی زندہ ہوتے تو فخر کرتے۔ اس شیر مرد نے کہہ دیا ہے کہ وہ کوئی کسی کے خلاف کینہ، بغض یا عناد نہیں رکھتا اور نہ ہی اس کا کوئی بدلہ لینے کا ارادہ ہے۔اس لیے مخالفین کو سکھ کا سانس لینا چاہیے، اور جیسے حالات پلٹا کھاتے ہیں ان کو صبر شکر کے ساتھ قبول کر لینا چاہیے۔اس وقت پاکستان کو ایک ایماندار، معاملہ فہم اور مخلص قائد کی سخت ضرورت ہے۔ اس تباہی کے دہانے پر پہنچی کشتی کو وہی مرد مومن بچا سکتا ہے۔ دنیا میں اس کی ساکھ ہے۔اگر اس کی حکومت بن گئی تو چاروں طرف سے سرمایہ کاری کے دروازے کھلنے شروع ہو جائیں گے۔بیرون ملک پاکستانی ہنسی خوشی عمران خان کی آواز پر ہدیئے، عطیات،اور ہر طرح سے امداد دینا شروع کر دیں گے۔ بین الاقوامی ادارے بھی خان پر اعتماد کرتے ہیں کہ وہ بمقابلہ اپنے مخالفین کے، نہ خود کھاتا ہے اور نا کھانے دیتا ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے حالات اسقدر بگاڑ دئیے گئے ہیں کہ خان کے لیے بھی یہ کوئی آسان چیلنج نہیں ہو گا۔اس نے ایک سال جیل میں رہ کر خوب غور و خوض کیا ہے اور زیادہ امکان ہے کہ وہ انتہائی دانشمندانہ اور مدبرانہ فیصلے کرے گا۔اس کے لیے پہلی ترجیح غریب عوام ہیں، جن کے لیے اس نے اپنے پہلے دور حکومت میں کتنی ہی سکیمیں چلائی تھیں، اور نئی حکومتوں نے محض اپنی انا کی تسکین کے لیے انکو بند کروا دیا تھا۔ یہ بلا وجہ نہیں ہے کہ عوام خان کو پسند کرتے ہیں۔ وہ اس میں اور دوسرے سیاستدانوں میں تمیز کر سکتے ہیں۔حکومت میں آتے ہی عمران خان کو ملک کی معیشت کو سنبھالنے کا بہت مشکل چیلنج ہو گا۔ وہ کس طرح قرضوں کے انبار کو کم کر سکے گا؟ جن میں گردشی قرضے اور آئی پی پی (بجلی بنانے والے پرائیویٹ ادارے) کی ادائیگیاں، اور ملکی بینکوں سے لیے ہوئے قرضوں پر سود کا انبار تو ایک طرف، اور دفاعی بجٹ کا انبار دوسری طرف۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر قرض خواہ سے مذاکرات کے ذریعے کچھ لین دین کیا جائے گا۔محکمہ مال کے راشی افسروں سے جان چھڑانا ضروری ہو گا۔اور بے غیرت تاجروں اور صنعت کاروں کو سمجھانا ہو گا کہ وہ کیوں اور کیسے اپنے جائز ٹیکس ادا کریں۔موجودہ حکومت کا سارا زور اپنی جیبیں بھرنے پر ہے۔ اور وہ اسی فارمولے پر عمل کر کے اپنے حواریوں کو بھی ساتھ ملائے رکھتے ہیں۔ ملک گیا بھاڑ میں۔
اس وقت ملک کے بڑے مسائل میں، بجلی کی پیداوار اور فراہمی سر فہرست ہے۔بجلی کی چوری کو روکنا ہنگامی بنیادوں پر کرنا چاہیئے۔اور سستی بجلی بنانے کی تمام سہولتوں کو بروئے کار لانے کی اشد ضرور ہے۔راقم نے کہیں سے سنا کہ جنوبی پنجا ب میں جو ایک بہت بڑا سولر پینلز کا ذخیرہ بنایا گیا تھا وہ صرف نمائشی ہے۔یہ شہباز شریف کا کارنامہ ہے۔سندھ میں جہاں ہوا چکیوں سے سستی بجلی بنائی جا سکتی ہے ، اسے بھی آئی ا ی پی کیوجہ سے کوئی توجہ نہیں دی گئی۔خان نے جو آبی ڈیم بنانے کے منصوبے شروع کیے تھے وہ بھی سرد خانوں میں آخری سانسیں لے رہے ہیں۔حیرانی اس بات پر ہے کہ دنیا کا وہ کونسا ملک ہے جس کے بڑے اسی کی بوٹیاں نوچ رہے ہوں؟ہر آنے والی حکومت نے بجلی کی ضرورت کو پورا کرنے کو اپنی جیبیں بھرنے کا وسیلہ بنایا۔ اور عوام کو ہمیشہ اندھیروں میں رکھ کر اصل مسئلہ کو کبھی حل نہیں کیا۔کیا کبھی ایسے سیاستدانوں، بیورو کریٹس اور طاقتور گروہوں کا محاسبہ ہو گا یا نہیں؟
پاکستان اس وقت ایک دو راہے پر کھڑا ہے۔ ایک طرف وہ طاقتیں ہیں جو ملک میں کرپشن کا نظام چاہتی ہیں۔ دوسری طرف عوامی طاقت جوکر پشن کا نظام نہیں چاہتی۔اب عدالت عالیہ کے فیصلہ سے یہ امید بڑھ گئی ہے کہ عوام کی مرضی چلے گی۔ اور پاکستان خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔یہ راہ کٹھن ضرور ہو گی کیونکہ پاکستان کی معیشت انتہائی مشکلات کا شکار ہے۔ قرضوں کے پہاڑ اور دفاعی ادارے کے اخراجات کمر توڑ ہیں۔ اتنا مالیہ اکٹھا نہیں ہوتا جتنا چاہیے۔ اس لیے نئی حکومت کو بہت سے نا پسندیدہ اقدامات لینے پڑیں گے۔بجلی کے نا مکمل منصوبوں کو فعال کرنا ہو گا۔ جو بالآخر پاکستان کی بجلی اور پانی کی ضروریات کو پورا کریں گے ،عمران خان کی زراعتی حکمت عملی سے اس سال اتنی زیادہ گندم پیدا ہوئی لیکن شہباز شریف نے باہر سے گھٹیا گندم درآمد کی اور کتنا زر مبادلہ استعمال کیا محض اپنی اور اپنوں کی جیبیں بھرنے کے لیے۔یہ سب تاریخ کا حصہ ہیں۔عمران خان کی حکومت آنے کے بعد یہ اللے تللے ختم کر دیے جائیں گے اور شفاف فیصلے کیے جائیں گے۔اور قوم راہ مستقیم پر چل پڑے گی۔ ابھی تو یہ سہانے خواب ہیں لیکن ان میںحقیقت بھی ہو سکتی ہے۔
عوام نے ۸فروری کے انتخابات میں اپنا فیصلہ سنا دیا تھا ابھی اس پر عمل درآمد باقی ہے۔ جن قوتوں نے انتخابات کے نتائج کو دھاندلی کر کے الٹ کر دیا، وہ ہی غدار ہیں۔ اور پاکستان کے دشمن ہیں۔خدا ان کو غارت کرے۔راقم اس کا ذمہ وار شہباز شریف اور اس کے خاندان، نون لیگ اور ان کے حلیفوں کو سمجھتا ہے۔ان سب کو ایک دن جواب دینا پڑے گا۔ اور دینا بھی چاہیے۔
اب ایک حیرت انگیز خبر ملاحظہ ہو: ڈیوڈ رے گریفن، Co-Editor “9/11 and American Empire: Intellectuals Speak out” فرماتے ہیں: یہ کتاب ہمارے وقتوں کی سب سے اہم کتاب ہے۔اس میں نا قابل تردید ثبوت پیش لیے گئے ہیں، کہ۱۱۔۹ پر جو کمیشن کی رپورٹ پیش کی گئی تھی وہ ایک مکمل جھوٹ تھا۔جسے دہشت گردوں کا حملہ کہا گیاتھا وہ در اصل ہمارا اپناایک شیطانی منصوبہ تھا، یہ ہماری (مصنفین کی) پوزیشن ہے کہ یہ ۱۱۔۹ کا حملہ ہماری اپنی سازش تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارا کہنا کہ یہ حملہ عرب مسلمان نے کیا، یہ ایک سفید جھوٹ تھا۔ اور در اصل اس کے پیچھے ہماری اپنی امریکی حکومت تھی۔اس کے بعد جو عراق پر حملہ کیا گیا اور اس کے بعد افغانستان پر حملے کیے گئے ان کا ذرہ بھر بھی جواز نہیں تھا۔چنانچہ ہماری جنگ کی وجہ سے ان ملکوں میں جو ہزاروں لاکھوں لوگ مارے گئے، ان کو ایک جھوٹ کی بنیاد پر مارا گیا۔اس لیے بش اور چینی کی حکومت پر لاکھوں کو قتل کرنے کا الزام لگتا ہے۔ (اس موقع پر حاضرین نے تالیاں بجا کر مقرر کو تحسین کے ڈونگرے برسائے)۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ ڈیوڈ نے یہ تقریر، برکلے کیلیفورنیا کے مارٹن لوتھر کنگ مڈل سکول میں ستمبر ۲۴ سن ۲۰۰۶ء میں کی تھی جو کسی نے آج سوشل میڈیا پر دکھائی ۔
یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہو گی۔ لیکن اس راقم نے بہت پہلے ہی سمجھ لیا تھا کہ بش اور چینی نے اسرائیل کے کہنے پر یہ سارا پلاٹ بنایا۔ نیو یارک کے ٹوئن ٹاورز اور واشنگٹن پر حملے کروانے کا مقصد امریکنوں کو باور کروانا تھا کہ یہ سب صدام حسین اور اسامہ بن لادن نے کیا اور اس لیے ان کو کو سزا دینے کے لیے فوجی کاروائی ضروری تھی۔اصل مقصد یہ تھا کہ اسرائیل کو صدام حسین سے سخت خطرہ تھا کہ وہ اتنا طاقتورہو گیا ہے کہ اسرائیل اس کی فوج کشی کی تاب نہیں لا سکے گا۔ جب تک امریکہ اور اس کے اتحادی اسرائیل کی مدد کے لیے آئیں گے، بہت دیر ہو چکی ہو گی۔اسامہ بن لادن بھی ان کے لیے ایک خطرناک گروہ تھا جو پاکستانی ایٹمی ہتھیار اسرائیل میں پہنچا سکتا تھا۔اس ساری سازش میں لاکھوں بے گناہ مارے گئے۔ دونوں ملک واقعی زمانہ قدیم میں پہنچا دیے گئے۔
امریکن لوگوں کو ایسی کتابیں پڑھنے کا کوئی امکان نہیں۔ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی سے انہیں شراب اور کھیلوں میں مشغول رکھا جاتا ہے جن میں وہ اپنا تمام فارغ وقت گزارتے ہیں۔ ان کو ٹی وی پر خبروں کے بجائے ہلکی پھلکی چٹ پٹی کہانیاں سنائی جاتی ہیں تا کہ انکے نازک ذہنوں پر بوجھ نہ پڑے۔اور یہ تو آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ ٹی وی اور پرنٹ میڈیا پر کس کا راج ہے؟ مجھے یاد ہے کہ برکلے کیلیفورنیا میں میں جب ایم پی ایچ کی کلاس میں تھا تو میرا ایک کلاس فیلو ایتھیوپیا سے تھا۔ اس نے بتایا کہ ان کا بادشاہ ہائے لے سیلاسی نے شہریوں کے لیے بیر پینے کی بہت آسانیاں کر رکھی تھیں ۔ اس لیے کہ جب نوجوان نشے میں دھت رہیں گے تو انہیں حکومت پر غور کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ یہی وجہ تھی کے اس بادشاہ نے کتنی دہائیوں کتنے آرام سے حکومت کی۔پاکستانی حاکموں کو بھی کسی دن یہ نسخہ سمجھ آجائے گا۔
0