پاکستان کی عدلیہ بھی اب مصلحت پسند اور موقع پرست ہو گئی ہے۔ عدلیہ کبھی بھی اتنی کمزور نہیں تھی ایک آئی ایس آئی کا آفیسر ججوں کو دھمکانا شروع کر دے اور اپنی مرضی کے فیصلے لکھوانے لگے جنرل فیض حمید پر یہ الزام لگا تھا کہ انہوں نے نواز شریف کو سزا دلوانے کے لئے ججوں پر دبائو ڈالا لیکن اس میں ایک جج یا چیف جسٹس شامل نہیں تھا بلکہ لائن سے جتنے چیف جسٹس آئے سب نے نواز شریف کے خلاف ہی رائے رکھی۔ ایک چیف جسٹس نے نواز شریف کو سیسیلین مافیاتک کہا کئی ججوں نے متفقہ طور پر نواز شریف کو بیٹے سے تنخواہ لینے پر نااہل قرار دیا لیکن قاضی عیسیٰ کمال کا جج ہے اس نے نواز شریف کو ہر سزا سے بری کر دیا۔ ساتھ ساتھ اس نے بھٹو صاحب کا بھی کیس کھول لیا اس میں بھی اس نے پرانے سپریم کورٹ کے ججوں کے فیصلوں کو غلط قرار دے دیا۔ اب قاضی عیسیٰ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے عجب عجب فیصلے کررہا ہے سب سے پہلے تو اس نے پارٹی میں الیکشن نہ کرنے کا بہانہ بنا کے تحریک انصاف سے بلے کا نشان چھین لیا اور جب پوری قوم اور میڈیا کی طرف سے بری طرف تحقیر ہوئی تو آئین کا سہارا لے لیا۔ہم آئین کے خلاف نہیں جا سکتے جو آئین میں لکھا ہوا ہے اس پر ہی عمل کریں گے ان کو پتہ ہونا چاہیے آئین کی تشریح سپریم کورٹ کرتی ہے اور اگر آئین میں کوئی خامی رہ گئی ہے تو اس کو سپریم کورٹ ہی درست کرتی ہے لیکن قاضی عیسیٰ آئین کی تشریح اپنی ضرورت کے مطابق کرتے ہیں جہاں پر ان کو دفاعی اداروں کی طرف سے جو ہدایت ہوتی ہے وہ اس پر عمل کرتے ہیں ساتھ ساتھ اپنے ساتھی ججوں پر دبائو ڈال کر ان کو اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب سے انہوں نے چارج سنبھالا ہے ایسا ہی دیکھنے میں آرہا ہے۔ فوج اور شہباز شریف کو جہاں جہاں ضرورت پڑی انہوں نے اپنا کندھا پیش کر دیا ان کے اوپر چاہے جتنی گالیاں پڑیں یا سوشل میڈیا ان کے خلاف مہم چلے وہ ہر چیز سے بیگانہ ہو کر دفاعی اداروں کا حکم بجالاتے ہیں۔
تازہ ترین کیس جو پشاور ہائیکورٹ کی وجہ سے شروع ہوا وہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہا ہے۔ شروع میں یہ محسوس ہو رہا تھا کہ یہ چند دنوں میں ختم ہو جائے گا لیکن جب کیس چلنا شروع ہوا تو یہ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ نئی نئی باتیں سامنے آرہی ہیں جسٹس اطہر من اللہ نے الیکشن کمیشن پر سوالات اٹھا دئیے کہ الیکشن کمیشن نے جان بوجھ کر تحریک انصاف کو الیکشن سے باہر رکھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بلے کے فیصلے کے بعد بھی تحریک انصاف بحیثیت پارٹی موجود تھی۔ اس کو بحیثیت پارٹی کالعدم نہیں قرار دیا گیا تھا جو آپ نے ان کے سارے ممبروں کو آزاد ڈیکلیئر کر دیا اور سب لوگوں نے مختلف نشانوں سے اپنا اپنا انتخاب لڑا۔ اس میں تحریک انصاف کا نام بھی استعمال کرنے پر پابندی تھی۔ الیکشن کمیشن نے یہ سب جان بوجھ کر کیا اور اب ان کی مخصوص نشستیں بھی چھیننے کی تیاری ہورہی ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے اٹارنی جنرل پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی ان سے پورے الیکشن کا ڈیٹا مانگا کہ تحریک انصاف کے درخواست گزاروں نے کتنے کتنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے اور کیا اس میں تحریک انصاف کے چیئرمین کے دستخطوں سے کوئی کاغذات جمع کرائے گئے جسٹس یحییٰ آفریدی نے الگ ہی طریقہ سے دبائو بڑھایا جس کی بنیاد پر آئندہ اس درخواست کا فیصلہ ہو گا۔
قاضی فائز عیسیٰ اس وقت سب سے زیادہ دبائو میں ہیں ان کی سمجھ میں نہیں آرہا مسئلے کاحل کیسے نکالا جائے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ انہوں نے فوج سے جو وعدے کر رکھے ہیں اس سے ان کی جان بڑی مشکل میں آگئی ہے ہڈی ان کے گلے میں اٹک گئی ہے۔ اب نہ وہ اس کو اگل سکتے ہیں اور نہ نگل سکتے ہیں آہستہ آہستہ ان کے ساتھی ججز ان سے الگ رائے اختیا رکرتے جارہے ہیں۔ اگر یہ درخواست کسی طرح تحریک انصاف کے حق میں چلی گئی تو ان کا کیریئر ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا وہ جو یہ امید لگا کر بیٹھے ہیں کہ ن لیگ کے پاس دو تہائی اکثریت آجائے گی اور آئین میں ترمیم کر کے ان کی مدت ملازمت میں توسیع ہو جائے گی لیکن ان کے ساتھی ججوں کے حالات اور انداز دیکھتے ہوئے یہ ہوتاہوا نظر نہیں آرہا اب کارروئی کو مزید ایک ہفتہ کے لئے آگے بڑھا دیا گیا ہے۔ انتظار کریں اور دیکھیں قاضی عیسیٰ اس ایک ہفتہ میں کون کون سی چالیں چلتے ہیں۔
0