پاکستان کی عدالتی تاریخ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج محسن اختر کیانی کا نام ہمیشہ سنہری الفاط میں لکھا جائے گا۔ شاعر احمد فرہاد کو دفاعی اداروں کے اٹھانے کے بعد جس طرح محسن اختر کیانی صاحب نے مقدمے کو چلایا اور جو بیانات دئیے یا اپنے آرڈر میں جن جن قوتوں کو پابند کیا یا ان سے حساب مانگا وہ تاریخ کا حصہ رہیں گے۔ انہوں نے اپنے ریمارکس یا آرڈر میں تینوں اہم ایجنسیوں سے حساب مانگا یا ان کے طریقہ کار کی وضاحت چاہی آج تک کوئی بھی جج اس طرح کی ہمت نہیں کر سکا۔ محسن اختر کیانی صاحب نے ایجنسیوں پر دو طرف سے وار کیا۔ ایک تو ان کے ورکنگ سسٹم کا حساب مانگ دوسرے ان کے سیکٹر کمانڈرز کو عدالت میں حاضری کا حکم دیا جو سب کو چونکا دینے والا تھا۔ تیسرے انہوں نے اس بات کا بھی عندیہ دیا تھا کہ آئندہ سماعت لائیو ٹیلی کاسٹ کی جائے گی۔انہوں نے پوری انتظامیہ اور دفاعی اداروں کو بنچوں پر کھڑا کر دیا تھا۔ پوری سرکاری مشینری اور دفاعی ادارے حد سے زیادہ پریشان ہو گئے تھے کہ کیا آرڈر پاس کر دیا۔ اتنی ہمت کسی جج میں کہاں سے آگئی ہم تو ججوں کے بیڈروم میں کیمرے لگاتے تھے ان کو آرڈر لکھواتے تھے ان کو فیصلوں کے لئے ہدایات دیتے تھے۔ یہ سب ہم سے ڈرتے تھے۔ ہمارے حکم پر سر جھکا کر عمل کرتے تھے ہم کو کورٹ میں بلانے کی ان میں ہمت کہاں سے آگئی۔
یہ ملین ڈالر سوال تھا جو اب سب دفاعی اداروں کے دماغ میں گھوم رہا ہے اس کا جواب ابھی تک کسی کے ذہن میں نہیں آیا۔ کیسے ان ججوں کو قابو کیا جائے۔ بات جو اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججوں سے شروع ہوئی تھی وہ پھیلتی ہی جارہی ہے۔ وہ اسلام آباد ہائیکورٹ سے نکل کر ملک کے چاروں ہائی کورٹوں میں پہنچ گئی۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ کے جواب میں چاروں ہائیکورٹ کے چیف جسٹسوں نے اپنا موقف انتظامیہ اور دفاعی اداروں کی کارکردگی اور دخل اندازی کے خلاف بھرپورطریقہ سے پیش کیا۔ وہ مقدمہ ابھی تک چل رہا ہے لمبی تاریخ ڈال کر قاضی عیسیٰ ملک سے باہر چلے گئے۔ اب ان کی واپسی پر اس مقدمے کی کارروائی دوبارہ شروع ہو گی۔ اس دوران احمد فرہاد کی گمشدگی کا واقعہ ہوگ یا اب اس کارروائی کے بعد اور دفاعی اداروں کی شکست کے بعد یہ مقدمہ اور بھی دلچسپ ہو گیا ہے۔ سپریم کورٹ میں اس وقت دو تین نیوٹرل جج بیٹھے ہوئے ہیں۔ آنے والے نئے چیف جسٹس جن کا بحیثیت لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے اچھا ریکارڈ ہے، پھر جسٹس اطہر من اللہ، تیسرے موجودہ عارضی چیف جسٹس جو قاضی عیسیٰ کے مخالفوں میں شمار ہوتے ہیں آپ یقین کریں اس گرفتاری سے پہلے پاکستانی عوام احمد فرہاد کو شاعر کی حیثیت سے جانتی بھی نہیں تھی آزاد کشمیر کے ہنگاموں میں اس کی ایک نظم نے اس کو راتوں رات پورے پاکستان خاص طور سے تحریک انصاف کے نوجوانوں میں بہت مقبول بنا دیا۔ اس کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہ ہو گی کہ پاکستانی میڈیا کی شہ سرخیوں میں اتنے دنوں تک رہے گا۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے جو اس کیس میں دفاعی اداروں کی بے عزتی کی ہے دفاعی لوگ کبھی بھی اب اس بات کو نہیں بھول پائیں گے۔ دوسرے کوئی بھی دفاعی ادارہ اب نہ کسی کو اس طرح غائب کرے گا اور اٹھانے کی ہمت کرے گا ان کو پتہ چل گیا ہے ججوں کے دل سے فوج کا ڈر اور خوف ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا ہے۔ قاضی عیسیٰ جیسے ڈرپوک اور مفاد پرست جج بھی انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوریں گے۔ ان کو پتہ چل گیا کہ عوام اب جاگ گئے ہیں۔ وہ اس ظلم کے خلاف عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہونگے۔ نواز شریف نے بہت ججوں کو دھمکیاں لگا لیں ججوں نے نواز شریف اور زرداری کو بہت فیور دیا اب نہیں ہو گا۔ ایسا کوئی دبائو قبول نہیں کیا جائے گا ۔ احمد فرہاد کا قصور کیا تھا۔ اس نے صرف ایک نظم ہی انتظامیہ کے خلاف پڑھ دی تھی اور کیا جرم تھا۔ اس کا جو اس کو اغواء کر لیا گیا ہر ادارہ اٹارنی جنرل سمیت اس کی گرفتاری سے انکار کررہا تھا۔ پکڑا وہ اسلام آباد سے گیا تھا نکلا آزاد کشمیر میں۔ دنیا ہنستی ہے اب دفاعی اداروں پر، عدلیہ کو شاباش اسی طرح کی کارروائیوں اور ایکشن سے دفاعی اداروں کی بدمعاشیاں ختم ہو سکتی ہیں۔
0