وطن ِعزیز کی فضاوئں میں اس قدر شور بڑھ چکا ہے کہ اب تو ساتھ چلنے والے کی ڈھاڑیں بھی سماعتوں کو متاثر نہیں کر رہیں سمجھ بھی قاصر ہے کہ اب کیا کہوں ؟ کیونکہ بہت سارے مسائل نے اکٹھ کر کے اب انا کی چھتری تان لی ہے عوام کی پریشانیاں کئی دھائیوں سے حل کی بجائے بڑھاوے کی جانب پوری رفتار سے رواں ہیں جن سے پورا معاشرہ اک بے ترتیبی کا شکار ہو کر نیم پاگل سا ہو چکا ہے موسمی حالات کا گرم ہونا قدرتی بات ہے مگر عوام کا اُن کے نمائندوں کا آگ بگولہ ہونا عام بات نہیں جسے نظر انداز کیا جا سکے معاشی حالات کی بہتری کے لئے پٹرول کی قیمتوں کا 15روپے سے زائد کم ہونا ایک خوش آئند بات ضرور ہے مگر دوسری جانب آئی ایم ایف کی ہدایات پر بجٹ ترتیب دینا کسی صورت ملک کے سفید پوش طبقے کے لئے بہتری کی نوید نہیں لگتی ۔اہل وطن جانتے ہیں کہ ملک میں صاحب ِ حیثیت طبقات مختلف ذرائع سے خود کو ٹیکس محفوظ رہنے کا ہنر رکھتے ہیں حکومت اور عدلیہ ایسے صاحبان کو قانون کے دائرے میں لاکر ٹیکس دینے کا پابند تو نہیں کرتے مگر تنخواہ دار طبقے سے لیکر ایک عام آدمی تک کو کسی صورت ان ٹیکسسز جنھیں لگان بھی کہتے ہیں معافی نہیں مل رہی ہے اسی طبقاتی فرق کے مسئلے پر شور مسلسل بڑھ رہا ہے ملکی کسانوں کو اُن کی محنت کا ثمر نہ ملنے پر اک ہنگامہ برپا ہے سٹیک ہولڈرزگندم خریدنے کے مسئلے کی بجائے اُسے مزید اُلجھا رہے ہیں سینیٹر فیصل ووڈا بھی سراپا احتجاج ہوتے ہوئے پریس کانفرنس میں عدلیہ پر تنقید کی حد کو عبور کر چکے ہیں جو جمہوری معاشرے کے اس موجودہ سیٹ اپ کے لئے کسی صورت مناسب نہیں لگتا پگڑیوں کا فٹبال بنانے کی بجائے قانون میں ترمیم کرنا اور ترمیم میں حسب نسب کو پس ِ پُشت ڈال کر بلاتفریق قانون کا سب پر لاگو ہونا لازم قرار دینا پھر فوری سستے انصاف کی فراہمی بھی ہر اک شہری کے لئے ضروری ہے کیونکہ انصاف کی تاخیر بہت سے مسائل معاشرے میں کھڑی کرتی ہے ان آسیب زدہ روایات کا خاتمہ ضروری ہے جس میں منصب پر بیٹھی ہستیوں کی مشکلات کا حل دنوں میں سامنے آئے اور عام آدمی کے کیس کافیصلہ آنے میں آدھی صدی بیت جائے افلاطون نے قانون کی تعریف شاید ہمارے حالات کے مطابق کی ہے وہ کہتے ہیں کہ قانون سب کے لئے برابر ہے یہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے انھوں نے قانون کو مکڑی کا جالا قرار دیا ہے جس میں کیڑے مکوڑے تو پھنس جاتے ہیں مگر بڑے جانور اسے پھاڑ کر نکل جاتے ہیں گویا ایسا قانون سامنے آئے جو ہر شہری کو مقدم جانے تنقید کا دلائل کے ساتھ سنے جانا راہ ِ راست کی مانند ہوتا ہے مگر تنقید جب اخلاقیات کی حدود پہ رکھے گئے الفاظ کے حصار کو توڑ دے تو وہ دھمکی بن جاتی ہے اداروں کی لڑائی میں کون صیح کون غلط اس کا فیصلہ اُن ارباب ِ اختیار کے سر ہے جنھیں ملکی نظم و نسخ کی باگیں حالات نے دے رکھیں ہیںبہتر ہو گا کہ پارلیمنٹ کے اراکین و عدلیہ کے منصفین اپنے معزز فورمز پر درست یا غلط اقدام کا جائزہ لیں تا کہ 2014 سے سیاست میں پھیلی بداخلاقی کی روک تھام ہو سکے اور ایوب آمریت سے چلی روایات کا بھی قلع قمع ہوگیا تو ہر ادارہ اپنے آئینی حدود میں رہنے کا پابند ہو جائے گا پشاور کنٹونمنٹ والوں کی مہربانی سے ہمارے تاریخی بازار قصہ خوانی کی صورت سنور گئی بازار کی تزئین و آرائش پہ خصوصی توجہ دے کر سیاحوں کے لئے بڑی حد تک دلکشی و خوبصورتی پیدا کی گئی ہے مگر تاجر تنظمیں اس اقدام سے ناخوش انھیں بازار کھولنے کی جلدی ہے جسے مرمت وغیرہ کے لئے موٹر سائیکل و دیگر گاڑیوں کی آمدو رفت کے لئے بند کیا گیا ہے چائیے تو یہ کہ قصہ خوانی کے تاجر دوران ِ تعمیر صبر و حوصلہ سے کام لیتے مگر وہ تو کنٹونمنٹ کا شکریہ بھی ادا کرنا بھول گئے جن کی کاوشوں سے بازار کی صورت نکھری ہے ریاست میں ایسے بناو سنگھار روایت ہے ضروری بھی ہے مگر سب سے اہم ذمہ داری سارے اداروں کی ملک سے سود کی لعنت کو ختم کرتے ہوئے بلاسود ی نظام کی بنیاد رکھنی ہے پھر ارض ِ پاک کی بنیادیں مضبوط ہونے میں اور معیشت میں بہتری آنے میں دیر نہیں لگے گی ہم سب مسلمان ہیں اور سود کی تباہ کاریوں سے آگاہ ہیں فیصلہ ارباب اختیار کریںمیں اب کیا کہوں ؟۔
0