کیاہو گا؟
برائے نام ہو قانون وہ بھی جنگل کا
تو عام آدمی کی خیریت کا کیا ہوگا
جلوس، جلسے، فساد آئے دن کے ہنگامے
ہمارے ملک میں جمہوریت کا کیا ہو گا!
یہ پڑھ کر اور سن کر بہت دکھ ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت ملک کے متعدد تجارتی اداروں کی نج کاری کا منصوبہ بنا چکی ہے اس منصوبے میں فی الحال قومی ایئر لائن پی آئی اے، پوسٹل لائف انشورنس کمپنی لمیٹڈ، زراعی ترقیاتی بینک، یوٹیلٹی سٹور کارپوریشن، جام شورو پاور کمپنی جینکو، ہزارہ الیکٹریکل سپلائی کمپنی شامل ہیں۔ نجکاری کمیشن بورڈ نے اپنے پانچ سالہ نجکاری پروگرام 2024ء تا 2029ء میں کئی قومی اداروں کو نیلام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے اور پاکستان سٹیل مل نے پہنچایا ہے۔ سٹیل مل بند ہونے کی بنیادی وجہ اس میں بلا ضرورت متعدد افراد کو ملازمتیں دینا ہے جو حکومت آئی اِسی نے پچھلے تقریباً 2 عشروں میں اپنے لوگوں کو بلاضرورت سٹیل مل میں کھپانے کی کوشش کی۔ دوسری طرف اسٹیل بنانے والے اداروں نے اسٹیل مل کی فعالیت کو ناکام بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اسٹیل مل بند پڑا ہے اور ہر سال کروڑوں روپے ملازمین کی پنشن کی مد میں حکومت ادا کررہی ہے۔ دوسری طرف حکومت سندھ دعویٰ کرتی ہے کہ چونکہ مل سندھ کی زمین پر قائم ہے اسی لئے یہ زمین حکومت سندھ کی ملکیت ہے اور وہ اسے نیلام کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ اس ضمن میں حال ہی میں اس نیلام کے بارے میں حکومت اور سندھ کے مابین مذاکرات بھی ہوتے رہے ہیں۔ پاکستان کے سب سے بڑے اثاثے پی آئی اے کا بھی حال دگرگوں ہے جو حکومت بھی آئی اس نے بے دریغ اپنے چہیتوں کو پی آئی اے میں بھرتی کرا دیا۔ ہم نے پی آئی اے میں ایسے لوگ بھی دیکھے جو مسافروں کے سامان کے وزن کو انگلیوں پر گنتے ہیں یا تو وزن کرنے کی خودکار مشین وزن کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے یا وزن کرنے والے کو مشین کی اندراج پڑھنے کا علم نہیں ہوتا۔ پی آئی اے پاکستان کی وہ ایئرلائن تھی (تھی کا لفظ لکھتے ہوئے قلم کے آنسو بھی ٹپک رہے ہیں) جس نے مشرق وسطیٰ کی کئی مملکتوں کی ایئر لائن بنائیں یہاں تک کہ یورپ میں مالٹا کی ایئر لائن کی تنصیب کا سہرا بھی پی آئی اے کے سر ہے۔ پی آئی اے میں سفارشی بھرتیوں کا طوفان ایک طرف مزید غضب یہ ہوا کہ پائلٹ جیسی ذمے دار جگہوں پر غیر سند یافتہ افراد کا تقرر کیا گیا۔ اقربا پروری اور دوست نوازی کے طوفان میں انسانی جانوں کی حفاظت کو بھی نظر انداز کر دیاگیا۔ پی ٹی آئی حکومت کے ہوابازی کے وزیر نے اس مسئلے پر بغیر سوچے سمجھے ایسے ایسے انکشافات فرمائے کہ پوری دنیا میں پی آئی اے بدنام اور مشتبہ ہو گئی۔ یورپ میں اس کا داخلہ بند ہو گیا۔ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس گئے اور پی آئی اے اب بھی یورپ اور امریکہ تک پرواز کرنے میں کوشاں ہے۔ خسارہ ہے کہ آئے دن بڑھتا جاتا ہے اور قومی ایئر لائن مزید قرضوں میں ڈوبتی جاتی ہے۔ اس وقت پی آئی اے برائے نیلام مارکیٹ میں ہے اور کسی مناسب خریدار کی تلاش میں ہے۔ پی پی پی کے سربراہ محترم بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ پی آئی اے ہمیں دے دو ہم چلا کر دکھائیں گے۔ عوام طنزاً کہتے ہوئے پائے گئے ہیں کہ پاکستان کو کچھ دن کے لئے ٹھیکے پر دے دو تاکہ ایک دیانت دار اور محب وطن حکومت آئندہ بن سکے۔ ملک کے سب سے بڑے بجلی کے نظام کا بھی برا حال ہے۔ آئی پی پیز کی مد میں چاہے بجلی استعمال ہو یا نہ ہو بڑی رقم ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ ہماری ایک سیاسی جماعت جگہ جگہ نعرے لگارہی ہے کہ ہم نے پاکستان کو اندھیروں سے نکالا ہے لیکن یہ سوچنے والے کم ہیں کہ اندھیروں سے نکالنے کی قیمت جو مستقل اور مسلسل ادا کرنی پڑ رہی ہے اور قومی خزانے پر جو مستقل بوجھ پڑ رہا ہے اس کا ذمے دار کون ہے۔ سٹیل مل ہو یا پی آئی اے یا دیگر وہ ادارے جنہیں نجکاری پروگرام میں شامل کیا گہا ہے خد اکرے انہیں ایسے خریدار مل جائیں جو ان اداروں کو نفع بخش بنا سکیں۔ اگر پاکستان کی بڑی تجارتی کمپنیز مل کر ان اداروں کو خرید لیں یا ٹھیکے پر لے لیں تو یہ اثاثے ملک ہی میں رہیں گ اور عوام اس سے مزید مستفیض ہو سکیں گے۔ کسی دوسرے ملک کی کوئی بھی تجارتی کمپنی اگر یہ اثاثے لیتی ہے تو وہ سب سے پہلے اپنا مفاد دیکھے گی ان اداروں سے منسلک ہزاروں ملازمین کو بھی مسائل کا سامنا ہو گا۔ ہم حکومت وقت سے درخواست کرتے ہیں کہ اس نجکاری کی بنیاد میں پاکستانی مفاد کو سرفہرست رکھا جائے اور ان اداروں کے ملازمین کے حقوق کی کماحقہ حفاظت کی جائے ایسا نہ ہو کہ یہ حقیقت نظر انداز کر دی جائے اور حکومت کے لئے ایک اور مسئلہ کھڑا ہو جائے۔ خدا ہمارے حال پر اپنا رحم نازل فرمائے۔ آمین۔