0

عید مبارک!

یہ پرچہ عید کے بعد آپ کے زیر نظر ہے پھر بھی موقع ہے کہا جائے کہ آپ کو عید کی ڈھیروں مبارک ان بہت برے حالات میں ایک لمحہ جب احساس ہوتا ہے کہ ہم موجود ہیں اور ہم خوش ہونا بھی چاہتے ہیں، بہت دل آویز بھی ہے اور خوش رنگ بھی ، مگر اس سے آگے بھی خوش کن خیال ہے کہ خوشیاں ہمارا حق ہے اور ان کے حصول کے لئے سینہ سپر ہو جانا، یہی بات انگریزی میں یوں کہی گئی کہ YOU HAVE NO RIGHTS,IF YOU DONT KNOW YOUR RIGHTS بات تو ٹھیک ہے، تیسری دنیا کے لوگ جب روشن دنیا میں آتے ہیں تو عمر کا ایک حصہ غربت اور افلاس میں گزار چکے ہوتے ہیں، تعلیم سے بے بہرہ، بہت کچلے ہوئے طبقے کے لوگ خوف میں لپٹے ہوئے، محکومیت کے مارے مانتے یہ ہیں کہ دینے والا خدا ہے مگر ہاتھ پھیلاتے ہیں اپنے علاقے کے وڈیرے کے سامنے یا شہر کے بڑے سرمایہ دار کے روبرو یہ عام رویہ رہا لوگوں کا مجھے سب سے زیادہ دکھ یہ ہے کہ الیکشن کے زمانے میں بھوک اور ننگ سے مارے ہوئے لوگ بھیڑ بکریوں کی طرح سیاسی جماعت کے جلسوں میں جاتے ہیں گلا پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگاتے ہیں اور چالباز لیڈر کی چند باتیں لے کر چلے ہیں جو گلی محلوں کر تھڑے، گاؤں کے پنڈال میں زیر بحث آتی ہیں اور شہر کی دیواروں پر لکھ دی جاتی ہیں، مثلا یہ کہ عوام ہی طاقت کا سرچشمہ ہیں یا پاکستان میں جمہوریت ہے ان دونوں باتوں پر ہمیں بارہا ہنسی آئی، بات یہ نہیں کہ سیاست دان یہ بات کہتے ہیں لطیفہ یہ ہے کہ عوام یہی مانتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں مجھے پاکستان میں پچھلے پچپن سالوں میں آئین ، جمہوریت، قانون اور انصاف نظر نہیں آیا، مگر انہی سالوں میں جمہوریت اور آئین کا ڈھنڈورا بہت پیٹا گیا، ہمارا مزاج بھی یہی ہے کہ جس بات کا ذکر زیادہ ہو اس کو ہی سچ سمجھا جاتا ہے، بزرگ بھی کہہ گئے ہیں کہ ’’کہے جسے دنیا بجا ، اسے بجا سمجھو‘‘ ابھی عید کے موقع پر کچھ احباب کے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملا، بات یہ نکلی کہ آئینِ اکبری کے بارے میں لوگوں کی معلومات کیا تھیں اور یہ معلوم ہوا کہ آئینِ اکبری کے بارے میں عوام کچھ زیادہ معلومات نہیں رکھتے، ہمارے آئین کی بھی بہت دھوم ہے ٹی وی کھولئے آپ دیکھیں کہ سیاست دانوں کے منہ سے نکلے ایک جملے میں آئین اور جمہوریت موجود ہوتا ہے، اور گفتگو سنیں تو اس میں درجنوں بار ان الفاظ کا جاپ موجود ہوتا ہے پاکستان سے آئے ہوئے ایک بیوروکریٹ سے جب استفسار کیا آئین و جمہوریت کے بارے میں تو مسکرا کر جواب دیا کہ پاکستان میں پریکٹس جو چیز پریکٹس ہو رہی ہے وہی جمہوریت ہے، مگر یہ بھی فرمایا کہ پاکستان میں امریکہ سے زیادہ آزادی ہے، یہ بات مجھ سے بی بی سی کے نیر زیدی نے کہی تھی کہ پاکستان رہنے کے لئے بہترین ملک ہے یہاں ون وے پر آپ مخالف سمت میں سفر کر سکتے ہیں کسی کو بھی تھپڑ مار سکتے ہیں اور اب تو آپ کوئی چور پکڑ لیں تو اس کو جان سے مار دیں تو قانون آپ کو کچھ نہیں کہے گا جہاں تک ناموسِ رسالت کی بات ہے اس الزام کے بعد تو LICENCE TO KILL سب کو ہے ،ساری دنیا میں ایسا کہیں ہوتا، ایسا کیوں ہوتا ہے یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اشرافیہ آپ سے یہی چاہتی ہے جب آپ ایسا کرتے ہیں تو آپ کے اندر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ عوام طاقتور ہیں وہ اتنے طاقتور ہیں کہ خود اپنے ہاتھ سے کسی کو بھی بر سر عام وہ سزا دے سکتے ہیں جس کو وہ اپنا مجرم سمجھتے ہیں، مگر اس رویہ سے ان تمام باتوں سے توجہ ہٹ جاتی ہے جو اوپر کی سطح پر ہو رہی ہوتی ہیں مثلاً دھرنا کمیشن رپورٹ کمیشن رپورٹ، دھر نا کیس میں قاضی عیسیٰ کا فیصلہ، اس بارے میں عوام کو اتنا ہی پتہ ہے جتنا میڈیا ہاؤس کے ملازمین نے ٹی وی پر آکر اینکرز نے بتا دیا، یہ بات بھی گوش گزار کرتا چلوں کہ اینکرز کوئی ماہر قانون یا ماہرین سیاست نہیں ہوتے بقول جاوید جبار یہ کالج کے DEBATERS ہیں جن کو ٹی وی اسکرین پر لایا گیا ہے کہ وہ میڈیا ہاؤس کی پالیسی کے مطابق اتنی بات کہہ دیں جتنی ان کو کہنی ہے دوران گفتگو اگر بات اس محور سے نکل جائے تو میڈیا ہاؤس نے طے کر دیا ہے تو ایک لمبا بریک لے لیا جاتا ہے اور پس پردہ ان اینکرز کو وہ بات ذہن نشین کرا دی جاتی ہے کہ کیا کہنا ہے اور کیا نہیں کہنا، وہ طبقہ جس نے عوام کو کوئی شعور دینا تھا یا آگہی دینی تھی وہ خود میڈیا ہاؤس کی قید میں ہے وہ سب کتابیں جو عوام کو شعور و آگہی سے روشناس کرا سکتی تھیں ان میں سے کچھ حکومتوں نے شیلفوں سے ہٹوا دیں باقی کتابوں کو ہٹانے کا کام دینی جماعتوں سے کرایا گیا، طلباء سے سوال کرنے کی جراءت لے لی گئی ، سو معاشرے میں جو NORMS پرورش پا گئے لوگ انہی کو شعور کا نام دیتے ہیں پچھلے پچاس سال سے عوام کو وہ علم ملا ہی نہیں جو ان میں کسی کام کی چیز ہے اس نیویارک میں ایک لڑکا یا لڑکی جو اپنے حقوق سے آشنا ہے وہ پولیس سے بہت اعتماد سے بات کر سکتا ہے بتا سکتا ہے کہ اس کے کیا حقوق ہیں اور کہاں پولیس آفیسر ریڈ لائین کراس کر رہا ہے ہائی اسکول گریجوایٹ حج کے سامنے اپنا موقف بیان کر سکتا ہے اپنے EMPLOYER سے EN سے کسی پالیسی سے اختلاف کر سکتا ہے، ہمارے دانشور یہ سن کر دور کی کوڑی لاتے ہیں کہتے ہیں پاکستان ابھی ایک نوخیز جمہوریت ہے امریکہ بھی یہاں تک تین چار سو سالوں میں پہنچا ہے انتخابات ہوتے رہے تو آہستہ آہستہ شعور آجائیگا، زرداری نے ابھی بلوچستان کے لوگوں سے خطاب کیا اس میں بھی یہی کہا تھا کہ جمہوریت بھی رفتہ رفتہ آجائیگی ، مگر ان لوگوں نے کبھی چین اور کوریا کی مثال نہیں دی، یہ بات شرمناک ہے مگر بات یہ بھی ہے کہ اگر فیوڈلز اور سرمایہ دار کو شرم ہوتی تو یہ کام ہی نہ کرتے شریفوں کا رویہ اپناتے مگر پاکستان میں کسی بھی سیاست دان کی زندگی کوٹٹول لیں ان کی پچھلی کہانی متمدن اور مہذب نہیں نکلے گی، مجھے حیرت ہے کہ سندھ کے عوام حیوانوں والی زندگی گزارنے پر بھی زرداری کو ووٹ دیتے ہیں اور بلاول نے بھی اپنا آکسفورڈ کا چغہ اتار پھینکا ہے اور ایک شلوار کرتے میں ملبوس ہو کر ہی ایک وڈیرے کا روپ بنائے ہوئے ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں