0

رحمت یا زحمت!

چڑھتا سورج
دوستو نظمِ گلشن بدل جائےگا
پھول گلشن کا کوئی نہ کھلائے گا
دھوپ سر پہ کڑی ہے مگر تابہ کے
یہ جو سورج چڑھا ہے اتر جائے گا!

قارئین کرام دنیا بھر میں مسلم امہ رمضان المبارک کی برکات سے فیض یاب ہورہی ہے۔ روز مرہ عبادتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ حتی الامکان مسلمان خود کو لہو و لعب سے دور رکھے ہوئے ہیں لیکن کمر توڑ مہنگائی نے اس کے تمام کس بل نکال دئیے ہیں اور ہمارے منہ میں خاک اس کے لئے رمضان رحمت کے بجائے زحمت بن گیا ہے۔ رمضان المبارک کے ذیل میں ہم لندن کی بات کرتے ہیں۔ مرکزی لندن رمضان المبارک کی آمد پر روشنیوں سے جگمگا رہا ہے جگہ جگہ رمضان المبارک کے طغرے نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ ٹرانسپورٹ سروسز پر بھی رمضان کی آمد کا چرچا ہے۔ سفر کے مرکزی بورڈ پر بھی مسافروں کو رمضان المبارک کی مبارکباد ایک بڑے خوشنما انداز سے پیش کی گئی ہے۔ دوسری طرف تقریباً تمام کھانے پینے کی اشیاء فروخت کرنے والے بڑے بڑے سٹورز میں ’’رمضان سیل‘‘ جاری ہے۔ متعدد روز مرہ کی اشیاء مثلاً آٹا، چاول، تیل، دالیں، رعایتی قیمت پر دستیاب ہیں۔ غیر مسلم بھی اس سیل سے فائدہ اٹھارہے ہیں ۔ ہمارے پیارے ملک پاکستان میں جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے۔ معاملہ دگرگوں ہے۔ چاند رات سے پہلے تک اشیائے خوردنی جس بھائو پر دستیاب تھیں صرف ایک دن میں ان کی قیمتوں میں 25 سے لے کر 40فیصد تک اضافہ کر دیا گیا ہے۔ حکومت بار بار اعلان کررہی ہے کہ مہنگائی کرنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نپٹا جائے گا۔ دکھاوے کے لئے جگہ جگہ ’’پرائس کنٹرول‘‘ کا محکمہ چھاپے مار رہا ہے، جرمانے کررہا ہے لیکن صورت حال میں کوئی فرق نظر نہیں آرہا۔ متعدد دکانوں پر حکومتوں کی مقرر کردہ قیمتوں کے بورڈ لگے ہوئے ہیں لیکن یہ بورڈ عموماً گاہکوں کا منہ چڑاتے نظر آتے ہیں جب دوکاندار سے معلوم کیا جاتا ہے کہ بھائی آپ حکومت کی مقرر کردہ قیمتوں پر سودا کیوں نہیں فروخت کرتے تو جواب ملتا ہے کہ آپ ہمیں منڈی سے سستی اشیاء دلوا دیجیے پھر ہم حکومت کی مقرر کردہ قیمتوں پر چیزیں فروخت کریں گے۔ حکومت کے مقرر کردہ UTILITY STORES پر یا تو اشیائے خورونوش غائب ہوتی ہیں یا پھر بہت غیر معیاری۔ یہ بھی ہورہا ہے کہ کچھ سٹوروں پر صرف ان لوگوں کو نسبتاً سستی اشیا فروخت کی جارہی ہیں جن کے پاس بے نظیر سپورٹ موجود ہے۔ عام شہری اس آسانی سے محروم ہیں۔ عام سستے بازار بھی بس نام کے سستے بازار ہیں یا تو متعدد اشیاء اس بھائو پر فروخت کی جارہی ہے جو عام دکانوں پران کا بھائو ہے یا پھر وہ عموماً ناقص ہوتی ہیں۔ لوگ بے انتہا پریشان ہیں۔ پاکستان میں ’’متوسط طبقہ‘‘ تو اب تقریباً ناپید ہی ہو چکا ہے۔ امراء اور صاحب حیثیت اشرافیہ کو مہنگائی سے فرق نہیں پڑتا۔ معاشرے کا غریب طبقہ مہنگائی کا وار سہہ رہا ہے۔ حکومت اعلان کررہی ہے کہ ہم اشیاء کی قیمتیں سستی کرنے کے لئے اتنے ارب روپے مخصوص کر دئیے ہیں لیکن عام بازاروں میں اس خصوصیت کا نظارہ دیکھنے میں نہیں آرہا۔ دہاڑی دار خصوصی طور پر پریشانی کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں۔ ایک مزدور کا کہنا ہے کہ اول رمضان المبارک میں ویسے ہی ’’دہاڑی‘‘ کم ہو جاتی ہے مل بھی جائے تو زیادہ سے زیادہ ایک ہزار روپے روزکی آمدن ہوتی ہے۔ بیوی اور چند بچوں کے ساتھ ایک ہزار روپے میں کیا خریدوں پھرگھر کا کرایہ دوا اور الگ زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے۔ ہمیں حکومت کی نیت پر کوئی شک اور شبہ نہیں لیکن جس انداز اور جس طرح سے مہنگائی پر قابو پانے کی کوشش کی جارہی ہے وہ بار آور ہوتی نظر نہیں آتی اگر حکومت واقعی لوگوں کو سستی اشیاء مہیاکرنا چاہتی ہے تو اسے نگران عملے میں کئی فی صد اضافہ کرنا پڑے گا اور نگرانی کے نظام کو اور فعال بنانا پڑے گا۔ ملک فی الوقوت بہت بڑی معاشی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ IMFکا عفریت سر پر کھڑا ہے۔ حکومت مجبور ہے کہ اسکے حکم پر گیس، بجلی، پٹرول میں اضافہ کرے اور اس اضافے سے حالات عام آدمی کے لئے اور خراب ہو جائیں گے اس مہنگائی نے ایک طرف تو لوگوں کی زندگی اجیرن کر دی ہےاورووسری طرف جرائم میں بھی اضافہ ہورہا ہے جس کی تصدیق کل پولیس کے ایک ذمے دار افسر نے ان الفاظ میں کی ہے کہ ’’جرائم میں اضافے کی وجہ بے روزگاری بھی ہے‘‘ ہمارے خیال میں اب وقت آگیا ہے کہ حکومت حزب اختلاف (اگر کوئی حزب اختلاف ہے تو) سے اپنے تمام مسائل پرمل بیٹھنے کے لئے اس انداز میں رابطہ کرے کہ بیچ میں ’’انا‘‘ کا دخل نہ ہو۔ اس لئے کہ عموماً دنیا بھر میں حکومتیں اور صاحبان اختیار ہی حزب اختلاف سے مکالمے کی بنیاد ڈالتے ہیں۔ حزب اختلاف کی جائز شکایتوں کا حل یقینا اچھے نتائج حاصل کرے گا۔ خدا پاکستان کو مہنگائی کے عفریت سے نجات دے اور اہل وطن سکھ کا سانس لے سکیں۔ آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں