0

عمران خان سے جیل میں ملنے پر پابندی، زیادتی اور ظلم کی نئی داستانیں!

تازہ ترین عمران خان سے جیل میں تمام افراد سے ملنے پر پابندی دو ہفتہ کے لئے لگا دی گئی ہے۔ بہانہ تراشہ گیا ہے سکیورٹی کا۔ جیل میں بھی عمران خان کی جان کو خطرہ ہے۔ اگر پاکستان کی جیلیں بھی کسی قیدی کے لئے محفوظ نہیں تو باہر کی دنیا اور پور پاکستان عام آدمی کے لئے کیسے محفوظ ہو گا۔ عمران خان کے ساتھ ساتھ دوسرے قیدیوں کی بھی ملاقاتوں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ میڈیا میں یہ رپورٹ ہورہا ہے کہ سینیٹ کے آنے والے انتخابات کے لئے یہ پابندی لگائی گئی قومی اورصوبائی اسمبلی کے الیکشن میں بھرپور کامیابی کے بعد پی ٹی آئی پوری انتظامیہ اور دفاعی اداروں کے لئے خطرہ بن گئی ہے۔ دفاعی اداروں نے بلیک میل ہو کر اور زرداری کو صدر پاکستان بنا کر دو طرف گیم کھیلی ہے ایک تو نواز شریف کو ہمیشہ کے لئے سیاست سے الگ کر دیا گیا ہے۔ دوسرے مریم کو بھی ٹھیک کرنے کے لئے آج کل ہر طرف سے مریم چور کے نعرے لگوائے جارہے ہیں مریم کو بھی اپنی اوقات یاد دلائی جارہی ہے۔ زرداری سے بھی دوکام لئے جائیں گے ایک تو وہ تحریک انصاف کے یا تو بندوں کو توڑیں یا اگر عمران خان راضی ہوں تو بلاول کو آئندہ وزیراعظم تحریک انصاف کے ساتھ مل کر بنایا جائے لیکن یہ سب بعد کی باتیں ہیں۔ اس وقت سب سے اہم بات پی ٹی آئی اور عمران خان کو کنٹرول کرنا ہے۔ دو ہفتوں کی پابندی لگانے کا مقصد تحریک انصاف کو مشوروں اور فیصلوں سے دور رکھنا ہے۔ اسی لئے وکلاء، فیملی سب سے ملاقات پر پابندی لگائی گئی ہے۔ عمران کوئی مشورہ یا فیصلہ اپنی پارٹی کے لوگوں کو نہ دے سکیں۔ یہ ہے ظلم کی بات وہ کسی طرح بھی مزید سینیٹ میں سیٹیں تحریک انصاف کو نہیں دینا چاہتے۔ اسی طرح اگر سینیٹ میں تحریک انصاف اکثریت حاصل کر لیتی ہے تو اس کو سیاست سے آئوٹ کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ اس طرح وہ سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب میں بہت اہمیت حاصل کر لیں گے۔ یہی دفاعی ادارے نہیں چاہتے وہ عمران خان کو بھی ہمیشہ دبائو میں رکھنا چاہتے ہیں لیکن عوام نے یہ منصوبہ بالکل الٹ دیا ہے۔ تحریک انصاف کو جس بھاری اکثریت سے عوام نے ووٹ دیا ہے اس نے دنیا میں ایک نیا ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔ اگر عوام چاہیں تو کوئی طاقت عوامی رائے کو مسترد نہیں کر سکتی لیکن بے ایمانی اور دھاندلی کرسکتی ہے۔ نواز شریف کو جتوا سکتی ہے ڈاکٹر یاسمین راشد کے مقابلے میں خواجہ آصف کو جتوا سکتی ہے۔ عثمان ڈار کی والدہ کے مقابلے میں چیف الیکشن کمشنر اور دفاعی اداروں کچھ بھی کر سکتے ہیں۔
اب آئندہ کیا ہونے جارہا ہے اس کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے کسی طرح سینیٹ کے انتخابات میں پی ٹی آئی کو زیادہ سیٹیں نہ لینے دی جائیں دوسرے کے پی کے میں وزیراعلیٰ کو کسی نہ کسی طرح کنٹرول کیا جائے تاکہ مرکزی حکومت کی رٹ قائم رہے سکے اس سے پہلے ایک مرتبہ یہ ہو چکا ہے نواز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے تب انہوں نے بے نظیر کا استقبال کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ پھر بے نظیر کو میاں شریف کو ان کے دفتر کے اندر سے ایف آئی اے کے ذریعے اٹھوانا پڑا تھا۔ حالات شائد اس طرف جارہے ہیں۔ اگر ویزراعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈاپور مرکز سے محاذ آرائی کی صورت برقرار رکھتے ہیں اور مرکز سے تعاون نہیں کرتے تو یا کے پی کے میں گورنر راج لگ سکتا ہے یا وزیراعلیٰ کو کسی نہ کسی الزام میں گرفتار کر لیا جائے گا۔ یہ صورت حال بہت خطرناک ہو گی۔ اس لئے کہ دوسرے صوبے اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے خاص طور سے سندھ اور بلوچستان دونوں جگہ پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور وہ چاہیں گے کہ مرکز کو مزید کمزور کیا جا سکے اور بلاول کو آئندہ کا وزیراعظم بنوانے کی کوشش کی جا سکے۔اس وقت تک مرکزی حکومت مزید کمزور ہوچکی ہو گی۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات مکمل ہو چکے ہونگے۔ مہنگائی کا طوفان پورے ملک میں آچکا ہوگا فوج بھی عوام کو دھوکہ دینے کے لئے تبدیلی کے لئے تیار ہو گی نیا وزیراعظم آجائے گا نئی کابینہ آجائے گی آرمی چیف کے دو سال پورے ہو چکے ہونگے۔ دوسری مرتبہ ان کو ایکسٹینشن ملنی مشکل ہو گی۔ پی ٹی آئی کسی قیمت پر عاصم منیر کو آگے منظوری نہیں دے گی۔ یہی ٹرننگ پوائنٹ ہو گا۔ فوج کو فیصلہ کرنا ہوگا عمران خان کے ساتھ کیا کریں گے یہی چوہے بلی کا کھیل آئندہ دو سال جاری رہے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں