0

وہی پرانے جال اور پرانے شکاری!

رمضان کا متبرک مہینہ شروع ہوتا ہے تو عام خیال اور روایت یہ کہتی ہے کہ شیطان بند ہوجاتا ہے! تو شاید اسی خطرہ کے پیشِ نظر پاکستان کو اپنی مقبوضہ ریاست سمجھ کر اس پر قابض ابلیسی فرزندوں نے رمضان شروع ہونے سے پہلے ہی اپنی مقبوضہ ریاست پر اپنی پسندیدہ کٹھ پتلیوں اور گماشتوں کی مدد سے اپنا قبضہ بدستور رکھنے کیلئے سیاست کی بساط پر مہرے سجادئیے ہیں۔ پاکستان کو قائم کرنے والے بابائے قوم کی روح عالمِ بالا میں کیسی تڑپ رہی ہوگی کہ جس مملکتِ خداداد کے وہ پہلے سربراہ تھے اس پر اب رسوائے زمانہ ڈکیت، زرداری، پھر سے صدر بنواکر مسلط کردیا گیا ہے تاکہ اپنا خزانہ اور بھر سکے اور اپنے مربی یزیدی جرنیلوں کو، جنہوں نے اسے دوبارہ پاکستانی عوام کے سینوں پر مونگ دلنے کیلئے بٹھایا ہے، کھانے کمانے کے مواقع مہیا کرسکے۔
یہ بندر بانٹ جو ہمیں نظر آرہی ہے پاکستان کی تباہی اور بربادی پر وہ مہر ہے جس کے بعد کوئی ایسی ہی مہر لگنے کی کسر ہے جیسی 16 دسمبر، 1971ء کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں چوہے جنرل نیازی نے پاکستان کے بدترین دشمن کے سامنے بزدلی سے ہتھیار ڈال کرلگائی تھی اور مشرقی بازو ملک سے کاٹ دیا گیا تھا۔ سوال یہ ہوتا ہے کہ اب پاکستان سے کیا کاٹا جائے گا اور اس کاٹے جانے کے بعد پاکستان کس حلیہ، کس شکل میں برقرار رہے گا، اگر برقرار رہا تو! یہ بندر بانٹ ہی کرنی تھی تو کیا ضرورت تھی 8 فروری کو عام انتخابات کا ناٹک رچانے کی اور اس مفلوک الحال ملک کے کھوکھلے خزانے کے پچاس ارب روپے برباد کرنے کی؟ مانا کہ بازیگروں کیلئے ملک زبوں حالی اور پسماندگی کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ انہیں تو صرف اپنے حلوے مانڈے سے مطلب ہے جو ہر حال میں انہیں ملتا رہتا ہے۔ ملک کے عوام کے پیٹ پر پتھر بندھے رہتے ہیں لیکن ان یزیدیوں کی عیاشیاں اور اللے تللے جاری رہتے ہیں ان پر کوئی آنچ نہیں آتی، ان کے شاہانہ ٹھاٹ باٹ سرِ مو بھی کم نہیں ہوتے اور کیوں ہوں کہ ملک ان کا ہے، ان ہی کیلئے بنا تھا۔ ان کے باپ دادا کی جاگیر ہے، میاں! لیکن بازیگروں نے الیکشن کا ناٹک رچاکے اپنی دانست میں ایک ایسا تیر مارا تھا جو اپنے نشانے سے چوک ہی نہیں سکتا تھا! الیکشن کا فراڈ کرنے سے پہلے ان یزیدیوں نے پورا بندوبست کرلیا تھا کہ الیکشن کا نتیجہ ان کے حق میں ہی آئے گا، ان کی شطرنجی چالیں پانسہ ان کے حق میں ہی پلٹے گی۔ اپنے راستے کے سب سے بڑے کانٹے، عمران خان، کو کوفی اور شامی جرنیل اپنے راستے سے ، اپنی سوچ کے مطابق، ہٹا چکے تھے اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید کرکے اور اس کے خلاف ڈیڑھ سو سے زائد جھوٹے اور بیہودہ مقدمات بناکے۔ ملک کے بدنام اورگلے گلے تک کرپٹ عدالتی نظام سے انہیں کوئی کھٹکا نہیں تھا اسلئے کہ فائز عیسی جیسے نفسیاتی مریض کو وہ عدالتِ عالیہ کی سربراہی سونپ چکے تھے اور یہ نام کا قاضی جس منصب پر فائز کیا گیا تھا اس کے پس پشت صرف یہی نہیں تھا کہ ایک اپنے ہی جیسا کرپٹ اور اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار چیف جسٹس یزیدیوں کو درکار تھا بلکہ فائز عیسی بذاتِ خود عمران سے انتقام لینے کی آگ میں جل رہا تھا اور اس نے اپنی اصلیت تحریکِ انصاف سے اس کا انتخابی نشان چھین کر دکھادی تھی۔ اور پھر 8 فروری کی تاریخ سے صرف تین دن پہلے عمران اور ان کی اہلیہ کو سزا سناکر گویا سازشی جرنیلوں نے عمران اور تحریکِ انصاف کی تقدیر پر اندھیرے کی مہر لگادی تھی۔ عاصم منیر اور اس کے ساتھ شریکِ جرم دیگر یزیدی جرنیلوں کو کامل اطمینان تھا کہ ان کا کام پکا تھا اور ان کی بازی کوئی مات نہیں کرسکتا تھا۔ عمران کو اپنی دانست میں وہ اندھے کنویں میں پھینک چکے تھے اور تحریکِ انصاف کے جو امیدوار ان کی چیرہ دستیوں اور فسطائی ہتھکنڈوں سے بچ بھی گئے تھے ان کا حال ایسا کردیا گیا تھا کہ جیسے کسی باکسر کو مقابلہ کیلئے رنگ میں جانے سے پہلے اس کے دونوں ہاتھ رسی سے جکڑ دئیے گئے ہوں۔ اس اطمینان وانصرام کے ساتھ الیکشن کا ناتک رچانے میں فسطائی جرنیل چِت بھی اپنی اور پَٹ بھی اپنی دیکھ رہے تھے۔ اپنے کو عقل کل سمجھنا تو پاکستان کے نیم خواندہ جرنیلوں کا پرانا رویہ ہے جس میں ارتکازِ طاقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہی ہوتا چلا آیا ہے۔ لیکن اس کھیل میں ان کا خیال تھا کہ سانپ بھی مرجائے گا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔
اور وہ یوں کہ دنیا کو وہ دکھا سکیں گے کہ ہم نے تو الیکشن کروایا تھا اب کیا کریں جو عمران کے حمایتی گھروں سے ہی نہیں نکلے؟ اپنی دانست میں ملک میں بدترین قسم کا جو جابرانہ اور فسطائی نظام انہوں نے قائم کیا تھا اورجس طرح سے تحریکِ انصاف کے حامیوں اور حمایتیوں کو ڈرا یا دھمکایا گیا تھا، جس طرح 9 مئی کے ڈرامے کو جواز بناکر ہزاروں تحریکِ انصاف کے بیگناہ کارکنوں سے جیلیں بھری گئی تھیں تو جرنیل اپنے زعم میں یہ یقین کرکے بیٹھے تھے کہ ہم نے تحریکِ انصاف کی کمر توڑدی ہے اور اس کے حمایتیوں کی کیا مجال کہ وہ 8 فروری کو اس کے امیدوار کو ووٹ دینے کےلئے باہر نکلنے کی جسارت دکھائینگے۔ لیکن جو چمتکار تحریکِ انصاف کے حامیوں اور عمران کے پروانوں نے الیکشن میں دکھایا اس نے تو بقراط جرنیلوں کے ہوش اُڑادئیے۔ ان کے سارے منصوبوں پر ایسے ہی پانی پھیر دیا جیسے 1970ء کے انتخابات میں مشرقی پاکستان کے محب وطن باسیوں نے اس وقت کے یزید، جنرل یحییٰ کے منصوبے کے ساتھ کیا تھا اور اسے دھول چٹوادی تھی۔
لیکن عاصم منیر اور اس کے وردی پوش گماشتے تو یحییٰ اور اس کے رفقاء سے دس گنا زیادہ بے شرم اور بے غیرت ہیں لہٰذا ان بے شرموں نے نہ صرف پاکستانی عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا بلکہ غیور اور حریت پرست یزیدیوں کے پاس ڈنڈا ہے اور وہ اسے بیدریغ اپنے حق میں اور عوام کی رضا کے خلاف استعمال کرنا اپنا موروثی حق سمجھتے ہیں پھر سے ان رسوائے زمانہ، ملت فروش اور عوام دشمن سیاسی گماشتوں کو اقتدار کی مسند پر بٹھا دیا ہے جودنیا بھر میں ملک و قوم کی تذلیل اور رسوائی کا باعث بنے رہے تھے۔ تو رذیل زرداری کوپھر سے صدر بناکر بٹھادیا گیا ہے، وہ شہباز جس کی شہرت یہ ہے کہ وہ جرنیلوں کے بوٹ پالش کرنے میں مہارت رکھتا ہے وزیرِ اعظم ہوگیا ہے اور بلیک میلروں کی استانی، نیم خواندہ، مریم کوپنجاب کا صوبہ سونپ دیا گیا ہے۔ یہ سب وہ ہیں جنہیں تحریکِ انصاف کے حق میں نکلنے والا سیلاب تنکوں کی طرح بہا لے گیا تھا لیکن یہ چونکہ یزیدی جرنیلوں کے منظورِ نظر ہیں لہٰذا ہارنے کے باوجود اقتدار ان کے کشکول میں ڈال دیا گیا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود عاصم منیر اور اس کے گماشتوں کو اپنی طاقت کا جو گھمنڈ ہے وہ آپے سے باہر ہورہا ہے۔ 5 مارچ کو پنڈی میں جو کور کمانڈرز کی منڈلی بیٹھی اس نے اپنی ابلیسی مجلسِ شوری کے بعد جن سخت الفاظ میں اپنا اعلامیہ جاری کیا ہے وہ بالکل اسی قسم کا ہے جیسا ان دنوں فلسطین پر قہر ڈھانے والی صیہونی حکومت کا نمائندہ، بن یامین نیتن یاہو اپنے گندے منہ سے اُگلا کرتا ہے۔ پاکستانی عوام کو جس انداز میں اس اعلامیہ میں دھمکیاں دی گئی ہیں وہ گواہی دے رہا ہے کہ یزیدیوں کو اپنی طاقت کا بڑا نشہ ہے جو ان سے سہا نہیں جارہا۔ یوں لگتا ہے جیسے پاکستان انہوں نے فتح کرلیا ہو۔۔۔ اور ان بزدلوں کی روایت بھی یہی ہے کہ دشمن کے سامنے تو یہ بھیگی بلی بن جاتے ہیں، ہتھیار فوراًپھینک دیتے ہیں لیکن اپنے نہتے عوام کے سامنے شیر ہوجاتے ہیں اور یہی ان کی بزدلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
تو فی الحال تو یزیدیوں نے ریاست کی بساط اپنے مہروں سے سجالی ہے اور ساتھ ساتھ ظلم و ستم کا فسطائی نظام پوری تندی اور تیزی سے جاری ہے۔ سردار لطیف کھوسہ کو پکڑ لیا گیا ہے اور پکڑ دھکڑ کا سلسلہ اپنے عروج پر ہے۔ مقصد عوام کے حوصلوں کو پست کرنا ہے تاکہ وہ یزیدی منصوبوں کو قبولیت دے دیں لیکن بد نہاد جرنیل تاریخ کا سبق بھول گئے ہیں، اپنی ہی تاریخ یاد نہیں کہ مشرقی پاکستان میںطاقت کے بیجااستعمال کا نتیجہ کیا نکلا تھا۔ یہ بھی قانونِ قدرت ہے کہ بداعمالیاں آنکھوں پر پردے ڈال دیتی ہیں اور پاکستانی جرنیلوں کی آنکھوں پر تو ویسے بھی چربی بے تحاشہ چڑھی رہتی ہے۔ جن پرانے اور رسوائے زمانہ شکاریوں کو پاکستان پر مسلط کیا گیا ہے وہی ان یزیدی جرنیلوں کے منہ پر کالک ملنے کا سبب بنیں گے۔ عمران نے یہی تو بیمثال کام کیا ہے کہ اس نے پاکستان کے سوئے ہوئے عوام کو بیدار کردیا ہے اور انہیں یہ اعتماد بخشا ہے کہ ان کی عوامی طاقت کے ریلے کے سامنے کوئی طاقت نہیں ٹک سکتی ہے۔ تو عاصم منیر کے فسطائی ٹولے کا انجام بھی وہی ہوگا جو ہر یزید کا ہوتا ہے، یہی تاریخ کا سبق ہے۔ یہی قدرت کا قانون ہے جسے خود کو زمینی خدا سمجھنے والے بھلا دیتے ہیں۔
تو لیجئے، مقبوضہ پاکستان کی موجودہ تصویر اس رنگ میں دیکھئے:
ڈکیت صدر ہے اور چور ہے وزیرِ کبیر
یہ مملکت ہے خداد کہہ رہے بے ضمیر
وطن فروش ہیں خود ساختہ محافظ بھی
جہاں میں اس کی کہو کیسے مل سکے گی نظیر ؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں