0

تبدیلی نہ آنے کی وجہ

انتخابات کسی بھی ملک میں ہوں‘ تبدیلی لانے کا وعدہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی یہ بات درست ہے کہ ہر جگہ لوگوں کی اکثریت اپنے حالات سے مطمئن نہیں ہوتی اس لیے وہ کسی ایسے لیڈر کو ووٹ دینا چاہتے ہیں جو انکی زندگی کو تبدیل کرسکتا ہو۔ لیکن کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ انہیں کسی پرانے چہرے کو منتخب کرنا پڑ جاتا ہے اور وہ ایسا کر گذرتے ہیں۔ایسا اسوقت ہوتا ہے جب نئی قیادت میسر نہ ہو‘ اور اگر ہو بھی تو ناقابل اعتبار ہو۔ امریکہ آج کل ایسے ہی حالات سے دو چار ہے۔ دونوں صدارتی امیدوار 80 کے پیٹے میں ہیں۔ صدر بائیڈن کی عمراکیاسی برس اور ڈونلڈ تڑمپ کی اٹھتر سے کچھ کم ہے۔ دونوں میں سے کوئی بھی تبدیلی کی بات نہیں کر رہا۔ صدر بائیڈن نے جمعرات کو سٹیٹ آف دی یونین ایڈریس میں اپنی دوسری مدت صدارت کا ایجنڈا پیش کر دیا۔ یہ خطاب انہوں نے کانگرس کے مشترکہ سیشن سے کیا۔ اس میں ہائوس اور سینٹ کے535 اراکین کے علاوہ سپریم کورٹ کے 9 جسٹس اور عسکری قیادت بھی موجود تھی۔ تمام بڑے نیوز چینلز پر دکھائی جانے والی اس تقریب کو 32.2 ملین لوگوں نے دیکھا۔ نیلسن مارکٹ ریسرچ کے مطابق گذشتہ سال اس تقریب کو 27.3 ملین افراد نے دیکھاتھا۔اس مرتبہ پانچ ملین ناظر ین کا اضافہ اس لیے ہوا کہ یہ پروپیگنڈا کافی عرصے سے ہو رہا تھا کہ صدر بائیڈن اتنے بوڑھے‘ مضمحل اورسست رو ہیں کہ وہ ایک جوشیلی اور اثر انگیز تقریر نہیں کر سکتے۔ مگر ان توقعات کے برعکس جوزف بائیڈن سوا گھنٹے تک اتنا گرجے اور برسے کہ اگلے روز ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ یہ تقریر ’’ غصے‘ نفرت اور انتقام سے بھری ہوئی تھی۔‘‘ سابقہ صدر کی یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے مگرصدر بائیڈن یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے ہیں کہ ان میں اتنی انرجی‘ جوش اور ولولہ موجودہے کہ وہ اگلے آٹھ ماہ تک ایک بھرپور انتخابی مہم چلا سکتے ہیں۔
صدر بائیڈن کے اس خطاب کا کلیدی نقطہ یہ تھا کہ امریکہ اسوقت ایسے حالات سے گذر رہا ہے کہ اسے ایک تجربہ کار ‘ سنجیدہ اور مدبر قیادت کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی قیادت جو اسے موجودہ بحرانوں سے بہ حفاظت نکال سکتی ہو اور جو دیانت‘ شرافت‘ وقار اور مساوات جیسی بنیادی امریکی اقدار پر یقین رکھتی ہو۔ اسکا ایک مطلب یہ بھی تھا کہ انکا مد مقابل ان اقدار اور امریکہ کی جمہوری روایات پر یقین نہیں رکھتا۔ اس تقریر میں انہوں نے جن بحرانوں کا ذکر خاصی تفصیل سے کیا ان میںغزہ اور یوکرین کی جنگوں کے علاوہ امریکہ کی جنوبی سرحدوں سے ہر روز ہزاروں تارکین وطن کی آمد بھی شامل ہے۔صدر بائیڈن نے اس خطاب میں کہیں بھی تبدیلی کا ذکر نہیں کیامگر یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انکی رائے میں امریکہ کو اتنے گمبھیر مسائل کا سامنا ہے کہ ان سے نجات حاصل کئے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ پرانے بوجھ سے نجات حاصل کئے بغیر تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔ ان خیالات کا اظہار صدر بائیڈن نے ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب NBC NEWS Poll کے مطابق 73 فیصد امریکن یہ کہہ رہے ہیں کہ انکا ملک غلط سمت میں جا رہا ہے۔ مبصرین اس ’’غلط سمت‘‘ کی تھیوری کو مسترد کرتے ہوے کہتے ہیں کہ اس بات کا اندازہ کیسے لگایا جا سکتا ہے کہ درست سمت کیا ہو سکتی ہے۔ امریکہ کے معاشی حالات تو یورپی ممالک سے بہت بہتر ہیں۔اسکے بعد خارجہ اور ایمی گریشن پالیسیاں رہ جاتی ہیں۔ جب تک یہ پتہ نہ چلے کہ ’’ غلط سمت‘‘سے لوگوں کی مراد کیا ہے صحیح سمت کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔
صحیح سمت جو بھی ہو اس حقیقت سے انکا ر نہیں کیا جا سکتا کہ 1960 میں نوجوان صدارتی امیدوار جان ایف کینیڈی تبدیلی کے ایجنڈے کی بدولت صدر منتخب ہوے تھے۔ پھر 1976میں واٹر گیٹ سکینڈل کے بعد جمی کارٹر بھی پرانی اور از کار رفتہ سیاست کے خلاف تبدیلی کا علم بلند کر کے وائٹ ہائوس تک پہنچے تھے۔ انکے بعد 1980 کے صدارتی انتخاب میں رونلڈ ریگن نے جمی کارٹر کی سیاست کو گذرے زمانے کی سوچ قرار دیکر الیکشن جیتا تھا۔ اسکے بعد 1990کی دہائی میں بل کلنٹن آٹھ برس تک تبدیلی کا استعارہ بن کر وائٹ ہائوس میں برا جمان رہے۔ پھر 2008 میں براک اوباما نے اتنے جوش و خروش سے تبدیلی کا علم بلند کیا کہ امریکی عوام نے انہیں دو مرتبہ خاصی اکثریت سے صدر منتخب کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی 2016کا الیکشن ملک کو ایک نئی سمت میں لیجانے کے وعدے پر جیتا تھا۔ اب صدر بائیدن اور ڈونلڈ ٹرمپ میں سے کوئی بھی تبدیلی کی بات نہیں کر رہا۔ دونوں ایک ایک مرتبہ صدر رہ چکے ہیں۔ انکے لیے اب تبدیلی کا خواب دکھانا ممکن نہیں رہا۔ لگتا ہے کہ امریکی عوام کو تبدیلی کا مسحور کن نعرہ سننے کے لیے مزید چار سال انتظار کرنا پڑیگا۔ اس سال انہیں دو بوڑھے سابقہ صدور میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا ہو گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں