پاکستان کی عدالت عظمیٰ بالکل فارغ بیٹھی ہے اس لیے 48سال پرانے مقدمات دوبارہ سے سننے شروع کر دیئے ہیں۔ ہمارا اشارہ ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی کے مقدمہ کی طرف تھا، جس پر عدالت عالیہ کے فل بینچ نے اپنا قیمتی وقت خرچ کیا جب کہ انتہائی اہم ملکی مسائل التوا میں پڑے تھے۔ خیر اس کی بھی کوئی حکمت ہو گی۔ مقدمہ دوبارہ سے سنا گیا اور فیصلہ آیا کہ بھٹو کے مقدمہ میں انصاف نہیں ہوا۔ بالکل ٹھیک۔ پھر اس کو پھانسی کیوں دی گئی؟شاید یہ فیصلہ اس لیے نہیں کیا گیا تھا کہ احمد رضا قصوری کے باپ کا قتل آنجہانی بھٹو کے حکم پر کروایا گیا تھا، بلکہ ایک مفروضہ اور بھی ہے: غالباًاصل وجہ کچھ اور تھی۔یہ حکم تھا اس وقت کے بادشاہ آنحضرت ضیاالحق کا جسے عدالت نے بھگتایا۔ ضیا الحق، بھٹو کو شاید اس لیے مروانا چاہتا تھا، کہ اس نے فوج کیساتھ مل کرغداری کی اور مشرقی پاکستان کوعلیحدہ کروایا تھا۔ اگر بھٹو زندہ رہتا تو ایک دن اس نے یہ سارا بھانڈا پھوڑ دینا تھا۔ اس کے علاوہ فوج نے جو ظلموں کے پہاڑ بنگالیوں پر توڑے تھے، ان پر سے پردہ چاک کر دیتا۔قصوری کا قتل تو ایک بہانہ تھا جس پر اتنے مقبول عام لیڈر کو پھانسی دینا تو نہیں بنتا تھا؟
لیکن قاضی صاحب نے جو اس کیس میں دلچسپی لی اس کے اصل محرکات کیا تھے؟ ان سے قطع نظر، اس فیصلہ سے کچھ اور پارٹیوں کو بھی کان تو ہوں گے؟ مثلاً فوج کے دبائو میں آ کر کسی سیاسی لیڈر کا قتل کبھی نہ کبھی تو رنگ لائے گا۔اس لیے اسٹیبلشمنٹ کو بھی سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے چاہیئیں اور عدلیہ کو بھی۔اس فیصلے سے پیپلز پارٹی کو زیادہ تالیاں بجانے اور جشن منانے کی ضرورت نہیں، کیونکہ اس بات پر اب دو رائے نہیں رہیں کہ بھٹو ہی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ذمہ وار تھا اور فوج نے اس کا پورا ساتھ دیا یا اس نے فوج کا؟وہ شہید تو ہر گز نہیں کہلایا جا سکتا اور نہ ہی قومی ہیرو۔اگر وہ کچھ تھا تو سب سے بڑا غدارِ وطن تھا،جس نے ملک کے دو ٹکڑے کیے۔
آج کے حالات پھر ایک دفعہ فوج کی سیاست میں دخل اندازی کے مترادف نظر آتے ہیں۔ فوج نے جس طرح ملک کے مقبول ترین رہنما کو قیداور اس کی سیاسی جماعت کو تتر بتر کرنے کے لیے سازشیں کی ہیں وہ انتہائی تشویشناک ہیں۔جنرل باجوہ نے ملک دشمن سیاستدانوں اور غیر ملکی طاقتوںسے ملکرایک اچھی بھلی نمائندہ، جمہوری حکومت کا تختہ الٹوایا، وہ اس کہانی کی ابتداء تھی۔اسے پھر شہباز شریف ، اس کے ٹولے اور نئے آرمی چیف نے ان منصوبوں کی بنیاد رکھی جن پر عمل کر کے نہ صرف عمران خان کو سیاست سے الگ کرنا تھا، اس کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کو بھی کمزور اور غیر موثر بنانا تھا۔یہ اندازہ سب کو تھا کہ اگر صاف شفاف انتخابات وقت پر ہوئے تو عمران خان بھاری اکثریت سے جیت جائے گا، جو حزب مخالف اور ان کے دوسرے حلیفوں کو قطاً نا منظور تھا۔ فوج ایک ایسی حکومت لانا چاہتی تھی جو اس کے اشاروں پر چلے اور اس کے منافع بخش منصوبوں پر رخنے نہ ڈالے۔ ایسی حکومت فوج کے پرانے وفادار نواز شریف کے سوا کون ہوسکتا تھا؟ اس لیے یہ انتہائی ضروری تھا کہ عدلیہ کے ساتھ ملکر بد عنوانوں کا یہ ٹولہ اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے پر کمر بستہ ہو جائے۔
عمران خان کو راستے سے ہٹانے کے لیے امریکنوں کی مرضی شامل تھی۔ اس لیے اس پر سیدھا سیدھا قاتلانہ حملہ کروایا گیا جس میں وہ زخمی ہوا اور بر وقت امداد مل جانے پر محض زخمی ہو گیا۔ پھر اس پر دو سو سے زیادہ مقدمات ڈال دیئے گئے۔ ان میں سے تین پرکل ملا کر 34سال کی سزا سنائی گئی ۔ان میں شامل تھے توشہ خانہ کا مقدمہ، ایک تھا، عدت کی مدت سے پہلے نکاح کا مقدمہ اور ایک تھا اسلامک یونیوسٹی بنانے کا مقدمہ۔ ملک کے نامور وکلاء کا کہنا ہے کہ یہ سب بے بنیاد مقدمے کسی بھی عدالت میں اگر پیش کیے گئے تو خان باعزت بری ہو سکتا ہے۔
ابھی ایک اہم اور سرارسر بے سر و پا مقدمہ عمران خان پر باقی ہے، وہ ہے9مئی کے واقعات کا جس کا اس پرپر دہشت گردی کا الزام لگایا گیا ہے۔ 9مئی کو لوگ عمران خان کی گرفتاری پر پُر احتجاج تھے اور سڑکوں پر آ گئے تھے۔بعد ازاں جب ان مظاہروں کی تصاویر دیکھی گئیں، تو کئی مشاہدات ہوئے، جن پر سب سے پہلا تبصرہ نہایت قابل احترام وکیلوں کا تھا، جن میں سر فہرست بیرسٹر اعتزاز احسن اور سپریم کورٹ کے وکیل جناب لطیف کھوسہ کے تھے جنہوں نے سوالات اٹھائے کہ جب فوجی تنصیبات مثلاًلاہور چھاونی میں کور کمانڈر کے گھر پر ، جو قائد اعظم کے نام پر تھا، اس پر حملہ کیا گیا، تو اسوقت فوج کے اپنے گارڈز کیوں غائب تھے؟ اور جب ہجوم اسطرف دھکیلے جا رہے تھے تو پولیس کہاں تھی جو ہر جلسے جلوس پر پہلے ہی سے حاضر ہوتی ہے۔ کمانڈر صاحب گھر میں صرف فیملی کے ساتھ تھے اور ان کا حفاظتی دستہ وہاں سے ان کی مرضی کے بغیر ہٹوا دیا گیا تھا۔انہوں نے مشکل سے اپنی فیملی کو دیوار پھلانگ کر ہمسایوں کے گھر جا کر پناہ لینے کو کہا اور خود حملہ آواروں کو بٹھا کر چائے آفر کی۔ جب تک ان کی گواہی اور حلفیہ بیان نہیں دلوایا جائے گا، یہ مقدمہ آگے نہیں چل سکتا۔ اس واقعہ پر بہت سے سوالات ہیں جن کا جواب ملنے پر ہی پتہ چلے گا کہ کس نے یہ سازش کی اور اس کے مقاصد کیا تھے؟
ایسے ہی حملے جی ایچ کیو پر کیے گئے جن پر سوالات اٹھے اور اٹھیں گے۔ ایک معتبر شخصیت نے جی ایچ کیو پر عوام کے دھاوے پر کچھ سوالات اٹھائے ہیں، وہ قابل غور ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق،’’جج صفدر سلیم کو جن کا آج آخری دن تھا ریٹائرمنٹ سے قبل۔انہوں نے 9مئی کے واقعہ پر پورا پردہ اٹھا دیا۔ان کا کہنا تھا کہ 9مئی کو جی ایچ کیو پر حملہ میںکوئی بندہ زخمی بھی نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی فوجی افسر شکایت کنندہ بنا۔ جی ایچ کیو کے اندر اور باہر سی سی ٹی وی کیمروں کو کسی نے تحویل میں نہیں لیا ، اور شناختی پریڈ میں کسی فوجی کو شامل نہیں کیا گیا۔نہ ہی کوئی عینی شاہدگواہ موجود تھا۔
جی ایچ کیو کے کیس میں کسی عورت کا نام نہیں لیا گیا۔موقع پر موجود کسی پولیس افسر نے احتجاج کنندگان سے کسی کو بھی جی ایچ کیو میں جانے سے نہیں روکا۔بادی النظر میںاینٹی ٹیررازم ایکٹ کا اس کیس میں اطلاق نہیں ہوتا۔ــ‘‘
ان شواہد سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ واقعہ اسٹیبلشمنٹ اور عبوری حکومت کی ملی بھگت کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا، اس کے کرداروں میں شہباز شریف، وزیر اعظم، ان کا وزیر داخلہ غنڈہ گردی کا ماہر رانا ثنا اللہ، اوربد نام زمانہ جھوٹا مکار عطا تارڑ اور وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی تھے۔ وزیر اعلیٰ کے احکامات پر پولیس کے سربراہ آئی جی نے پورے تعاون کا یقین دلایا۔اور پولیس نے دل بھر کر تحریک کے کارکنوں کو گرفتار کیا، انہیں مارا پیٹا اور خواتین تک پر تشدد کیا گیا۔ اس وقت بھی کئی ہزار کارکن اور خواتین جیلوں میں بند ہیں۔
جب دیکھا گیا کہ عام انتخابات تو کروانے ہی پڑیں گے تو نگران حکومت کے پورے تعاون کے ساتھ جو اقدامات کیے گئے وہ دھاندلی سے کہیںبڑھے ہوئے تھے۔ ان اقدامات میں الیکشن کمیشن نے پوار کردار ادا کیا۔مثلاً تحریک انصاف سے اس کا انتخابی نشان بلا لے لیا گیا۔ تا کہ کوئی تحریک کا نمائیندہ منتخب نہ ہو سکے۔اس پر عدالت عا لیہ کے چیف قاضی نے بھی مہر ثبت کر دی، یعنی حکومت، الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ اس قبیح فعل میں شامل ہو گئے۔کمیشن نے پھر جان بوجھ کر تحریک کے امیدواروں کو فضول مضحکہ خیز انتخابی نشان دیئے اور ان کے انتخابی حلقوں میں بھی ایسی رد وبدل کی کہ ووٹرز آسانی سے نہ ڈھونڈ سکیں۔تحریک کے امیدواروں کو زد و کوب کیا گیا یا سیدھا سیدھا جیل میں ڈال دیا گیا۔تحریک کے قائد عمران خان کا نام لینا اور تصویر دکھانا جرم بنا دیا گیا اور اس کے اکثر قایدئن کو جیلوں میں بند کر دیا گیا،اور ان کو جلسے جلوس کرنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ اس کے مقابلے میںمخالفین دھڑلے سے جلسے کرتے رہے۔یہ انتظامات ایسے ہی تھے کہ کسی کے ہاتھ پیر باندھ کر اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر کشتی کے اکھاڑے میں بھیج دیا جائے کہ جائو بیٹا کشتی لڑو۔جیسا کہ امید تھی، پھر بھی عوام جوق در جوق خان کے نمائندوں کو ووٹ ڈالنے آئے اور ایک حیران کن تعداد میں اس کے اکثر امیدواروں کو جتوا کر چلے گئے۔جس کا سرکاری ثبوت فارم ۴۵ تھا۔ اس فارم پر تمام ووٹوں کی تعداد درج کی جاتی تھی اور سب جماعتوں کے نمائندے دستخط کرتے تھے۔ پھر ان فارموں کو اکٹھا کر کے ان کی سمری بنائی جاتی تھی جو فارم ۴۷ میں دی جاتی تھی۔یہ کا م ریٹرنگ آفیسروں کا تھا۔یہ آر اُوز سرکاری ملازم تھے۔ انہوں نے ان فارموں میں رد وبدل کی اورکئی جیتے ہوئے تحریک کے نمائیندوں کے ووٹ تبدیل کر کے ان کے ووٹ مخالف امیدوارں کو دلوا دیئے، یوں دھاندلی کا پروگرام اختتام کو پہنچا اس کی گواہی غیر ملکی مبصرین اور دوسروں نے بھی دی ہے۔اس دوران عمران خان جیل میں سزائیں بھگت رہا تھا اور اس کی جماعت کو جو اکثریت کے ساتھ جیتی تھی، اسے شکست خوردہ بنا دیا گیا۔یہ ملک میں انتخابات کا سب سے بڑا ، خوفناک دھاندلہ تھااسے غداری عظیم کا نام دیا جائے تو کم نہیں۔یہ صاف اور شفاف الیکشن تھا اسے ایک بد نما دھبہ بنا دیا گیا۔
اس طرح ہماری پیاری فوج جسے قوم انتہائی عزت واحترام کے ساتھ دیکھتی تھی، عوام کی نظروں میں یکایک برہنہ ہو گئی۔فوج نے یہ سب کچھ کیوں کیا؟ایک وجہ تو اس کے آقائوں کو جو واشنگٹن ڈی سی سے احکامات ملے تھے ان کا پورا کرنا ضروری تھا۔(امریکہ کا چہیتا ملک عمران خان کا جانی دشمن بن چکا تھا کیونکہ خان اسلامی دنیا میں انتہائی تیزی کے ساتھ مقبولیت حاصل کر رہا تھا)۔ لیکن اس کے ساتھ خان کا ایجنڈا کرپشن کے خلاف جہاد تھا اور عسکری منصوبوں میں وہ رکاوٹ بن سکتا تھا۔اس لیے بھی اسٹیبلشمنٹ کو خان نا پسند تھا۔فوج نے پاکستان کے بجائے اپنے ماسٹر کی خواہشات کو ترجیح دی۔یہ افسوسناک فیصلہ تھا۔اگر فوج امریکی احکام نہ مانتی تو کیا ہوتا؟ کیا امریکہ پاکستان پر بندشیں لگوا دیتا؟ خیر جو بھی ہوتا، عمران خان اسے سنبھال لیتا۔پاکستان ایک باوقار قوم تو بن جاتا۔
اسو قت پاکستان اقتصادی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔سب جانتے ہیں کہ نیا حکومتی ٹولہ اسے تباہی سے نہیں بچا سکتا ،اس لیے کہ دنیا میں اس کی ساکھ نہیں ہے۔ البتہ ذرا سا امکان ہے کہ امریکن کوئی مدد کر دیں اور قرضوں کے واپسی کی مدت بڑھوا دیں۔دوسری طرف آئی ایم ایف کی قرضہ دینے کی شرائط اتنی سخت اور بے معنی ہوتی ہیں کہ پاکستانی غریب عوام مہنگائی کے ہاتھوں پِس کر رہ جائیں گے۔
0