امریکہ کا اصل حاکم کون؟

سوشل میڈیا کا اللہ بھلا کرے، لوگ ہر طرح کی باتیں لکھ جاتے ہیں۔ اور ہماراایمان کہتا ہے، نقل کفر، کفر نہ باشد۔ لہٰذا ملاحظہ ہو:’’ پاکستان کا مستقبل: اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے، جب سے فوج نے عمران خان کی حکومت گرائی ہے، 21ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنا کاروبار بند کر چکی ہیں۔ اس میں مائکرو سوفٹ ، شیل اور ٹیلی نار شامل ہیں۔25 کروڑ کے ملک میںان کمپنیوں کا 25/30سال بعد کاروبار بند کر نا آنے والے حالات کی نشاندہی کر رہا ہے۔پاکستان کا بیرونی قرضہ 6.231ارب ڈالر ہے۔ گذشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کی سالانہ آمدنی کم اور خرچہ زیادہ ہے۔ آج تک ہمیں اس بات کا ادراک نہیں ہو سکا کہ investment in people کتنا اہم ہے؟تعلیم پر کل خرچ GDP کا تقریباً ایک فیصد ہے۔ جبکہ ایشیاء میں یہ خرچ اوسط3یا4فیصد ہے۔ ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے لکھی پڑھی manpower بہت ضروری ہے۔‘‘
ہماری فوج ہر کام، بقول کیپٹن ایمان کے، ہمارے مفاد میں کرتی ہے، ان حالات کا سہرا اسی کے سر جاتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو سرمایہ کاری کے لیے نیاا دارہ بنایا گیا تھا اس نے اپنا کردار ٹھیک طرح سے نہیں سمجھا۔ بجائے ملک میں نیا سرمایہ آتا، جو پہلے سے سرمایہ لگا تھا، وہ بھی واپس جانا شروع ہو گیا۔ اگر یہی مقصد تھاتو اس میں شاندار کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اللہ کرے زور بازو اس سے بھی زیادہ۔لیکن باہر کی کمپنیز کا پاکستان چھوڑ کے جانا، فوج کے مفاد میں تو نہیں ہو سکتا اس لیے اس کا الزام کہیں اور سیٹ ہو گا۔ اور وہ ہے ہماری سول سروس اور ان سے جڑے سیاستدان، جو ہر چھوٹے سے چھوٹے کام کے لیے بڑی سی بڑی رشوت مانگتے ہیں۔ پاکستانی کمپنیاں تو من مانگی رشوت دے دیتی ہیں، لیکن باہر کی کمپنیاں اس کرپشن کی عادی نہیں اور انکو اپنے سب اخراجات آڈٹ کروانے پڑتے ہیں ، جن میں رشوت کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ اب انتظامیہ اپنی جیب سے دینے سے رہی۔ وہ پھر بوریا بستر لپیٹ کر ایسے ملکوں میں چلے جاتے ہیں جہاں اس قسم کی کرپشن نہ ہو۔ہماری فوج اس نظام کوبخوبی سمجھتی ہے۔ لیکن وہ کیا کرے۔ دونوں بڑی پارٹیوں کے سربراہ اس کرپٹ نظام کے سر پرست ہیں۔ جنہیں ان کے کارکن کہتے ہیں، کھاتا ہے تو کیا؟ لگاتا بھی تو ہے۔سول سرونٹس کا ایک وسیع نیٹ ورک ہے۔ اور کرپشن ہر سطح پر ہوتی ہے۔ نیچے سے اوپر تک آمدنی بھیجی جاتی ہے۔
اب حاضر ہے ایک مکالمہ جس پر تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس کو پڑھئے اورلطف اٹھائیے۔جیوفری سیکس ، کو لمبیا یونیورسٹی کے سینئر پروفیسر ہیں، اور مشرق وسطیٰ کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
23جون 2025ء جج انڈریو نیپولیٹانوکا جیفری سیکس سے انٹر ویو(یو ٹیوب)
سوال: آپ کی نظر میںاصل وجہ کیا تھی کہ صدر ٹرمپ نے ایک جائز ملک پر بمباری کر کے اس کو تباہ کرنے کی کوشش کی، جس پر انسپکشن کی جا چکی تھی، اور اس کا یورینیم کو خالص کرنے کا پروگرام منظور کیا جا چکا تھا؟
سیکس: اس لیئے کہ بنجمن نیتین یاہو نے ٹرمپ کو حکم دیا جو اُسے ماننا پڑا۔
سوال: کیا امریکہ اسرائیل کے مطالبات، خواہشات اور مانگوں کا غلام ہے؟
سیکس: یہ تو اب بالکل عیاں ہے۔پہلے یہ ایک سوالیہ نشان تھا، اب تو بالکل واضح ہے۔یہ امریکہ کے مفاد میں نہیں تھا لیکن ہم مسئلہ کے حل کی طرف جا رہے تھے۔ہم مذاکرات کے چھٹے مرحلہ پر داخل ہو چکے تھے، لیکن اسرائیل نے کہا کہ نہیں۔تم وہ کرو گے جو ہم کہیں گے۔اور امریکہ کے صدر نے کہا کہ جی ، جیسا آپ چاہیں۔
سوال: جب قومی سلامتی ادارے کی ڈائریکٹر تلسی گیبرڈ نے ، کانگریس کے سامنےمارچ کے مہینےمیں حلفیہ بیان میں کہا ، کہ یہ میرا ذاتی خیال نہیں بلکہ ان کا پیشہ ورانہ مطالعہ ہے کہ سولہ میں سے پانچ خفیہ اداروں کا متفقہ بیان تھا کہ ایران ایٹم بم نہیں بنا رہا تھا۔نہ ان کے پاس تھا اور نہ وہ بنا رہے تھے۔کیونکہ سن 2002ء سے جو آیت اللہ حکمران تھے انہوں نے ایسا کرنے سے منع کیا تھا۔تو صدر ٹرمپ نے کہا کہ مجھے اس بات کی پرواہ نہیں کہ اس(تلسی) نے کیا کہا۔میرا خیال اس سے مختلف ہے۔سوال یہ ہے کہ اس کو یہ مختلف خیال کہاں سے آیا؟بنجمن اور موساد سے؟
سیکس: یہ تو بالکل واضح ہے۔یہ امریکہ کی حکمت عملی نہیں، اور نہ کبھی تھی اور نہ اب ہے۔ یہ تو نیتن یاہو کی پالیسی تھی۔ایک لمبے عرصہ سے امریکی صدور کی یہ ذمہ واری رہی ہے کہ وہ بریک پر اپنا پائوں رکھیں۔مطلب یہ کہ جب بھی کبھی انہوں ے بریک سے پیر اٹھایا تو اس کا مطلب ہمارے ملک کے لیے، جنگ ہو گا۔کیونکہ ہمارے پاس ایک جنگ کی مشین ہے جو ہر وقت جنگ کے لیے تیار رہتی ہے۔وہ اس کو یو کرائن میں، استعمال کرتے ہیں، اب اسرائیل کے لیے۔وہ اس سے پیسہ بنانا چاہتے ہیں۔جو بھی ہے ان کے عزائم بہت اونچے ہیں۔ اس لیے یہ امریکہ کے صدر کا کام ہے کہ وہ بریک پر اپنا پائوں رکھے۔اب ٹرمپ نے بریک سے پائوں اٹھا لیا کیونکہ بنجمن یاہو نے اسے کہا۔
سوال: یہ آپ کا تجزیہ ہے اور یہ اس سے میل کھاتا ہے جو جان مییرشام نے کہا کہ اس طبقے کا امریکہ کے دونوں ایوانوں میں اکثریت پر قبضہ ہے۔اور اس کا وہی مضبوط قبضہ وائٹ ہائوس پر بھی ہے۔
سیکس: ہاں۔ اور یہ سی آئی اے میں بھی پوری طرح قابض ہے۔اور دوسری خفیہ ایجنسیز میں بھی۔اس لئے تلسی گیبرڈ نے بھی اپنے ہاتھ اٹھا لیے ہیں۔ لیکن اگر اندرون دل جھانک کر دیکھیں، امریکی حکومت کے دوسرے شعبوں میں بھی ہمہ وقت اسرائیل کے لیے چشم براہ رہتے ہیں۔سی آئی اے اور موساد کا گٹھ جوڑ پکا ہے۔یہ اسرائیلیوں کی امنگوں کا مظہر ہے۔وہ بالکل آپے سے باہر ہیںکہ ان کا نڈر پن حیرت انگیز ہے۔ یہ اتنا بے خوف اور خطرناک ہے کہ وہ کتنے شرارت پسند اور فتنہ انگیز ہیں کہ انہیں دنیا میں کسی کی پرواہ نہیں۔ اسرائیل کی حکومت کے وزراء نے پہلے ہی نشر کر دیا کہ اگلے سال تہران میں ملیں گے۔یعنی تب تک ایران کی حکومت بدلی جا چکی ہو گی۔ کتنی چالاکی ہے، لیکن یہ کھلا کھلا فتنہ فساد ہے۔ وہ دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ کس طرح کھلم کھلا جو چاہے دنیا میں کر سکتے ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔وہ اسے حقارت سے دیکھتے ہیں۔ اور اب اسرائیل نے بلا کسی اشتعال کے، ایران پر حملہ کر دیا۔ اور الٹا سب ملک، یورپ اور امریکہ سمیت، ایران کو تنبیہ کر رہے تھے کہ وہ جنگ کو نہ بڑھائے، سوچنے کی بات ہے۔
سوال: ایران دو جنگوں کا نشانہ بنا۔ ایک اسرائیل کی طرف سے اور دوسری امریکہ کی طرف سے۔
سیکس: اگر آپ کو یہ صورت حال واہیات لگتی ہےتو اس کا مقصد ہی یہ ہے کہ یہ واہیات لگے۔ان جنگوں کا مقصد ہی غنڈہ گردی تھا۔ اور ا س کا مظاہرہ کرنا تھا۔ذرا غور کیجیئے کہ جس کے منہ پر طماچہ پڑا ہے اسی کو کہہ رہے ہیں کہ خبردار اس کا جواب دیا۔واہ بھئی واہ۔اگر آپ سوچیں کہ یہ کتنی غلط بات ہے تو اس کا مقصد بھی یہی ہے۔یہ تو دوسروں کو دکھانا ہے کہ ہماری غنڈہ گردی دیکھو۔یہ سب ہمارے کنٹرول میں ہے۔ فکر نہ کریں۔
در حقیقت ان کے کنٹرول میں کچھ بھی نہیں،ہر اقدام ہمیںمکمل تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔ بخدا، نیتن یاہو جس چیز کو ہاتھ لگاتا ہے وہ خاکستر ہو جاتی ہے۔اور یہ اس کے اپنے ملک میں ہو رہا ہے۔جس کو وہ تباہ کر بیٹھا ہے۔پہلے یہ چھ ملکوں کو برباد کرنا چاہتا تھا اور اب ساتواں بھی آ گیا ہے۔اور امریکہ بس حکم کا غلام ہے، یہ کتنی حیرت کی بات ہے۔
سوال: میں اب ذرا اقتصادیات کی طرف آتا ہوں۔، جو آپ کا شعبہ ہے۔ لیکن اس سے پہلے ذرا قانون کی بات کریں۔ ایران، اسرائیل اور امریکہ سب اقوام متحدہ کے رکن ہیں۔ان میں سے امریکہ اور ایران نے ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائوکے روکنے کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔لیکن اسرائیل نے اس معاہدے پر دستخط نہیں کیے تھے۔IAEA جس نے اسرائیل میں تحقیقات کی، کہا کہ اسرئیل ایٹمی ہتھیار نہیں بنا رہا۔
سیکسـ : یو این کا مرکزی کردار رائے عامہ کی نمائیندگی کرنا ہے۔یو این اپنے قوانین نافذ نہیں کر سکتا کیونکہ کوئی بھی مستقل مندوب، ویٹو کر سکتا ہے۔مثلاً امریکہ اکیلا ہی ویٹو استعمال کر رہا ہے جب کہ باقی کے 193ملک یہ پوچھتے ہیں کہ یو این کر کیارہا ہے؟‘‘
اس بحث سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ یہی کہ امریکہ پر اسرائیل کا حکم ایسے چلتا ہے جیسے کہ پوپ کا کیتھولک گرجوں پر۔یعنی بغیر کسی چوں و چراں کے جو حکم نیتن یاہو دیتا ہے وہ ہی چلتا ہے۔اب اس پس منظر میںذرا غور کیجئے کہ پاکستان میں دہایوں سے جو بھی فوجی حکومت بنی اس میں امریکہ کی مرضی شامل تھی۔سب سے پہلے ایوب خان کی حکومت امریکہ نے بنوائی۔ پھر ضیاالحق کی اور اس کے بعد پرویز مشرف کی۔ اور حال ہی میں جو نون لیگ کی حکومتیں بنی ہیں وہ آپ کے خیال میں ان کی مرضی کے بغیر بنی تھیں جی نہیں، وہ تو کھلم کھلا امریکہ بہادر نے عمران خان کی حکومت کا تختہ الٹا تھا۔
اب غور کیجئے کہ اگر اسرائیل پاکستان میں کچھ کروانا چاہتا ہے تو وہ کیا ہے جو امریکہ کے ذریعے نہیں کروا سکتا؟
اگر ایک مفروضہ بنایا جائے کہ امریکہ نے روز ِاول سے پاکستان میں فوج کا راج پسند کیا تو اس میں غلط ہو گا؟ اس لیے کہ امریکی دانشور کہتے ہیں کہ امریکہ کو غریب ملکوں میں جمہوریت نہیں پسند۔ وہ آمریت چاہتے ہیں تا کہ ایک آمر سے سب معاملات طے کر سکیں۔اگر جمہوریت ہو تو معاملات پارلیمنٹ تک چلے جاتے ہیں اور ایک کے بجائے پچاسوں سے مذاکرات کرنے پڑتے ہیں۔امریکہ کے پاس اتنا وقت کہاں کے وہ ایسے جھنجٹوں میں پڑے۔
اب تازہ ترین اطلاعات کے مطابق، پاکستان کو کہا جا رہا ہے کہ وہ ابراہیم ایکورڈ کو تسلیم کرے۔ دوسرے لفظوں میں اسرائیل کو تسلیم کر لے۔ اب دیکھیے یہ مشکل کام کیسے ہو گا؟ اس سلسلے میں شروعات تو کچھ عرصہ سے کی جا چکی ہیں۔ پاکستان نے در پردہ ایک وفد اسرائیل بھیجا تھا۔ جس کے مقاصد اور اور جو حاصل ہوا وہ عوام الناس کو نہیں بتائے گئے۔ لیکن اب بھی کچھ خبریں سینہ بہ سینہ آ رہی ہیں۔ سنا ہے کہ فوج کو یہ ذمہ واری سونپی گئی ہے کہ وہ سیاستدانوں، نو جوانوں اور مذہبی طبقہ کو راضی کرے۔ اگر اسرائیل فلسطینیوں کو ان کے حقوق دے دے اور دو ریاستی فارمولا مان لے تو پاکستان کیا تمام مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کر لیں گے، لیکن اسرائیل یہ نہیں چاہتا اور صرف دھونس ماری سے یہی مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔یہ اب آپ ہی بتائیں کہ پاکستان کیا کرے گا؟پاکستان میں غزہ پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو اٹھوا لیا جاتا ہے۔ تو سوچ لیں کہ کیا ہونے والا ہے؟۔