ہفتہ وار کالمز

ایک ساقط الاعتبار امریکی صدر

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی عمومی وجہ شہرت نوٹنکی ٹائپ سیاستدان اور مکار منافع خور سرمایہ دار کی رہی ہے ۔امریکی رائے عامہ اور ووٹرز اس کی سنجیدہ باتوں میں مزاح اور مذاق ،جبکہ اس کے مزاحیہ بیانات میں سنجیدگی تلاش کرتے رہتے تھے ،اور ہیں بھی۔اپنی بول چال ، حرکات و سکنات جسمانی اور اشارات خفی کے اعتبار سے ڈونلڈ ٹرمپ ذہنی اور نفسیاتی مسائل کا شکار دکھائی دیتا ہے ۔اس کے باوجود وہ اتنا تر دماغ ضرور ہے کہ اس نے ایک اور کھرپ پتی سرمایہ دار ایلان مسک کی جھوٹی تعریفیں کر کر کے اور منافع کا تاثر دے کر ساتھ ملا لیا اور پھر ہر طرح کا بندوبست کرنے کے بعد دوبارہ سے امریکی صدر بننے میں کامیاب ہو گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے جس نعرے نے امریکیوں کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کو متوجہ اور متاثر کیا تھا، وہ جاری جنگوں کے خاتمے اور نئی جنگیں شروع نہ کرنے کا نعرہ تھا۔ اس نے یوکرین جنگ کی پشت پناہی کرنے پر یورپ اور نیٹو کو زبانی نشانہ بازی کا شکار بنایا، روس ؛ یعنی ولادیمیر پیوٹن کو باتوں میں لگایا، یوکرین کے صدر کے ساتھ بدتہذیبی کا مظاہرہ کر کے اپنے نہایت درجہ چھوٹا انسان ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔اس سب کے ساتھ ساتھ اس نے اسرائیل کے صیہونی انتہاء پسند نیتن یاہو کو لگام ڈالنے کی بجائے ،خود اپنے گلے میں اسرائیل کی غلامی کا پٹہ ڈالنا پسند کر لیا۔جنگوں کے خاتمے کا اعلان کر کے دنیا بھر کے انسان دوستوں کو متوجہ کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ میں اسرائیل کی انسان کشی اور تباہی و بربادی کا بھرپور ساتھ دیا اور حد یہ ہے کہ سلامتی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی کی ہر قرارداد کو ویٹو کر کے اپنے منہ پر اور ساتھ ساتھ امریکہ کے چہرے کی نہ مٹنے والی کالک مل لی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو وہ کچھ بننے اور اپنے بارے میں وہ تاثر پھیلانے کا شوق ہے ،جو حقیقت میں کوئی وجود نہیں رکھتا۔ یہی وجہ ہے کہ ستم ظریف ڈونلڈ ٹرمپ کی ذات اور طرز سیاست کو کاٹھ کی ہنڈیا کہا کرتا ہے ۔ ایک بات ناقابل فہم اور ورائے فراست ہے ،اور وہ یہ کہ ایلان مسک ہو یا ڈونلڈ ٹرمپ ،دونوں انتہا پسند صیہونیوں سے ڈرتے بھی ہیں اور ان کے اشارہ ابرو پر متوجہ اور عامل بھی رہتے ہیں۔چلیں مان لیا کہ ہمیں علامہ اقبال نے بہت پہلے سے بتا دیا تھا کہ فرنگ کی رگ جاں پنجۂ یہود میں ہے ،لیکن یہ "پنجۂ یہود” میرے نزدیک یہودیوں سے نہیں ، یہودیوں کے بگڑے ہوئے انتہاء پسند صیہونیوں کی دہشتگردانہ انتہاء پسندی سے تعلق رکھتا ہے۔میرے نزدیک اسرائیلی ریاست نے دنیا بھر میں یہودیوں کو سب سے زیادہ بدنام اور سب سے زیادہ غیر محفوظ کیا ہے ۔ اسرائیل کے صیہونیوں نے دنیا بھر سے یہودیوں کو اپنی ریاست کا خواب دکھا کر اور فلسطینیوں سے جبراً چھینی گئی زمینوں پر آباد کر کے ،بالآخر ایران کے میزائیلوں کے حوالے کر دیا۔اگر صیہونی مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں پر بمباری کریں گے تو کیا جواب میں اسرائیلی ریاست پر پھولوں کی برسات تو نہیں ہوگی ، لازماً میزائیل اور ہلاکت خیزی ان کا مقدر بنے گی۔یاد رکھنا چاہیے کہ اسرائیل یہودیوں کی نمائندہ ریاست نہیں ہے۔اس ریاست کو مسیحی یورپ اور امریکہ نے یہودیوں سے انتقام لینے ، ان کی علم دوستی ، صدیوں کے تجربات سے حاصل کردہ امن پسندی اور معیشت سازی کو انتہا پسند اور دہشت گرد صیہونیوں کے ذریعے بدنام کرنے اور عالم عرب کو مستقل اذیت دینے کے لیے قائم کیا تھا ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نامی ساقط الاعتبار اور مکار فرعون کو نیویارک کے یہودی ختم کریں گے۔مان لیجیے کہ مسیحی یورپ اور اسی کی توسیع امریکہ نے یہودیوں کی نمائیندگی دہشت گرد صیہونیوں کے سپرد کر کے مسلمانوں کو نشانہ بنا رکھا ہے ۔میں مذہب کے حوالے سے انسان کو شناخت کرنے پر یقین نہیں رکھتا ،لیکن صیہونیوں کو عالمِ عرب اور اب عالمِ عجم کے سر پر سوار کرنے والے یہی مسیحی یورپ اور امریکہ ہی ہیں۔ اسرائیل اور امریکہ نے ایران پر مجرمانہ حملے کئے تھے، جواب میں اسرائیلی اور امریکی اہداف کو نشانہ بنانا ایران کے حق اورحمیت کا معاملہ تھا۔ میں ایران کو فرقہ وارانہ عینک سے نہیں دیکھتا ۔وجہ یہ ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کے بم اور میزائل مسلمانوں کو فرقہ اور عقیدہ پوچھ کر نہیں مارتے۔ اسرائیل کی شروع کردہ جنگ اپنے مقاصد اور مفاسد پورے کئے بغیر ختم ہو چکی ہے ۔اس جنگ نے جہاں ایک طرف اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کے تصور کو پاش پاش کر دیا ہے ،وہیں امریکہ کے سپر پاور ہونے کے تاثر اور تصور کو بھی دفن کر کے رکھ دیا ہے۔یہ دنیا میں پہلی مثال ہے کہ دو ایٹمی صلاحیت اور اسلحہ رکھنے والے ممالک نے طویل عرصے سے پابندیوں کے شکار ایک ملک پر حملہ آور ہو کر ، مشترکہ طور پر رسوا ہوئے ہوں۔ڈونلڈ ٹرمپ نیتن یاہو کو لگام ڈالنے کی بجائے خود اپنے گلے میں رسوائی کا پٹہ ڈال کر ایران پر بلاک بسٹر بموں کا حملہ کر بیٹھا۔یہ جنگی جرم تھا، جس کا ارتکاب امریکہ نے کیا ۔ حیرت انگیز لطیفہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ کر گزرنے اور رسوائی سمیٹنے کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ چپکے چپکے امن کا نوبل انعام حاصل کرنے کے خواب دیکھتا اور مبینہ طور پر نیند میں مسکراتا رہتا ہے ۔اگرچہ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے ٹرمپ کو پاک بھارت جھڑپ اور جنگ کو رکوانے کے حوالے سے امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔ لیکن اس نامزدگی کی سب سے پہلی تکذیب اور تردید خود ڈونلڈ ٹرمپ نے کر دی تھی ؛ یعنی اس نامزدگی کے اگلے ہی روز اسرائیل کی ایران کے ہاتھوں لٹ چکی عزت بچانے کی خاطر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کی تین ایٹمی تنصیبات پر بے سود بمباری کروا دی۔ گویا یوں کہیئے کہ سال 2026ءکے نوبل امن پرائز پر نامزدگی کے منہ پر اگلے ہی روز تین زوردار طمانچے رسید کر دیئے گئے۔اب اس پر ایک پرانا واقعہ یاد آ رہا ہے ۔1939ء میں ایک سکینڈے نیوین ملک کے رکن پارلیمنٹ نے جرمن چانسلر ایڈولف ہٹلر کو امن کے نوبیل انعام کے لیے نامزد کر دیا تھا۔ اس نامزدگی سے ہر طرف حیرت اور حماقت آشنائی کے بادل چھا گئے۔ ذہین لوگوں نے اس نامزدگی کو محض طنز و مزاح کا عنوان خیال کیا تھا، بہرحال بتانے والی بات یہ ہے کہ تماشا لگانے کے بعد اس نامزدگی کو چپکے سے واپس لے لیا گیا تھا ۔ بہرحال اس سے ثابت ہوتا ہے کہ امن کا نوبل انعام جنگیں کاشت کرنے والے مجرموں کو نہیں ملا کرتا ۔حالیہ تنازع میں ایران نے اسرائیل اور امریکہ کی فوقیت اور رعب کو خاک میں ملا دیا ہے ؛ جبکہ اسرائیل نے خطے میں ایران کی سخت جانی اور ناقابل تسخیر ہونے کی دھاک بٹھا دی ہے ۔اب ممکن ہے کہ جملہ عرب ممالک بھی امریکہ کی غلامی اور اسرائیل کے خوف کے حصار سے باہر نکلنے کا خواب دیکھ سکیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button