ہفتہ وار کالمز

ہوتے جو مسلمان بھی ایک !

اگر کسی صاحبِ فہم و دانش کو آج سے پہلے یہ رومانوی گمان رہا ہو کہ ملتِ اسلامیہ، جو چودہ سو برس میں کبھی ایک مرکز پہ جمع نہیں ہوئی، شاید کسی ایسے عمل کے نتیجہ میں جو تمام عالمِ اسلام کیلئے خطرہ کی گھنٹی ہو ایک مرکز،ایک پلیٹ فارم پہ مجتمع ہوجائے تو انہیں اس خوش فہمی کو خیرباد کہنے کیلئے کئی عوامل ہیں لیکن سب سے مضبوط یہ دلیل ہے کہ ایران پر اسرائیل کی ننگی جارحیت کے بعد بھی عالمِ اسلام پہ سناٹے کا پہرہ ہے۔!
اسرائیلی جارحیت کے جواب میں کسی ایک نام نہاد برادر اسلامی ریاست کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ ایران کی مدد کیلئے کوئی ایسا کام کرتا جس سے یہ خیال پیدا ہوتا کہ وقت پڑنے پر اب بھی عالمِ اسلام میں بیداری کی وہ رمق باقی ہے جو اس بھائی کیلئے قربانی کے جذبہ کو ہوا دے جو امتِ محمدی کی اساس اور بنیاد ہے۔
لیکن توبہ کیجئے۔ سوائے یمن کے غریب اور مفلوک الحال حوثیوں کے کسی مسلم جمعیت یا قوم نے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جس سے یہ آس باندھی جاسکے کہ امتِ مسلمہ دیر سے سہی، کروٹ لے رہی ہے، بیدار ہورہی ہے اور ان خطرات سے متحد ہوکے نبرد آزما ہونے کیلئے آمادہ ہے جو دنیا بھر میں مسلمانوں کو للکار رہے ہیں اور ان کے قومی اور ملی مفادات کو کھلم کھلا چیلنج کر رہے ہیں !
زبانی کلامی مظلوم ایران کے ساتھ اپنی ہمدردی ظاہر کرنے کیلئے بیانات کی کمی نہیں۔ ہمارا پاکستان بھی اسی نہج پر چل رہا ہے جبکہ پاکستان کے بنانے والے کا خواب یہ تھا کہ پاکستان اپنے نظامِ ریاست میں اسلام کی وہ اصل اور حقیقی روح پھونک دے جو پوری مسلم دنیا کیلئے نمونہ عمل ہوگی، تقلید کا محور ہوگی اور پاکستان پوری مسلم دنیا کو اپنے ساتھ لیکر اس خواب کو تعبیر بخشنے کیلئے آگے بڑھے گا جو تاریخ کے ہر دور میں مسلمان دانشوروں اور حکماء نے دیکھا تھا کہ مسلم دنیا پھر سے اسی نظام کو ترویج دے سکے جس کی بنیاد ہمارے پیارے رسول ﷺ نے ریاستِ مدینہ میں ڈالی تھی !
ہم اور مسلمان ممالک یا ریاستوں کا کیا رونا روئیں جب ہم خود پاکستان پر وہ نظامِ فسطائیت مسلط دیکھ رہے ہیں جس نے مسلم دنیا کی دوسری سب سے بڑی ریاست کے باسیوں کو ظلم و تعدی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔
ہمارا پاکستان تین سال پہلے تک کہنے کو آزاد تھا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان بنانے والے مشاہیر کو چار پانچ سال میں منظر نامہ سے بیدخل کرنے کے بعد سے ہمارے جرنیلوں نے پاکستان کو اپنی ہوس کا ایسا مطیع بنایا جس نے نہ ملک میں کبھی جمہوریت کے پودے کو جڑ پکڑنے دیا نہ عوام میں وہ شعور پروان چڑھنے دیا جو ایک آزاد اور جمہوری ریاست کے باشندوں کی اصل طاقت ہوا کرتا ہے۔
لیکن گذشتہ تین برس میں تو ہمارے طالع آزما جرنیلوں نے کمال بے حیائی اور ڈھٹائی سے شرم کا وہ باریک سا پردہ جو ستر برس سے پڑا ہوا تھا اٹھا دیا!
اب، آج کا پاکستان ہر اعتبار سے ہوس گزیدہ جرنیلوں کے چنگل میں جکڑا ہوا "مقبوضہ” پاکستان ہے جس میں ہر طرح کی شخصی اور جمہوری آزادیاں مکمل طور سےمفقود ہیں۔ دراصل آمرِ وقت عاصم منیر، اوہ، معاف کیجئے "فیلڈ مارشل” عاصم منیر اسلئے کہ انہوں نے تو کمال بے حیائی سے کوئی کارنامہ سرانجام دئیے بغیر اپنے سر پہ فیلڈ مارشل کا تاج رکھ لیا، بس دنیا دکھانے کو کٹھ پتلی شہباز شریف اور جو ربر اسٹامپ کابینہ ہے اس سے اپنے حق میں ایک قرارداد منظور کروالی۔ کٹھ پتلیاں بھی کیا کرتیں اسلئے کہ ان کی جڑیں عوام میں نہیں ہیں اور ان کے اقتدار کا تمام تر دار و مدار خوشنودیٔ عاصم منیرمیں ہے !
لیکن ہماری ملی تاریخ بھی اتنی ہی شرمندگی اور ضمیر فروشی سے آلودہ ہے جتنی ملت اسلامی کی چودہ صدیوں کی منتشرِ وحدتِ تاریخ۔
ہماری پاکستانی تاریخ یہ ہے کہ ہمارے جرنیل اور عسکری طالع آزماءآج سے نہیں بلکہ پاکستان بننے کے بعد سے سامراجی طاقتوں خاص طور پہ امریکی سامراج کے غلام بلکہ طابع فرمان رہے ہیں۔ امریکی توسیع پسندی کیلئے بھی جرنیلوں کی غلامی سہولت کی بات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر عسکری آمر کو امریکہ کی حمایت حاصل رہی ہے اور اپنے اقتدار کیلئے ہر طالع آزما نے ملک و قوم کی غیرت اور حمیت کا سودا بغیر کسی چون و چرا کے کیا ہے۔
اب جب سامراج کی غلامی کا یہ حال اور غلبہ ہو تو کیسے ممکن ہے کہ پاکستان جارحیت کے شکار ایران کی مدد کیلئے انگلی بھی اٹھا سکے۔ ایران پر صیہونی جارحیت محض اسرائیل کا کھیل نہیں ہے بلکہ امریکی سامراج اور صیہونی گٹھ جوڑکا عملی مظاہرہ ہے۔ اسرائیل کی غیر مشروط حمایت امریکہ کا ایمان اور دھرم ہے۔ اسرائیل ننگی جارحیت کا مرتکب ہو لیکن امریکہ کی نظر میں اسرائیل ہمیشہ ہی مظلوم ہے اور اپنے اس مظلوم یتیم کی امداد کیلئے امریکہ کے خوفناک اسلحہ اور جنگی ساز و سامان کیلئے امریکہ کا سینہ بہت فراخ ہے۔
صدر ٹرمپ، جن کا اپنا ایجنڈا بھی ایران کی انقلابی اور اسلامی قیادت کو تہس نہس کرنے کا ہے ، واشگاف الفاظ میں بر فخر و تمکنت کے ساتھ یہ اعلان کر رہے ہیں کہ وہ امریکی اسلحہ، جو بہت مہلک ہے، اس سے اپنے محبوب اسرائیل کی مدد کرتے رہینگے اور ایران کو ایک طرح سے دھمکی دینے کیلئے مزید یہ ٹکڑا بھی لگا رہے ہیں، اپنے مخصوص انداز میں جس میں رعونت کا تڑکا ضرور ہوتا ہے، کہ اسرائیلی اس امریکی اسلحہ کو بخوبی استعمال کرنا جانتے ہیں۔
جانیں گے کیوں نہیں جب پچھلے ساٹھ برس سے ہر سال کم از کم چار ارب ڈالر کا امریکی اسلحہ اسرائیل کو تحفہ میں دیا جاتا ہے اور جب سے اسرائیل کی صیہونی حکومت نے غزہ میں قتلِ عام شروع کیا ہے اس وقت سے تو امریکہ نے اپنے خزانے کا منہ اسرائیلی جارحیت اور خونریزی کو ہوا دینے کیلئے کھول دیا ہے۔
تو عالمِ اسلام میں امریکہ کی غلام حکومتیں اور سربراہانِ حکومت و مملکت، جن میں ہمارے عرب شیوخ پیش پیش اور نمایاں ہیں، بھلا کیسے ایران کی مدد کو آسکتے ہیں۔ امریکہ کی ناراضگی مول لینا ان کے منشور میں شامل ہی نہیں ہے اور ہم ، یعنی ہمارے ہوس گزیدہ یزیدی جرنیل، ٹہرے غلاموں کے غلام۔ عرب شیوخ امریکہ کے غلام ہیں اور ہم امریکی غلاموں کے غلام اور باجگذار۔ تو پھر کسی بھی پاکستانی کا اپنے حکمرانوں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ جارحیت کے شکار ایران کی حمایت میں الفاظ کے گھوڑے دوڑانے کے علاوہ اور کوئی اقدام اٹھائینگے خام خیالی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے !
کیا ہوا اگر ہمارے حکیم الامت، جنہیں ہم مصورِ پاکستان کے نام سے یاد رکھتے ہیں اور ہر سال ان کی سالگرہ بھی مناتے ہیں اور برسی بھی ، نے یہ خواب دیکھا تھا کہ امتِ محمدی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر امت کے مفاد کیلئے اقدام اٹھائے گی اور ملتِ اسلامیہ شیر و شکر ہوجائے گی۔
وہ علامہ کا خواب تھا، رومانی خواب۔ انہیں کیا علم تھا کہ سامراج سے برائے نام آزادی پانے کے بعد اور غلامی کی بیڑیاں اتارنے کے بعد بھی اسلامی معاشرے بد نہاد قائدین اور نام نہاد لیڈروں کے زیرِ تسلط عملا” سامراج کے غلام ہی رہینگے اور ہر وہ کام کرینگے جس میں ان کی قوم کا نقصان اور سامراجی طاقتوں کا فائدہ ہو۔
سو اس ایران کو صیہونیت اور سامراج کے گٹھ جوڑ کا شکار ہوتے دیکھ کر عالمِ بالا میں اقبال کی روح کتنی بے چین ہوگی اس کا اندازہ وہ بخوبی لگاسکتے ہیں جنہوں نے غلامی کو پڑھا ہے اور ان کے ذہن کی روش کو پہچانا اور جانا ہے۔
علامہ نے تو کہا تھا
منفعت ایک ہے اس قوم کا نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک!
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
علامہ کو کیا معلوم تھا کہ "آزاد” مسلم ممالک اپنے ملت فروش حکمرانوں کی ابلیسی عیاریوں کے تحت سامراج کے نمکخوار اور غلام رہینگے اور قوم کا نفع نقصان جیسی فرسودہ باتوں سے جذباتی طور پہ متاثر ہوئے بغیر سامراجی غلامی کی لکیر کے فقیر ہی رہینگے !
ہمارے یزید فیلڈ مارشل عاصم منیر بھی اپنی تاجپوشی کیلئے چچا سام کی آشیرواد لینے کیلئے بغیر ان کے بلاوے کا انتظار کئے بغیر واشنگٹن یاترا پر نکل پڑے ۔ چچا سام اگر ان کے سر پہ ہاتھ رکھ دیں تو ان کیلئے یہ جنت کا پروانہ مل جانے والی بات ہے۔ اسی لئے تو انہوں نے اسلام آباد میں دفترِ خارجہ کی اور واشنگٹن میں ہمارے سفیر کی نیندیں حرام کی ہوئی تھیں کہ جس طرح بھی ممکن ہو ان کیلئے واشنگٹن میں ہونے والی اس پریڈ کا دعوت نامہ حاصل کیا جائے جو امریکی فوج کی ڈھائی صد سالہ سالگرہ منانے کیلئے 14 جون کو منعقد ہوئی اور اس دن کا انتخاب یوں کیا گیا کہ اپنے عشق میں مبتلا، نرگیسیت کے مارے صدر ٹرمپ کا 79واں جنم دن بھی تھا۔
ہمارے فرعون صفت حکمراں اور آمر کیلئے اس سے بڑی اور کیا بات ہوسکتی تھی کہ وہ امریکہ کی سامراجی افواج کے جنم دن کے جشن میں بھی شریک ہو اور ٹرمپ کو بھی جنم دن کی بدھائی دے۔
اب پتہ نہیں کہ اس غاصب کی مراد پوری ہوئی کہ نہیں لیکن یہ ضرور ہوا کہ اس کی واشنگٹن یاترا پر برہم پاکستانی، جو عمران خان کے شیدائی بھی ہیں، ہزاروں کی تعداد میں وہاں جمع ہوئے اور یزید عاصم منیر کی مذمت میں جو مظاہرہ واشنگٹن میں ہمارے پاکستانی سفارت خانے کے باہر ہوا وہ یادگار رہے گا۔!
حکمراں سامراج کے غلام ہوں سو ہوں لیکن پاکستانی قوم بیدار ہے، زندہ ہے اور بدنصیب ہے کہ اسے سامراجی گماشتے ہی ملے اور وہ رہنما جو اپنے سینے میں قوم کا درد بھی اتنا ہی رکھتا ہے جتنا ملتِ اسلامیہ کا وہ ان فرعون صفت غاصب حکمرانوں کی قید میں ہے۔ اس سے بڑا المیہ کیا ہوسکتا ہے ؟
؎چلے ہیں اہلِ حرم دیر کو سند پانے
بتوں کے سامنے جھکنا ہی ان کا شیوہ ہے
انہوں نے بیچ دیا تجھ کو کوڑیوں کے عوض
اے قوم مجھ کو تری بے حسی سے شکوہ ہے !

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button