0

قیدی صرف عمران خان نہیں، پوری قوم ہے!

پاکستانی قوم بدنصیب ہے کہ پاکستان بنانے والوں کے بعد سے اسے سیاسی قیادت کے نام پر جو شعبدہ گر ملے انہوں نے نہ صرف ملک و قوم کو مسلسل اضطراب و بے چینی میں مبتلا رکھا بلکہ پاکستان کو زوال کے اس گرداب میں غرق رکھا جس نے پاکستان کے سفینہ کو آجتک اپنی گرفت سے نکلنے نہیں دیا۔
عمران خان کا پاکستانی سیاست کے افق پر طلوع ہونا ایسے تھا جیسے گہرے سیاہ بادلوں کے باوجود ہلالِ عید نظر آگیا ہو۔ مایوس اور دلبرداشتہ قوم کو گھپ اندھیرے میں روشنی کی کرن دیکھنے کو ملی تھی۔ عمران پاکستان بنانے والے قائدین کی طرح کھرا اور دیانت دار تھا، ملک و قوم سے مخلص تھا۔ سیاست اس کیلئے طاقت کے ارتکاز اور اس کے ذریعہ مال لوٹنے اور قوم کے وسائل پر ڈاکہ ڈالنے کا وسیلہ نہیں تھا بلکہ وہ پاکستان کے غریب عوام کیلئے وہ کچھ کرنا چاہتا تھا جس کا خواب قائد اعظم علیہ رحمتہ نے دیکھا تھا۔
لیکن پھر عمران کی مخالفت پر وہ ڈٹ گئے، صف آراء ہوگئے جو پاکستان کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں اور گذشتہ ستربرس سے ملک کی سیاست اور ریاستِ پاکستان پر ناگ بن کے مسلط ہیں ۔ یہ وہ سانپ ہیں جن کے تکبر اور زعمِ طاقت نے آدھا ملک گنوادیا لیکن ان کے طور طریقے اور اپنے ڈنڈے کی طاقت پر گھمنڈ آج بھی ویسا ہی زہریلا ہے جیسا بنگلہ دیش بنواتے وقت تھا بلکہ عمران کی حکومت کو گرانے اور اس کی جگہ مسندِ اقتدار پہ اپنی پسند کے چور اور ڈکیت بٹھانے کا جو گھناؤنا کام ان جرنیلوں نے کیا ہے وہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ان کی فرعونیت بدرجہا بڑھ چکی ہے۔
8 فروری کے انتخابات پر عوام کے منشور پر جس دیدہ دلیری اور بے حیائی سے شبخون مارا گیا اور جمہور کے فیصلے کے برعکس جو نتائج مرتب کئے گئے اس نے ایک طرف تو دنیا میں پاکستان کو جگ ہنسائی کا عنوان بنادیا لیکن دوسری طرف اب یہ سامنے آرہا ہے کہ وہی نامی چور اور ڈکیت جن کی لوٹ مار اور کرپشن پاکستان کے بچے بچے پر عیاں ہے پھر سے قوم پر ڈنڈے کے بل مسلط کئے جارہے ہیں۔
دنیا میں ایسی کوتاہ بیں عسکری قیادت اور کسی ملک و قوم کے حصہ میں نہیں آئی جیسی پاکستانی قوم کے سادہ لوح قوم نے ایک ایسی بزدل فوج کو گلے لگایا اور میری دانست میں اسے اس کی اوقات سے بڑھ کر پیار اور محبت دیا جس نے آج تک کوئی جنگ نہیں جیتی، دشمن کی سرزمین کا ایک انچ فتح نہیں کیا بلکہ اس کے برعکس آدھا ملک اپنی بزدلی اور تکبر کے ہاتھوں کھو دیا۔
لیکن اس کے جواب میں اگر عسکری قیادت میں شرافت کی کوئی رمق ہوتی تو وہ قوم کے خلوص و محبت کو سراہتی، اس کی قدر کرتی لیکن پاکستان کے جرنیلوں کا اپنی قوم کے ساتھ جو رویہ ہے وہ تو اس سے بدترہے جو کوئی دشمن فوج پاکستانی عوام کے ساتھ کرتی!
یوں لگتا ہے جیسے پاکستان پر کوئی عوام دشمن بیرونی طاقت قابض ہوگئی ہو اور ہر طور اور طریقے سے مفتوح قوم کو ذلیل کر رہی ہو۔
ان دنوں سوشل میڈیا پر ایک چبھتی ہوئی پوسٹ بہت گردش کررہی ہے پاکستانی جرنیلوں کے متعلق۔ وہ یہ ہے کہ’’ ان جرنیلوں نے آجتک جنگ تو کوئی بھی نہیں جیتی لیکن الیکشن کوئی نہیں ہارا‘‘
ویسے یہ حالیہ، 8 فروری کا الیکشن ان فرعونوں نے بہت ذلت سے ہارا تھا۔ پاکستانی جمہور نے عمران خان کے حق میں تو ووٹ دیا تھا، اور بلا شک و شبہ اسے ووٹ دیا تھا لیکن اس کے پردے میں یہ ان گھمنڈی اور نشہء طاقت سے مغلوب جرنیلوں کے منہ پر زناٹے کا طمانچہ بھی تھا جن کا یہ زعم ہے کہ پاکستانی عوام جاہل اور سیاست سے نابلد ہیں، نا آشنا ہیں اور وہ خود ذہانت اور بصیرت کا سرچشمہ ہیں اور عوام پر فرض ہے کہ وہ ان کی بصیرت کو اللہ کا فرمان سمجھ کر قبول کریں اور آنکھ بند کرکے اس پرعمل بھی کریں۔
اسی زعم میں تو عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا، تحریکِ انصاف سے جیتی ہوئی نشستیں چھینی گئیں، اور کمال بے شرمی اور بے غیرتی سے چھینی گئیں۔ اور اب انہیں چوروں ، ڈاکوؤں اور اٹھائی گیروں کو قیادت سونپی جارہی ہے جو ان کے پروردہ ہیں، ان ہی کی طرح گلے گلے تک کرپشن میں مبتلا ہیں لیکن اس کے باوجود وہ جرنیلوں کے پیارے اور دلارے ہیں کیونکہ خود بھی کھاتے ہیں اور بے ضمیر جرنیلوں کو بھی کھانے کا موقع دیتے ہیں۔ یہ ملی بھگت، یہ چو روں کی سنگت اسی لئے ہے کہ ان کا ایمان اور دھرم صرف پیسہ ہے اور یہ مل بانٹ کے پاکستان کو کنگال کررہے ہیں لیکن ان کی اپنی تجوریاں بھرنے کا نام نہیں لے رہیں!
عسکری قیادت کا موجودہ ٹولہ بے غیرتی اور بے شرمی کی تمام حدیں پار کرچکا ہے۔ پاکستان پر جس فسطائیت کا اس وقت راج ہے پہلے کبھی نہیں تھا۔ صرف عمران ہی چھہ مہینوں سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہیں ہے بلکہ پوری قوم، سوائے ان فرعون جرنیلوں کے کرپٹ سیاسی گماشتوں کی نفری کے سلاخوں کے پیچھے ہے۔
انتہا ہے بے غیرتی کی کہ دنیا تھو تھو کررہی ہے، دنیا کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر اعلان کر رہی ہے کہ پاکستانی جرنیلوں نے عوام کے مینڈیٹ کو چرایا اور ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا ہے لیکن یزید عاصم منیراپنے آپ کو عقلِ کل سمجھتے ہوئے طنز کر رہا ہے کہ پاکستانی نوجوانوں نے آنکھیں بند کرکے عمران کے حق میں ووٹ دیا ہے۔
بندر بانٹ کا منظر نامہ قوم کی آنکھوں کے سامنے دیدہ دلیری سے یوں مرتب ہورہا ہے کہ سندھ میں تو ڈکیت زرداری کا راج جوں کا توں واپس آگیا ہے اور مہاجر فروش ایم کیو ایم کے چھٹ بھیے پالتو کتوں کی طرح دُمیں ہلاتے ہوئے اس کے ساتھ ہیں۔
زرداری جیسے ڈکیت کا عروج پاکستان کے زوال پر حرفِ آخر ہے۔ یہی نہیں کہ ملک میں سب سے زیادہ وسائل پیدا کرنے والے کراچی کو اس ڈکیت نے اپنی ہوسِ زر میں دنیا کا سب سے بڑا کوڑا گھربنادیا ہے بلکہ اب یہ ڈاکو پاکستان کا دوسری بار صدر بھی بننے والا ہے۔
کیا ہوگا اس پاکستان کا حال جس کی عسکری قیادت ایک یزید ثانی کے چنگل میں ہے اور وہ ملک میں نت نئے کوفے بنا رہا ہے، ریاست کی بساط پر اپنی پسند کے مہرے بٹھا رہا ہے، وہ مہرے جو بار بار پٹ چکے ہیں لیکن یزید عاصم منیر کیلئے وہی کام کے ہیں۔ ہمارے یہ چار مصرعے اس صورتِ حال کی یوں عکاسی کرتے ہیں:
؎چوروں کا ٹولہ پھر سے مسلط ہے قوم پر
ملت فروش عسکری رہزن کی دین ہے
منشور پہ جمہور کے ڈاکہ پڑا ہے وہ
ہر سمت اضطراب و فغاں اور بین ہے!
کیا ہوگا اس پاکستان کا حال جس کا صدرِ مملکت دنیا کا سب سے بڑا رسوائے زمانہ ڈاکو ہے!
کیا ہوگا اس پاکستان کا حشر جس کا وزیرِ اعظم ایک بوٹ پالشیا، بہروپیا، شہباز شریف ہے!
اور کیا ہوگا ملک کے سب سے بڑے صوبے کا انجام جس کی نامزد وزیرِ اعلا، نواز شریف جیسے بدنامِ زمانہ چور اور غاصب کی دختر ہے جس کا سب سے معروف وصف یہ ہے کہ اس جیسی بلیک میلر تو پاکستان میں پیدا ہی نہیں ہوئی ۔ مریم نواز کے اپنے قول کے مطابق اس کے قبضے میں ہزارہا ویڈیوز ہیں جن کے ذریعہ وہ پاکستان کے سرکردہ افراد کو بلیک میل کرسکتی ہے!
مریم نواز نے بے شرمی اور بے حیائی کی تمام حدیں پار کرلیں یہ کہہ کر کہ ان کی بادشاہی میں سرخ لکیر (انہوں نے اسے ریڈ لائن کہا ) کرپشن ہوگی اور وہ کسی کرپشن کو برداشت نہیں کرینگی!
اللہ اللہ دیانت داری کا دعویٰ وہ کر رہی ہے جس کا خون ہی کرپشن زدہ ہے، جس کے باپ نے پاکستان کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے اور جس کا اپنا ریکارڈ بھی کرپشن سے آلودہ ہے بلکہ پورے پاکستان میں مریم نواز سے زیادہ اخلاقی اور تہذیبی کرپشن کسی نے نہیں کیا ہوگا!
قوم کے افراد کا ایک امتحان وہ تھا کہ جس میں وہ عمران خان کی تکبیر حق پہ لبیک کہتے ہوئے گھروں سے نکلے اور عسکری طالع آزماؤں اور منافق، بے ضمیر ججوں کی ریشہ دوانیوں کے باوجود عمران اور تحریکِ انصاف کے حق میں ووٹ دیا۔ اس امتحان میں عوام سرخرو رہے۔
لیکن اب دوسرا بڑا امتحان ہے جو پہلے کے مقابلے میں زیادہ ہمت آزما اور کٹھن ہے۔ اسے یہ طے کرنا ہے، اور مزید وقت گنوائے بغیر طے کرنا ہے، کہ وہ عاصم منیر کے یزیدی ٹولے کے ظلم و ستم کو یونہی خاموشی سے سہتے رہینگے یا غزہ کے مجاہدوں کی پیروی میں ظلم و بربریت سے دو دو ہاتھ کرنے کیلئے سر سے کفن باندھ کر میدان میں کود پڑینگے؟ عوام کے فیصلے پر ہی پاکستان کے مستقبل کا دار و مدار ہے اور حال کے اندھیروں سے باہر نکلنے کا بھی!
یہ ملت فروش، عوام دشمن، یزیدی ٹولہ جو ملک پر اپنے پنجے گاڑے ہوئے بیٹھا ہے یوں آسانی سے نہیں جائے گا۔ یہ لاتوں کے بھوت ہیں باتوں سے نہیں ماننے والے۔ ان سے چھٹکارا ، اور جلد از جلد چھٹکارا پانا، وقت کی اور قوم کی سب سے بڑی آزمائش ہے۔ اس آزمائش میں بڑے کٹھن مقامات آسکتے ہیں لیکن اس میں پس و پیش اسی طرح مہنگا پڑسکتا ہے جیسے مشرقی پاکستان کے المیہ میں ہوا تھا۔
یزیدیوں نے پاکستان کا جو حلیہ بگاڑا ہے، جو حشر کیا ہے، اس پر محب وطن پاکستانی تو روتے ہی ہیں لیکن میں یہ سوچتا ہوں کہ پاکستان بنانے والے قائد اعظم عالمِ بالا میں کس اضطراب کا شکار نہ ہونگے اپنے پاکستان کی یہ درگت بنتے دیکھ کر؟
تو یہ چار مصرعے بطورِ خاص بابائے قوم کی نذر ہیں:
مزار بن گیا ہے تشنہ حسرتوں کا مری
یہ میرے دیس کو کس کی نظر نے کھایا ہے
کہ باغباں کی ہوس نے اجاڑا ہے گلشن
محافظوں نے ہی لنکا کو میری ڈھایا ہے !

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں