0

غزہ اور صدر امریکہ کی بے بسی!

کیا کسی عالمی طاقت کا صدر بے بس ہو سکتا ہے۔ صدر امریکہ کے کانگرس کو بھیجے ہوے بل اگر منظور نہ ہوسکیں تو انہیں بے بس تصور کیا جاتا ہے۔ اس صورت میں وہ ایگزیکٹیو آرڈرکے ذریعے وقتی طور پر تو اپنی پالیسی پر عملدرآمد کرالیتاہے مگر مستقل طور پر اپنا ایجنڈا نافذ نہیں کر سکتا۔سینٹ اور ایوان نمائندگان میں سے کسی ایک ایوان میں بھی اگر صدر امریکہ کی جماعت کو برتری حاصل نہ ہو تو انکی صدارت غیر مئوثر ہو کر رہ جاتی ہے۔ چند روز پہلے ہائوس سے ایمی گریشن بل منطور کرانے کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی نے اعلان کیا کہ وہ ریپبلیکن پارٹی کی ایک آدھ کے سوا تمام شرائط مان لیگی۔ اسکے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی کہ صدر امریکہ طویل عرصے بعد ایک بڑی کامیابی حاصل کر لیں گے مگر مخالفین نے انکی یہ پیشکش نا منطور کر کے انہیں مایوس کر دیا۔ وجہ اسکی یہی تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ اس بل کے حق میں نہیں تھے۔ سابقہ صدر اپنے مد مقابل کوایک بڑی کامیابی سے محروم رکھنا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے اس بل کو مسترد کروا دیا۔
غزہ میں جنگ بندی کا معاملہ بھی امریکہ کی داخلی سیاست سے جڑا ہوا ہے۔ صدر بائیڈن امریکی مسلمانوں اور عرب ممالک کو یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کے علاوہ فلسطینی مسئلے کے دو ریاستی حل کے لیے بھی کوشش کر رہے ہیں مگر اسرائیل راضی نہیں ہو رہا۔ امریکی مسلمانوں کو قائل کرنے کی ضرورت انہیں درپیش نہ آتی اگر اس سال نومبر میں صدارتی انتخابات نہ ہوتے۔گذشتہ ہفتے سیکیورٹی کونسل میں امریکہ نے تیسری مرتبہ غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کیا۔ سات اکتوبر کو شروع ہونیوالی جنگ میںاب تک بیس لاکھ سے زیادہ فلسطینی اسرائیل کے فضائی حملوں کی یلغار میں زندگی گزار رہے ہیں۔ پانچ ماہ میںتیس ہزار کے لگ بھگ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں اور معروف Epidemiologists یعنی ماہرین وبائیات) کسی مخصوص آبادی میں امراض‘ صحت عامہ اور ادویات کی تقسیم جیسے معاملات کا مطالعہ کرنے والے( کہہ رہے ہیں کہ یہ جنگ اگر چھ مہینے مزید جاری رہتی ہے تو ہلاک شدگان کی تعداد 85 ہزار تک پہنچ جائیگی۔ دوسری طرف اسرائیل امریکہ کے مشوروں کو نظر انداز کرتے ہوے مصر کی سرحد پر واقع رفاح پر حملے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ غزہ کے جنوب میں واقع اس شہر میں اس وقت دس لاکھ بے گھر فلسطینی پناہ لئے ہوے ہیں۔ کھلے آسمان اور خیموں میں رہنے والے یہ بے بس لوگ چار ماہ پہلے اپنے گھر بار چھوڑ کر یہاں آئے تھے۔ یہ بے گھر فلسطینی خوراک‘ پانی‘ ادویات اور بجلی کی کمیابی کے باعث کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اقوام متحدہ آئے روز اعلان کرتا رہتا ہے کہ غزہ بہت جلد قحط سالی کا شکار ہو جائیگا۔ ایسے میں امریکہ نہ تو اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی پر پابندی لگا رہا ہے اور نہ ہی سیکیورٹی کونسل میں جنگ بندی کی قراردادوں کو ویٹو کرنے سے گریز کر رہا ہے۔ ان حالات میں امریکی مسلمان کیسے یقین کر لیں کہ صدر بائیڈن فلسطینیوں کی نسل کشی کو روکنا چاہتے ہیں۔
فروری کے شروع میںوائٹ ہائوس سے صدر بائیڈن کے مشاہیر کی ایک ٹیم مشی گن کے عرب امریکنوں سے ملاقات کے لیے گئی۔ اس ریاست میںانتخابی سروے کرنے والی ایک کمپنی نے کہا ہےIf Biden does not try to do more , he is in danger of losing Michigan in November, which would almost certainly cost him the election. یعنی بائیڈن نے اگر زیادہ کوشش نہ کی تو وہ نومبر میں مشی گن سے ہار جائیگا جسکے بعد وہ تقریباّّ یقینی طور پر صدارت بھی کھو دیگا۔ عرب مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مڈ ویسٹ اور جنوبی ریاستوں میں رہتی ہے۔ اور یہی وہ جگہ ہے جہاں چھ Swing States واقع ہیں۔ مشی گن میں شکست کا مطلب اس علاقے کی دو تین مزید ریاستوں میں بھی ناکامی ہو سکتا ہے۔ اور اس وقت مشی گن میں ڈونلڈ ٹرمپ کو کئی سرویز کے مطابق صدر بائیڈن پر تین سے پانچ پوائنٹس کی برتری حاصل ہے۔ اس ریاست کی کانگرس وومن رشیدہ طلائب نے Listen To Michigan کے نام سے عرب امریکنوں کی ایک تنظیم بنا رکھی ہے۔ وائٹ ہائوس کی ٹیم کو اس تنظیم کے نامور لیڈر عبداللہ حمود‘ جو Dearborn شہر کے میئر بھی ہیں‘ نے بتایا کہ مشی گن کے عرب امریکن ہمیشہ سے ڈیموکریٹک پارٹی کو ووٹ دیتے آئے ہیں لیکن اس مرتبہ وہ بیلٹ پیپر پر Uncommitted کے آگے نشان لگا کر اپنا ووٹ ضائع کر دیں گے۔ امریکہ میں یہودی ‘ مسلمانوں سے تعداد میں بھی بہت زیادہ ہیں اور انکی مشہور زمانہ لابی امریکہ کی سیاست اور صحافت پر بھی چھائی ہوئی ہے اس لیے صدر بائیڈن عرب مسلمانوں کو قائل کرنے میں ایک خاص حد سے آگے نہ جا سکیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مشی گن کے مسلمان صدر بائیڈن کی مجبوری اور بے بسی کا خیال کرتے ہیں یا نہیں۔ وہ اگر ایسا نہیں کرتے تو پھر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر بنتے ہی اسرائیل کوغزہ میں قتل عام جاری رکھنے کا گرین سگنل دے دینا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں